مولانا محمد الیاس گھمن
حفظہ اﷲ
امیر: عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت
نئے اسلامی سال کی ابتدا ہورہی ہے ہرمسلمان دعاگوہے کہ اﷲ کرے یہ بخیروخوبی
اور امن وامان کے ساتھ گزرجائے!اقوامِ عالَم کا شروع سے دستور چلا آ رہا ہے
کہ وہ اپنی تاریخ کو محفوظ کرتے ہیں اور اپنے ماہ وسال کو کسی شخصیت سے
وابستہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہودیت کو دیکھ لیجئے وہ اپنے سن کو حضرت سلیمان
علیہ السلام کے فلسطین پر تخت نشین آراء ہونے کے واقعے سے منسوب کرتے ہیں۔
عیسائیت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت پر اپنے سن کو موسوم کرتے
ہیں۔ بِکرمی سن؛ بِکرماجیت کی پیدائش اور رومی سن؛ سکندر اعظم کے یوم ولادت
سے منسوب ہیں۔
جبکہ اسلامی سن کسی شخصیت سے منسوب ہونے کے بجائے ایسے حالات سے متعلق ہے
جس میں چاروں اطراف سے گھِرجانے، مصائب وآلام کے شکنجے میں کَسے جانے، اپنے
قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل کے منصوبے اور حق کی نِدا ء کو دبانے کے
لئے باطل کی سازشوں کے جال بچھے ہوں تو اعلائے کلمۃ اﷲ کے فریضے کو ببانگ
دہل اداکرکے’’ہجرت‘‘ کے حکمِ ربی پر لبیک کہہ دیاجائے اور ہجرت بھی ایسی جو
اپنے اندر عالم بے بسی میں ثابت قدمی، صبرواستقامت کاراز چھپائے ہوئے ہے،
اس سے اسلامی سن کا آغاز کیا جائے یعنی سن ہجری۔
17ہجری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ جوکہ یمن کے گورنر تھے انہوں
نے حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کی اس طرف توجہ مبذول کرائی کہ آپ کے
جوسرکاری خطوط اور گرامی نامے ہماری طرف آتے ہیں ان پر تاریخ درج نہیں ہوتی
مناسب ہوگااگر تاریخ کے اندراج کا اہتمام بھی کرلیا جائے۔ چنانچہ صحابہ
کرام کے باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ اسلامی سن کا آغاز واقعہ ہجرت کو
بنایا جائے۔
تاریخ دمشق لابن عساکر ج 1 ص 44
خلیفۃ المسلمین، مرادِنبوت، امیرالمومنین خلیفہ راشد خلیفہ دوم حضرت سیدنا
عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کا یوم شہادت یکم محرم الحرام ہے، آپ کی اسلام اور
اہل اسلام کیلیے دی گئی قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا، آپ کے
عادلانہ دور خلافت میں انصاف، عدل کے ایسے شفاف چشمے پھوٹے جس سے ہر شخص
فیض یاب ہوا اسلام کا حلقہ وسیع ترہوا، ریاستوں کی ریاستیں دین محمدی کے
زیرنگیں آئیں ، امت مسلمہ پر آپ کے عظیم احسانات ہیں جنہیں الیکٹرانک اور
پرنٹ میڈیا کے ذریعہ دنیا تک پہنچانا ہماری مذہبی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔
10 محرم الحرام نواسہ رسول سیدنا وامامنا حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت
کا دن ہے اوراہم بات یہ ہے کہ محرم کی حرمت و فضیلت ان دومبارک و مقدس
شخصیات سے نہیں بلکہ اس سے قبل تاریخ انسانی کے بعض اہم ترین واقعات اس ماہ
اور دس محرم کو رونماہو ئے ہیں۔ اس بناء پر محرم کی اہم ترین عبادت یوم
عاشورا کا روزہ ہے جس پر ایک سال گزشتہ کے گناہوں کی معافی کا وعدہ حدیث
مبارک میں ہے اور 10 کے ساتھ 11 محرم یا 09 محرم کے روزہ کے اضافہ کی تاکید
بھی حدیث مبارک میں ہے لہذااہل اسلام کو 09،10 یا 10،11 کو روزہ کا اہتمام
کرنا چاہیے۔
تاریخ انسانی کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ ہر دور میں مومنین پر مظالم کے ایسے
پہاڑ توڑے گئے ہیں جن سے کتب تاریخ کا کوئی ورق خالی نظر نہیں آتا،جبروجور
اور ظلم وتشدد کی داستان الم میں اتنے نام آتے ہیں جن کو شمار نہیں کیا
