لاہور کے انتخابی دنگل میں سردار ایاز صادق کی جیت بلا
شبہ مسلم لیگ ن کی بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی
ذہن میں رکھنا چاہیے کہ رشتہ داری میں وزیر اعظم کے بھانجے محسن لطیف اپنی
جیتی ہوئی سیٹ ہار چکے ہیں جو حکومت کے لیے ایک امتحان ہے اور اس سے اندازہ
لاگایا جاسکتا ہے کہ لوگوں نے میاں نواز شریف کو ووٹ نہیں دیے بلکہ علیم
خان کی مخالفت میں سردار ایاز صادق کی شخصیت کو ووٹ دیے ہیں اگر میاں نواز
شریف کو ووٹ ملتے تو محترمہ کلثوم نواز کے بھانجے محسن لطیف کو شکست نہ
ہوتی بلکہ وہ ریکارڈ ووٹ حاصل کرتے یہ مسلم لیگ ن کے ان قائدین کے لیے بھی
لمحہ فکریہ ہے جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر پارٹی پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں
جبکہ یہ تحریک پاکستان کے قائد عمران خان کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ انہوں
نے اپنے پرانے پارٹی کارکنوں کو ٹکٹ دینے کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کے
محافظوں کو این اے 122میں پارٹی ٹکٹ جاری کردیا بے شک اب ہونے والے الیکشن
پیسے کے بل بوتے پر لڑے جاتے ہیں مگر پاکستان تحریک انصاف کا جاری ہونے
والا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت تصور ہوتا ہے اور اگر یہ ٹکٹ کسی پرانے کارکن کو
دیدیا جاتا تو سرمایہ داروں نے اسکے پیچھے بھی پیسہ پانی کی طرح بہانا تھا
اور اس بات کا اندازہ عمران خان سے بہتر کون کرسکتا ہے مگر بدقسمتی سے
عمران خان کے اس قسم کے فیصلوں سے نہ صرف تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں میں
مایوسی پیدا ہورہی ہے بلکہ غریب ،مزدور اور محنت کش ووٹر بھی اپنا ارادہ
تبدیل کررہے ہیں جسکا اثر این اے 122میں واضح دیکھا جاسکتا ہے اب بھی دونوں
جماعتوں کے رہنماء اپنے اپنے خول سے باہر نکل کر عوام کی بھلائی کے لیے
منصوبے بنائیں تاکہ دن بدن موت کے منہ میں جانے والی غریب عوام بھی اپنی
زندگی کے کچھ دن سکون سے بسر کرسکے وزیر اعلی پنجاب کا لاہور ،راوالپنڈی
اور ملتان میں میٹرو بس کا منصوبہ انتہائی اہم اور عوامی نوعیت کا منصوبہ
بلا شبہ اس سے غریب عوام کو بہت سکون ملا ہے اور یہ ایک اچھی کاوش ہے جبکہ
اورنج لائن میٹرو ٹرین بھی عوام کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے مگر اسکے
ساتھ ساتھ پنجاب کے مختلف شہروں کو ملانے والی سڑکوں کی جو صورتحال ہے وہ
بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں جن پر کئی کئی سالوں سے کام نہیں ہوا اور جن
محکموں کی ذمہ داری ہے وہ اس پر توجہ نہیں دیتے خانیوال سے لودھراں تک بنی
ہوئی سڑک کا جو برا حشر ہو چکا ہے وہ ناقابل بیان ہے اور جو اس سڑک پر سفر
کرچکے ہیں بلخصوص رات کے وقت انہیں تو بہت زیادہ سبق مل چکا ہوگا گذرنے
والی بکرا عید کے بعد میں نے اس سڑک پر دوسری بار سفر کیا پہلی بار آج سے
کوئی 4سال قبل وزیر اعلی پنجاب کے میڈیا کوآرڈینیٹر خالد بٹ اور پاکستان
