ایک کروڑ کا سوال ۔۔۔۔۔تعمیر نو یا تخریب نو ؟

یہ سات دسمبر دو ہزار دس کا قصہ ہے،ایرا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں عالمی ڈونرز کانفرنس منعقد ہو رہی تھی،اس کانفرنس میں زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں تباہ شدہ انفرا سٹراکچر کی تعمیر نو اور بحالی میں ایرا کی مالی معاونت کرنے والے عالمی شراکت دار جن میں یو ایس ایڈ،یونیسف،جائیکا،یورپین کمیشن ،ورلڈ بینک،آئی ڈی بی،ایس ڈی سی اور سیڈا سمیت ستر سے زائد عطیات فراہم کرنے والے اداروں کے نمائندے اور سعودی عرب،امان،سویڈن،فنلینڈ اور بوسنیا کے سفیر بھی کنٹری دائیریکٹر یو این ڈی پی،وررلڈ بینک کے اداراہ جاتی تعمیر میں ماہر ،ڈی ایف آئی ڈی کے انفرا سٹرکچر اور ماحولیات کے مشیر اور یونیسف کے چیف فیلڈ آفیسرز کے ہمراہ مہمانوں میں تشریف فرما تھے اس کانفرنس کی سربراہی نو تعینات چیرمین ایرا حامد یار ہراج کر رہے ہیں جبکہ ڈپٹی چیئرمین ایرا لیفٹننٹ جنرل محمد ہارون اسلم مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ حکومت پاکستان،آزاد جمو و کشمیر حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت بشمول عالمی عطیات دہندگان کا اس بات پر شکریہ ادا کرنے کہ انہوں نے ایرا کو آل آؤٹ سپورٹ مہیا کی،کے بعد بڑے اعتماد کے ساتھ یہ کہ رہے تھے کہ اگرچہ پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین قدرتی سانحہ کی وجہ سے مشکل ترین حالات کا سامنا کر رہا ہے تا ہم عالمی اداروں کا پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا ایرا کی کامیاب'' سٹوری'' کا منہ بولتا ثبوت ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنے قیام کے بعد صرف پانچ سال کے قلیل عرصہ میں ایرا ایسا کامیاب ادارہ بن چکا ہے جو مستقبل میں کسی بھی نوعیت کی قدرتی آفت سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور انہوں نے ترنگ میں آکرفخریہ انداز سے پوری ترقی یافتہ عالمی برادری کو یہ دعوت بھی دے ڈالی کہ تعمیر نو اور بحالی سمیت قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے دنیا ایرا ماڈل کو اپنائے۔اس موقع پر چیرمین ایرا حامد یار ہراج نے فرمایہ کہ اگر چہ فنڈز کی قلت کے باعث تعمیراتی کاموں کی رفتار میں سستی آئی ہے تا ہم اب حکومت کی دلچسپی اور سیاسی پشت پناہی کی بدولت چند دنوں میں یہ سستی چابکدستی میں بدل جائے گی اور بالاکوٹ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بالاکوٹ کے زلزلہ متاثرین اپنے آبائی علاقوں سے جذباتی وابستگی کے باعث متاثرہ علاقہ چھوڑنے پر راضی نہیں ہیں انہوں یہ بھی کہا کہ حکومت کے لئے یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کہ وہ متاثرین کو زبردستی منتقل کرے اور میڈیا سے درخواست کی کہ میڈیا وہاں موجود خطرات کے حوالے سے شعور اجاگر کرے کہ پرانا بالاکوٹ شہر ریڈ زون میں واقع ہونے کی وجہ سے رہنے کے لئے انتہائی خطرناک ہے تا کہ لوگ رضا کارانہ منتقلی کے عمل میں حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ چیئرمین ایرا جب ے ان خیالات کااظہارفرمارہے تھے تو ایک لمحہ کیلئے یہ تاثر ابھررہا تھا کہ بالاکوٹ کے شہریوں کے لئے رہائش کامتبادل بندوبست کردیاگیاہے بس متاثرین کی ہٹ دھرمی آڑے آرہی ہے کہ وہ اپنے