بھارت میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری
کی کتاب کی افتتاح کے موقع پر بھارتی انتہا پسندوں نے تقریب کے ایک منتظم
سدھیندر کل کارانی کا چہرے پر کالک مل دی - اس کے باوجود سدھیندر کل کارانی
نے تقریب منعقد کروائی -
اخبار “ گارڈین“ کے مطابق ان ساری حرکات کے پیچھے بھارت میں گائے کا گوشت
کھانے پر پابندی اور اس سلسلے میں بقول انتہا پسندوں کے کچھ مسلمانوں کی
خلاف ورزی کے محرکات ہیں - ابھی کچھ دنوں قبل دیلی کے مضافات میں ایک
مسلمان اس لئے قتل کر دیا گیاتھا کہ وہ بقول انتہا پسند ہندؤں کے گھر میں
گائے کا گوشت کھارہا تھا -یاد رہے کہ بھارت میں گائے کو ایک تقدس کا درجہ
حاصل ہے -
جو ادارہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ کی کتاب کا افتتاح کرنے جارہا تھا اسے
بھی اس سلسلے میں پہلے ہی اس کے نتائج و عواقب سے آگاہ کردیا گیا تھا - اور
اس کے نتیجے میں ایک مشتعل ہجوم نے فنکشن کے ایک ممبر سدھین کل کارانی کو
گاڑی یں سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور چہرے پر سیاہی مل دی - احتجاج کر نے
والوں کا تعلق ایک چھوٹی سی سیاسی جماعت سے ہے جو کسی صوبے میں موجودہ بر
سر اقتدار پارٹی کی اتحادی جماعت ہے -
دریں اثنا بھارت کے اکیڈمی اف لیٹر کے کچھ ادیبوں نے اس قسم کی پھیلی ہوئی
فضاء کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے انعامات واپس کر دئے ہیں - ان کا کہنا
ہے کہ اس قسم کے کسی بغیر عدالی کاروائی کے قتل ملک کا سکون درہم برہم کر
دیں گے -انعامت واپس کر نے والوں میں سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی
بھانجی بھی شامل ہے -
یہاں امر قابل ذکر ہے کہ بھارت کے علاقے ناگاوں میں رہنے والے قبائل گوشت
کا استعمال کرتے ہیں بلکہ اپنے ایک دیوتا کے چرنوں میں ہر سال ایک گائے کی
قربانی کرتے ہیں - ماضی میں یہاں آزادی کی تحریک چل رہی تھی اور اب بھی اس
کے آثار باقی ہیں - بھارتی رسالے “الرسالہ “ اگست ١٩٩٧ کے مطابق دہلی سے
کچھ ھندو صحافی یہاں کے حالات کا جائزہ لینے اور کشیدگی کم کروانے کے لئے
پہنچے تو انہوں نے گوشت کھانا شروع کر دیا تھا کہ ان قبائل میں آرام سے گھل
مل سکیں - ایک صحافی کا کہنا تھا کہ جب میں نے پہلی مرتبہ گوشت کھایا تو
ایسا لگا جیسے ربڑ چبا رہا ہوں - ١٩٩٦ میں وہاں کے ایک آزادی پسند قبیلے کے
رہنما کا انٹرویو ویکلی کلکتہ ١٦--٢٢--جوں میں چھپا تھا جس میں اس نے ہندؤں
کے دیوتاؤں راما اور کرشنا کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے -یہ قبائل
مسلمان نہیں ہیں - |