جاسکتا۔ شہادتوں کی طویل فہرست میں سرِفہرست وہ بھی ہیں جنہیں نبوت کی زبان
سے سیدالشہداء کا لقب ملا، وہ بھی ہیں جن کی مقتل گاہ مصلیٰ پیغمبربنی، وہ
بھی ہیں جنہیں تاریخ مظلوم مدینہ کے تذکرے سے زندہ رکھتی ہے، آخر وہ بھی تو
شہداء تھے جن کو بدر، احد،خندق و تبوک کے میدانوں میں کافروں نے خون میں
تڑپا دیا۔چودہ سو برس سے خون مسلم کی ندی مسلسل بہہ رہی ہے جس میں اسلام کی
نِیا برابر تیرتی چلی آرہی ہے۔ مسند الہند شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمۃ فرماتے
ہیں:
اے لوگو! تم نے اسلام کو بدل ڈالنے والی بہت سی رسمیں بنا رکھی ہیں تم
دسویں محرم کو باطل قسم کے اجتماعات منعقد کرتے ہو، کئی لوگوں نے اس دن کو
ماتم کا دن بنالیا ہے حالانکہ اﷲ تعالیٰ کی مشیت سے حوادثات اور سانحات
رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اگرنواسہ رسول حضرت حسین رضی اﷲ عنہ اس دن شہید کر
دیے گئے تو بتاؤ وہ کون سا دن ہے کہ جس میں کوئی نہ کوئی اﷲ کا نیک بندہ
فوت نہیں ہوا ؟ …… تم نے ماتم کو عید کے تہوار کی طرح بنا لیا، گویا اس دن
زیادہ کھانا پینا فرض ہے اور نمازوں کا تمہیں کوئی خیا ل نہیں ان کو تم نے
ضائع کردیا۔
التفہیمات الالٰہیۃ؛تفہیم:288/69
اگر مصائب وشدائد کے تذکرے، نوحے، اور ماتم وگریہ شروع کردیاجائے تواس
مختصر زندگی میں ہمیں ایک لمحہ کے لیے بھی خدا کی عبادت کی توفیق نہ ہو۔ اس
لیے اسلام کا واضح حکم ’’صبر‘‘ کاہے۔ رب ذوالجلال نے اپنی معیت کو’’صبر‘‘سے
مشروط کردیا ہے، نبی آخرالزمان صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات ’’صبر‘‘ پر
مبنی ہیں، اھل بیتِ کرام کی بھی زندگی ’’صبر‘‘ کا بہترین نمونہ ہے۔ شہدائے
کربلا جرأت و دلیری، ہمت وعزیمت سے زندگی گزارکر،جابرِ وقت سے نبرد آزما
ہوکر صبرو استقلال کے خوگر تو بنے، جھوٹ موٹ کی دبیز چادر کو تارتار کرکے
ہمیں یہ سبق دے گئے کہ’’اگر حق وباطل کے معرکہ میں مسلمان کو اعلائے کلمۃ
اﷲ کا فریضہ ظلم وجبر کی نوک پر چڑھ کر ادا کرنا پڑے تو ضرورادا کرے۔‘‘
کربلا کے تپتے صحراؤں سے آج تلک عزیمت ودلیری، شجاعت وجوانمردی کا نغمہ
گونج رہاہے۔ کاش اس طرف بھی کان دھرے جائیں!
جفا کی نوک سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے بر سر میداں مگر جھکی تو نہیں
تمام مذہبی شخصیات کا عموماً اور اہل بیت اطہار کا خصوصاً احترام کرنا از
حد ضروری ہے لیکن احترام کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان پر ڈرامے اور فلمیں
بنا کر امت مسلمہ کے دلوں کو مجروح کیا جائے۔ یہ کفریہ سازشیں ہیں جس سے
بچنا اور امت کو بچانا مسلمان قیادت کی ذمہ داری ہے۔ میڈیا کے اس دور میں
جہاں ہرچیز کی عکس بندی کی جارہی ہے وہیں پر انبیاء علیہم السلام، صحابہ
کرام اھل بیت نبی اور عترۃرسول کے کارناموں کو بھی فلمایا جا رہا ہے۔
ہرمسلمان ایسی نازیبا اور بری حرکات کی مذمت کرتاہے۔ بالخصوص ان ایام میں
اھل بیت کرام کی جو فلمیں ریلیز کی جارہی ہیں ان کی روک تھام بہت ضروری ہے۔
چودہویں صدی کے بدقماشوں کو اھل بیت کے مقدس روپ دیے جا رہے ہیں۔ ہم اس
پرسراپا احتجاج ہیں اور حکومت ِ وقت سے التماس کرتے ہیں کہ ایسے عناصر کو
قانون کے کٹہرے میں لاکر عبرت ناک سزادی جائے تاکہ ملک کا امن بھی باقی رہے
اور استحکام بھی بحال رہے۔
آخر میں گزارش ہے کہ پاکستان حق تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرنا
ضروری ہے ا س کے تحفظ اور سالمیت کو یقینی بنانااور اس کے خلاف ہر سازش
کومتفق اور متحد ہو کر ناکام بنانا ہماری سب کی ذمہ داری ہے۔
|