بوسیدہ خیمیں خود چھوڑنے پر رضامند نہیں ہیں، اس موقع پر ایرا کے چیف آف سٹاف بریگیڈیئر مسعود احمد نے ایرا کیطرف سے حاصل ہونے والی کثیر الجہتی اور ''باہمی ترقی'' کے شرکت داروں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایرا کی اربن ہاؤسنگ سیکٹر میں کامیابی کا تناسب 97% ہے اربن ہاؤسنگ شعبے میں6441 منصوبے، تعلیمی شعبہ میں1581،واٹر اور سینی ٹیشن کے شعبہ میں4002،ماحولیات میں 142،گورننس میں 363،ٹرانسپورٹ میں117 اور لیولی ہوڈ میں ستر منصوبے کامیابی کے ساتھ مکمل کر دیے ہیں۔ اس کانفرنس میں ایرا کا دعویٰ تھا کہ اس ڈونرز اینڈ سپانسرز کا نفرنس کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ باقی ماندہ ترقیاتی منصوبوں کو ایرا ( fast track basis)ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرے گا۔ اس کانفرنس کے ٹھیک تین سال بعد اکتوبر دو ہزار تیرہ میں ایرا نے جو اعداد و شمار اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے ان کے مطابق شعبہ تعلیم میں کل 5701 سکو ل ایرا نے تعمیر کرنے تھے مگر ان میں سے صرف 248 سکول تعمیر کیے تھے جو کل تعداد کا 4.27 فیصد بنتا ہے ،اور اب یہ تعداد ایرا کی ویب سائیٹ پر 2639 یعنی چھیالیس فیصد ظاہر کی جا رہی ہے ،جن میں سے تیس فیصد زیر تعمیر اور انیس فیصد ٹینڈرنگ سٹیج جبکہ تین فیسد اب بھی پلاننگ سٹیج پر موجود ہیں جبکہ موقع پر حقائق ایرا کے دیے گئے اعداد شمار سے منسلک ہیں،ہاؤسنگ سیکٹر میں ایرا کے اعداد شمار بتاتے ہیں کہ زلزلہ میں مکمل تباہ ہونے والے کل مکانات 462546 میں سے اکتوبر دو ہزار تیرہ تک 274496 مکانات تعمیر کیے جا سکے جو 43.7 فیصد بنتے ہیں ،اور اب ان کی تعداد 96 یعنی 419624 فیصد ظاہر کی جا رہی ہے جو موقع پر کافی مختلف ہے،واٹر اینڈ سینیٹیشن کے 4720 میں سے 2186 منصوبے مکمل ظاہر کیے گئے جو اب 4495 مکمل ،196 زیر تعمیر،18 ٹیندرنگ جبکہ گیارہ ڈیزائننگ سٹیج پہ ظاہر کیے جا رہے ہیں،گورننس کے 32 جو کل کا 4.48 فیصد بنتے ہیں جو اس وقت 456 یعنی 65.04 فیصد مکمل جبکہ 47 فیصد ٹینڈرنگ سٹیج میں ظاہر کیے جارہے ہیں،ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں کل 63 یعنی27.3 فیصد مکمل ظاہر کے گئے تھے جو اس وقت 164 مکمل ظاہر کے جا رہے ہیں،اسی طرح لیولی ہوڈ کے کل 2349 میں سے صرف دو منصوبے مکمل ہوئے تھے یعنی 0.59 جو اب 1351 یعنی 57.51 فیصد طاہر کیے جا رہے ہیں ۔،یہی حال سماجی بہبود،صحت ،پاور جنریشن،ٹیلی کمیونیکیشن اور سیاحت کا ہے ، ان کے علاوہ cross cutting themes میں ڈیزاسٹر ریسک ریڈکشن ،انوائرمنٹل سیف گارڈز اور صنفی مساوات کے منصوبے شامل تھے جن کے بارے میں با شعور سماجی حلقے بہت بہتر جانتے ہیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے ایرا کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین اور چیف آف سٹاف بریگیڈیئر مسعود احمد کی اس کہانی کو سچ مان لیا جائے جو انہوں نے سات دسمبر دو ہزار دس کو عالمی ڈونرز کانفرنس میں بڑے بڑے حالی دماغوں کے سامنے بیان کی تھی تو تین سال بعد مزید ترقی کے بجائے تنزلی کیسے ہو گئی،دو ہزار دس میں % 97 تکمیل کے مراحل طے کرنے والا ہاؤسنگ سیکٹر 43.7 فیصد تک کیسے آگیا ، دو ہزار دس میں مکمل ہونے والے 1581 سکولوں کی تعداد تین سال