ریلوے کے موجودہ ڈی جی پی آر روف طاہر کے ہمراہ بہاولپور سے واپسی پر اس
سڑک سے لاہور آئے تھے اور دوسری بار اب عید کے بعد سفر کیا ہے آج سے 4سال
قبل بھی سڑک موت کا منظر پیش کررہی تھی اور اب بھی جگہ جگہ گڑھے اور برائے
نام سڑک گاڑیوں کی تباہی کا باعث بن رہی ہے لودھراں سے خانیوال تک
تقریباڈیڑھ گھنٹے کا سفر 4گھنٹے پر پھیل جاتا ہے اور رات کے وقت اس سڑک پر
گاڑی چلانا انتہائی تکلیف دہ بن جاتا ہے میں حیران ہوں کہ اسی سڑک سے وہاں
کے ایم پی اے اور ایم این اے بھی سفر کرکے لاہور آتے ہونگے اور انہوں نے
بھی اس سڑک کے لیے کچھ نہیں اگر محکمہ ہائی وے اس سڑک پر جو ٹوٹ پھوٹ کے
باعث کھنڈر بن چکی ہے پڑنے والے بڑے بڑے گڑھوں پر مٹی ہی ڈال دے تب بھی یہ
سڑک کچھ بہتر ہوسکتی ہے مگر کمیشن خور مافیا اس وقت تک کوئی کام نہیں کرتا
جب تک انہیں اس بات کی امید نہ ہو کہ اس کام کے بدلے نکی جیب میں بھی کچھ
آئے گا جبکہ اس محکمہ میں جو بیلدار کام کررہے ہیں انہیں افسران نے اپنے
گھروں میں ذاتی ملازم بنا رکھا ہے خادم اعلی پنجاب اگر کسی روز اس سڑک پر
سفر کریں تو شائد اس سڑک کی حالت بہتر ہوسکے ورنہ تو کوئی آثار نہیں ہے اور
ایسی ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر سفر کرنے کے بعد خیال آتا ہے کہ ان علاقوں میں
رہنے والے افراد لاہور نقل مکانی کیوں کرتے ہیں کیونکہ وہاں پر جی ٹی روڈ
کا اتنا برا حال ہے تو جو سڑکیں اندر دیہات تک جاتی ہیں انکا کیا حشر ہوگا
جہاں پر ٹریکٹر ٹرالیوں کا بھی سلسہ ہے جبکہ ہمارے ان دیہاتی علاقوں میں
اچھی تعلیم اور بہتر صحت کی سہولیات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتااس لیے
وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور انکی حکومت سردار ایاز صادق کی
تقریبا4ہزار ووٹوں سے ہونے والی جیت پر خوشیاں منانے کی بجائے اس بات کی
فکر کریں کہ اوکاڑہ میں انکے امیدوار کا کیا حشر ہوا ہے اور محسن لطیف نے
اپنی جیتی ہوئی سیٹ لاہور سے کیوں ہار دی ہے 40ہزار ووٹوں سے جیتنے کے دعوے
کرنے والوں کے لیے بھی یہ شرم کا مقام ہے اس لیے اب بھی وقت ہے کہ مسلم لیگ
ن کی حکومت لاہور کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی لاہور جیسی
سہولیات فراہم کرنے کے لیے حرکت میں آئے ورنہ اگر عوام حرکت میں آگئی تو
پھر اوکاڑہ جیسی صورتحال کہیں پورے ملک میں نہ پھیل جائے جہاں ایک آزاد
امیدوار نے مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو دھول چٹا
دی رہی بات پیپلز پارٹی کی اسے اسکی پالیسیوں نے تباہ وبرباد کردیا ہے اور
لاہور کے الیکشن میں بہت کم لوگ ایسے ہونگے جن کو پیپلز پارٹی کے امیدوار
کا نام بھی یاد ہواس لیے مسلم لیگ ن کی حکومت کو سردار ایاز صادق کی
کامیابی سے خوشی کے ساتھ ساتھ سبق بھی حاصل کرنا چاہیے کیونکہ اب باتوں کا
وقت گذر چکا ہے اور حکومت کو عملی طور پر کام شروع کردینے چاہیے تاکہ لاہور
سے دور دراز کے لوگ بھی اپنے اپنے علاقوں میں سکھ کا سانس لے سکیں ۔ |