سکندرمرزا سے لیکر پرویز مشرف تک

بر صغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان ایک آزاد اسلامی جمہوری مملکت کے طور پر عالمی نقشے پر ابھرا تو قائداعظم محمد علی جناح اس کے پہلے سر براہ مملکت تھے۔ اس وقت یہ گورنر کا عہدہ تھا۔ بابائے قوم کے انتقال کے بعد غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا اور وہ اکتوبر1955ء تک اس عہدے پر قائم رہے۔ پاکستان میں اس تک کوئی آئین نہیں بنا تھا جس کی وجہ سے ملک میں باقاعدہ صدر کا عہدہ قائم نہ ہوسکا۔

1956ء میں ملک کا پہلا آئین بنا تو گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوگیا اور آئین کے مطابق اسکندر مرزا کو پاکستان کا پہلا صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ابھی دو سال گزرے تھے کہ 7۔اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا نے آئین معطل کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا۔27 اکتوبر1958ء کو اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے اسکندر مرزا برطرف کر دیا اور وہ چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر اور پھر صدربن گئے۔

جنرل ایوب خان نے 1962ء میں نیا آئین نافذ کیا۔ اس آئین میں پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی انتخاب متعارف کرایا گیا اور صدارتی انتخاب کے لیے بالواسطہ انتخاب کا طریق کار متعارف کرایا گیا جس میں80 ہزار بی ڈی ممبران پر مشتمل صدارتی انتخابی کالج بنا یا گیا۔

جنوری 1965ء میں قوم نے پا کستان کی تاریخ کا پہلا معرکتہ الارا صدارتی الیکشن دیکھا جس میں جنرل ایوب خان کا مقابلہ بانی پاکستان قائد اعظم کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے ہوا۔ اس صدارتی الیکشن میں اس وقت کے وزیر قانون ایس ایم ظفر نے ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ کے فرائض ادا کئے تھے۔ کل پاکستان کی بنیاد پر انہیں 65 فیصد ووٹ ملے اور محترمہ فاطمہ جناح کو 34 فیصد ووٹ ملے۔

24 مارچ 1965ء کو ایو ب خان نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس کے بعد پاک بھارت جنگ شروع ہوگئی۔ تاشقند کا معاہدہ ہوا جس کے بعد ملک گیر ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ایوب خان عوامی احتجاج کا مقابلہ نہ کر سکے اور 25 مارچ 1969ء کو اپنے ہی دئیے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کے بجائے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کو صدارت کا منصب سونپ دیا۔

جنرل یحییٰ خان دو سال صدر رہے۔ ان کے دور میں سقوط ڈھاکہ کا المناک سانحہ رونما ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔20 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور وہ پاکستان کے پہلے سویلین چیف مارشل لاﺀ ایڈمنسٹریٹر اور صدر بنے۔

انہوں نے1972ء کے عبوری دستور کے تحت ہی پاکستان کے صدر کا منصب سنبھالا تاہم 1973ء کے دستور کے نفاذ کے بعد چوہدری فضل الہی پا کستان کے صدر منتخب ہوئے۔14 اگست 1973ء کو ملک میں نئے دستور کے نفاذ کے ساتھ ہی پارلیمانی نظام بحال کردیا گیا۔ چوہدری فضل الہی 16 ستمبر 1978ء تک صدارت کے منصب پر فائز رہے۔

اس دوران 5 جولائی1977ء کو آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا اور سی ایم ایل اے کا عہدہ سنبہال لیا۔ انہوں نے صدر فضل الہی کو بدستور صدر مملکت رکھا۔ بعد میں چوہدری فضل الہی سبکدوش ہو گئے تو 16ستمبر1978ء کو انہوں نے صدارت کا منصب بھی سنبھال لیا۔

1984ء میں انہوں نے اپنی صدارت کی دوسری مدت کے لئے ریفرنڈم کرایا اور صدارت کی یہ مدت 17 اگست1988ء کو بہاول پور کے قریب طیارے کے حادثے میں ان کی زندگی کے ساتھ ختم ہوگئی۔ سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق 17 اگست کو قائم مقام صدر بنے اور دسمبر 1988ء میں انہیں باقاعدہ صدر منتخب کر لیا گیا۔ 18 جولائی 1993 کو انہیں میاں نواز شریف کی حکومت کی رخصتی کے ساتھ ہی استعفعی دینا پڑا۔

غلام اسحاق خان کے مستعفی ہونے پر آئین کے تحت سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد 18 جولائی 1993ء کو قائم مقام صدر بنے تاہم صدارتی انتخاب میں انہیں فاروق لغاری کے مقابلے پر شکست ہوئی۔ فاروق لغاری پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کے امیدوار تھے۔ انہیں 274 اور ان کے مد مقابل آئی جے آئی کے امیدوار وسیم سجاد کو 168ووٹ ملے۔

13نومبر1993ء کو فارورق خان لغاری نے پاکستان کے نویں صدر کا حلف اٹھایا۔ وسیم سجاد دوسری بار 2 دسمبر1997ءسے یکم جنوری 1998ء تک صدر رہے۔ فاروق خان لغاری نے اختلافات کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی۔ کچھ عرصے بعد ان نئے وزیراعظم نواز شریف سے بھی ان کے تعلقات خراب ہوگئے اور اقتدار کی رسہ کشی میں فاروق لغاری2 دسمبر1997ء کو مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے۔

میاں نواز شریف کے دور حکومت میں جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ نے یکم جنوری 1998ء کو عہدہ صدارت سنبھالا اور وہ 20 جون 2001ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر1999ء کو فوجی کاروائی کے ذریعے میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر کے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی۔20جون 2001ء کو رفیق تارڑ کی سبکدوشی کے بعد وہ چیف ایگزیکٹو کے ساتھ ملک کے صدر بن گئے۔

30 اپریل2002ء کو انہوں نے پورے ملک میں ریفرنڈم کا انعقاد کیا اور اپنی مدت صدارت میں پانچ سال کا اضافہ کرلیا۔ دو سال بعد مجلس عمل سے معاہدے کے بعد انہو ں نے یکم جنوری2004ﺀ کو انتخابی کالج سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ان کی مدت 5۱نومبر 2007ء کو ختم ہونے لگی تو انہوں نے گزشتہ اسمبلی سے اپنے آپ کو آئندہ پانچ سال کے لیے صدر منتخب کر وا لیا لیکن 18فروری 2008ء کے انتخابات میں ان کی حلیف جماعت کو شکست ہوئی اور پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)برسر اقتدار آئیں۔ ان دونوں جماعتوں نے صدر مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کرنے کی تیاریاں شروع کردیں لیکن صدر نے 18 اگست 2008ء کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور یوں 6ستمبر 2008ء کو نئے صداراتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90573 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.