میں کم ہو کر8 24تک کیسے پہنچ گئی ،واٹر اور سینی ٹیشن کے شعبہ میں دو ہزار دس میں جن منصوبوں کی تعداد 4002 تھی یہ تعدا گھٹ کر 2186 کیسے رہ گئی ، تین سال پہلے جو گورننس میں 363 منصوبے مکمل کرنے کی خوشخبری جنرل صاحب اور محترم بریگیڈیئر صاحب نے عالمی برادری کو بھری محفل میں سنائی تھی ان کی تعد تین سال کے عرصہ میں سکڑ کر صرف 32تک کیوں آگئی ، اسی طرح باقی منصوبوں کی تعداد بھی بڑھنے کے بجائے کم ہوتی رہی ، یہ حقائق اپنی جگہ کہ ہزاروں سکولوں کی عمارات تا حال تعمیر کی منتظر ہیں،لاکھوں بچوں کا مستقبل منتخب قیادت کی نا اہلی کی بھینٹ چڑھ گیا ،مراکز صحت تعمیر نہ ہونے سے زلزلہ متاثرین کے صحت کے مسائل دگنا سے چگنا ہو گیے ،متاثرین بالاکوٹ کو در بدر کرنے کے لئے ان کے سروں پر ریڈ زون کی چھری لٹکا دی گئی ،نیو بالاکوٹ شہر بسانے کی خوائش اور آس میں اہلیان بالاکوٹ کی نسلیں بوڑھی ہو گئیں، چھت سے محروم رکھ کر اہلیان بالا کوٹ کی سماجی زندگی کا تیا پانچہ کر دیا گیا ۔مگر کوئی یہ تو بتائے کہ ایرا کے زمہ تو تعمیر نو اور بحالی کا کام لگایا گیا تھا یہ تخریب نو اور بدحالی میں کیسے مصروف ہو گیا ۔۔؟جھوٹے اعداد شمارسے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک اربوں کے فندز ٹھکانے لگانے کی اجازت کس نے دی؟ اگر عالمی برادری ،غیر ملکی سفیر اور انٹرنیشنل دونرز ایجنسیاں ایرا میں بیٹھے جید قسم کے بدعنوانوں سے بے خبر تھی تو کیا ہمارے منتخب نمائندے بھی لوٹ مار کے اس دھندے سے لاعلم تھے ؟ ایک خبر کے مطابق گزشتہ سال ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایرا کے ڈپٹی چئیرمین میجر جنرل آصف عظیم سے ایک ملاقات میں جب یہ کہا کہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں اب تک ترقیاتی منصوبوں پر کام مکمل نہ ہو نا باعث تشویش ہے،متاثرہ علاقوں میں سکولوں ،ہسپتالوں ،سڑکوں اور دیگر بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان علاقوں کے رہنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انھوں نے ایرا کو متاثرہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی اور حکومت سے ان منصوبوں کو مکمل کرنے کے لئے ضروری فنڈز کے اجراء کے لئے کہا انھوں نے یہ بھی کہا کہ متاثرہ علاقوں میں تعلیمی اداروں کی بحالی اور ان علاقوں کے بچوں کے مستقبل کوتاریک ہونے سے بچانے کے لئے حکومت خصوصی گرانٹ دے گی۔ڈپٹی چئیرمین ایرا نے ڈپٹی سپیکر کو ہزارہ ڈویژن میں ایرا کی زیر نگرانی جاری ترقیاتی منصوبوں سے متعلق تفصیل سے آگاہ کیا اور ان منصوبوں کو جلد مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔تو یہ لگا تھا کہ اب ایرا کی لٹ مار کے حساب کا وقت آ گیا ہے اب عوامی نمائندے بیرون ممالک سے متاثرین زلزلہ کی بحالی اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے لئے آنے والے اربوں کے فنڈ کا حساب مانگیں گے ،ترقی یافتہ دنیا کو قدرتی آفات میں ایرا ماڈل اپنانے کی کی پیشکش کرنے والے ایرا کے زمہ داروں سے یہ تو ضرور پوچھا جاہے گا کہ بتاؤ کہاں ہے زلزلہ کا سامنے کرنے والے زخموں سے چور چور اہلیان بالاکوٹ کی خوابوں کا شہر نیو بالا کوٹ شہر ، اربوں کی لگت سے تیارہونے والاانفرا سٹراکچر،کہاں ہے ؟تعمیر نو بحالی نظر کیوں آتی ،سماجی بہبود،صحت ،پاور جنریشن،ٹیلی کمیونیکیشن اور سیاحت ، کدھر ہے cross cutting themes میں شامل ڈیزاسٹر ریسک ریڈکشن ،انوائرمنٹل سیف گارڈز اور صنفی مساوات کی تعلیم کا سبق کس کو پڑھایا گیا ،کوئی تو پوچھتا کسی سے تو پوچھتا ان دس سالوں میں کبھی تو پوچھتا؟؟؟ مگر ہوا کیا۔۔؟ دس سال گزر گیےے مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے تین سینیٹرز میں(اعظم خان سواتی،جنرل ر صلاح دین ترمزی، ثمینہ عابد) میں سے کسی نے کبھی سینیٹ میں لب کشائی کی؟صدی کے انسانی تاریخ کے بڑے المیے پر پاکستان کی قومی اسمبلی میں موجو صدا بہار ممبر قومی اسمبلی ،قائد حریت وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف یا ان سے پہلے ان کے بیٹے سردار شاہ جہان یوسف نے قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر ایرا کی لوٹ مار پر کبھی لب ہلائے،منہ کھولا،کوئی احتجاج کیا؟ مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ر صفدر نے اس حوالے سے کوئی حرکت کی؟ یا صوبائی اسمبلی میں احمد حسین شاہ،میاں ضیا الرحمان ،سردار ظہور احمد،صالح محمد خان،شازی خان وجیہ الزمان خان شہزادہ گستاسپ خان میں سے کوئی بولا ؟؟ پھر تبدیلی کے علمبر داروں کو ہی دیکھ لیں گزشتہ سال متاثرین بالاکوٹ کا ایک وفد پشاور میں وزیر اعلیٰ سے ملا اپنی بے بسی اور کسمپرسی کا رونا رویا،عمران خان سے ملے اپنا مسئلہ بتایا مگر آج تک کچھ ہوا،زلزلہ کو دس سال کا عرصہ بیت گیا،جھوت پہ جھوٹ بولے جا رہے ہیں،ہر سال آ ٹھ اکتوبر کے موقع پر چند افسران مانسہرہ آتے ہیں چند صحافیوں کے لئے اپنی ایک گاڑی بھیجتے ہیں ،اپنے آفس میں'' طلب ' ' کر کے ان صحافیوں کے سامنے اپنے ''کارنامے''بیان کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں کسی قلم کار میں اتنی ہمت نہیں کہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایرا کے ان چالیس چوروں سے یہ ہی پوچھ لیں کہ آپ لوگوں کی زلزلہ متاثرین کے ساتھ کونسی دشمنی ہے،کوئی ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل پتہ لگا لے کہ ایرا لٹے پٹے متاثرین کے بچوں کے مستقبل سے کیوں کھیل رہے ہیں،کوئی انسانی حقوقکا علمبردار اپنے'' نصاب'' سے ہٹ کر ایرا سے سوال کر لے کہ آپ نفسیاتی طور پر کیوں اس خطہ کے لوگوں کو مریض بنانا چاہتے ہیں؟آخر ان کا جرم کیا ہے۔عمران خان کی صوبائی حکومت پانچ،دس ہزار اور لاکھ کی کرپشن پر حرکت میں آتی ہے جوایک اچھا اور حوصلہ افزاء عمل ہے مگر اربوں کی لوٹ مار میں ملوث ان کرپشن کے پنڈتوں کے گریبانوں کو کون ہاتھ دالے گا؟نیب کب متحرک ہوتا ہے ؟صوبائی احتساب کمیشن خیبر پخونخوا کے ایک قدرتی آفت کے شکار خطہ میں لوٹ مار کی داستانین رقم کرنے والوں سے کب بازپر س کرتا ہے اس کا انتظار متاثرین زلزلہ مانسہرہ اور بالاکوٹ کے ہراس زلزلہ متاثرین کو ہے جن کے خواب ادھورے رہ گیے جن کے بچون کا مستقبل کرپشن اوربدعنوانی کی نظرہو گیا،جن کی سماجی زندگی کو ایرا کی بداعمالیوں کے باعث معاشی ،معاشرتی اور علمی حوالے سے بحرانوں کاسامنا ہے۔۔۔
sherafzal gujjar
About the Author: sherafzal gujjar Read More Articles by sherafzal gujjar: 6 Articles with 10010 views my name is sherafzal gujjar i am a journalist i write articles on diffirennt issues... View More