پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماؤں میں وزیر داخلہ جناب
چوہدری نثار سلجھے ہوئے ذہین و متین اور نسبتاَ سنجیدہ سیاست دان تصور کیے
جاتے ہیں اسٹبلشمنٹ سے بھی ان کے تعلقات اوروں کی بہ نسبت بہتر ہیں ۔الطاف
حسین کی ہر اس تقریر پر جس میں انھوں نے فوج یا رینجرزپر تنقید کی چوہدری
صاحب فوری اور بھرپور جواب دیتے تھے ۔پچھلے دنوں انھوں نے برطانیہ کا طویل
دورہ بھی کیا اور پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے برطانوی حکمرانوں سے
گفت و شنید کی بہت سارے ثبوت اسکاٹ لینڈ کو دینے کی اطلاعات بھی تھیں ۔کراچی
کے شہریوں کو یہ اطمینان بھی حاصل تھا ہمارے وزیر داخلہ کراچی میں دہشت
گردی کے حوالے سے صاف اور شفاف موقف رکھتے ہیں لیکن کل چوہدری صاحب نے ایک
ایسا بیان دیا جس کو پڑھ کر پاکستان کے لوگوں کو بالعموم اور کراچی کے
لوگوں کو بالخصوص شدید صدمہ پہنچا جب انھوں نے ایک قلابازی یہ کھائی کہ ایم
کیو ایم دہشت گرد تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیاسی جماعت ہے ۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کراچی میں رینجرز اپنی جانوں پر کھیل کر جو ٹارگٹ
کلرز گرفتار کررہے ہیں اور وہ جو اقبالی بیان دے رہے ہیں کہ انھوں نے کس کس
کے کہنے پر کس کس کو قتل کیا ہے یہ سب ایک لا حاصل مشق ہے کہ اب ایم کیو
ایم کو یہ حوصلہ ملا کہ اس نے یہ بیان دینا شروع کردیا کہ ہمارے بے گناہ
کارکنان کو پکڑا جارہا ہے ۔چوہدری صاحب کو تو اس بات کا بھی جواب دینا ہو
گا کہ آپ نے یہ کہا تھا کہ آپریشن کے اگلے مرحلے دہشت گردوں کے سرپرستوں
اور سہولت کاروں کو پکڑا جائے گا ۔یہ جو ٹارگٹ کلرز خود یہ بتارہے ہیں کہ
انھوں نے کن لوگوں کی ہدایات پر اہدافی قتل کیے ان لوگوں پر کیوں ہاتھ نہیں
ڈالا جارہا ہے ۔یہ نوے دن کی گرفتاریوں کا سلسلہ کب تک چلے گا ،ہماری
عدالتیں دہشت گردوں کو کیوں رہا کررہی ہیں ۔سرکاری پراسٹیکیوٹر پر خوف کا
لرزہ کیوں طاری ہے ہماری حکومت انھیں تحفظ کیوں نہیں فراہم کررہی ہے ۔اس کی
ایک واضح مثال یہ ہے کہ عبید کے ٹو جسے نائن زیرو سے گرفتار کیا گیا تھا اس
پر ابھی تک چارج فریم نہیں کیا جاسکا پولیس کے اہلکار خوف کے مارے عدالت
میں حاضر ہی نہیں ہوتے اس طرح کی خبریں پڑھ کر عوام میں مایوسی پیدا ہورہی
ہے ۔اور اب جو وزیر داخلہ کا بیان آیا ہے اس نے کراچی کے شہریوں میں
سراسیمگی پھیلادی ہے کل تک جن لوگوں کو خود وزیر داخلہ دہشت گرد قرار دیتے
تھے آج انھیں سیاسی کارکن کہا جارہا ہے اور اب بہت جلد ان کی رہائی کی
اطلاعات بھی آنا شروع ہو جائیں گی ۔
ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما انور علی نے اسکاٹ لیند کے سامنے یہ اقرار کیا
ہے کہ انھوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھارت کی خفیہ تنظیم را سے
رقوم لی ہے ۔اب اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت چاہیے کہ ایم کیو ایم ایک ملک
دشمن تنظیم ہے جو بیرونی دشمنوں سے مل کر ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہی
ہے ۔ذرا تصور کیجئے کہ اب سے ایک ڈیڑھ سال قبل کراچی شہر کی کیا صورتحال
تھی کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب کوئی عالم دین ،پروفیسر ،استاد ،ادیب و
دانشور اور ڈاکٹروں کے اہدافی قتل نہ ہوتے ہوں ،نامعلوم قاتل اب معلوم
ہورہے ہیں ۔رینجرز جن ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کررہی ہے ان میں سے اکثریت خود
یہ اقرار کررہی ہے کہ اس نے کس کے کہنے پر کتنے قتل کیے اور یہ کہ انھوں نے
بھارت جا کر را سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کی ہے۔تھوڑی دیر کے لیے یہ تصور
کرلیا جائے کہ اگر ایم کیو ایم کے بجائے کوئی دینی جماعت ہوتی اور اس کے
کارکنوں کے بارے میں اس طرح کی کہانیاں سامنے آتیں تو یہی ایم کیو ایم ہوتی
جو شور مچا مچا کر زمین آسمان کے قلابے ملا دیتی اوراس پوری دینی جماعت کو
دہشت گرد قرار دے کر پابندی کا مطالبہ کرتی اور سخت سزاؤں کا مطالبہ کرتی ۔یہ
اچانک مذاکرات کا ہو جانا بالکل ایسے ہی جیسے پچھلے دنوں اچانک مذاکرات ختم
کردیے گئے تھے کہ خود اسحق ڈار صاحب حیران تھے کہ رات تک تو تمام نکات پر
بڑے خوشگوار ماحول بات چیت ہوئی یہ اچانک صبح پانچ بجے فاروق ستار نے پریس
کانفرنس کرکے مذاکرات کے ختم کرنے کا اعلان کردیا ۔
جس طرح اچانک یہ مذاکرات ختم ہوئے تھے اسی طرح اچانک 9اکتوبر جمعہ کے بعد
ہم بریکنگ نیوز میں دیکھتے ہیں حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ ہو
گیا ہے اور اب ایم کیو ایم اپنے استعفے واپس لے لے گی اور پانچ دن کے اندر
شکایت سننے والی کمیٹی کی تشکیل کردی جائے گی پوری قوم اس بات پر حیران ہے
کہ یہ اچانک کیسے یہ مذاکراتی ملاقات ہو گئی جب کہ پہلے سے اس کی کوئی خبر
کسی کو نہ تھی ۔اگر آپ معاملات کی تہہ میں اتر کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ
مذاکرات ختم کرنے کی ہدایت بھی لندن سے آئی تھی اور جمعہ کو مذاکرات کرلینے
کی ہدایت بھی لندن سے آئی ،حالانکہ جس مرحلے پر مذاکرات ختم ہوئے تھے اس
میں کوئی کمی و اضافہ ہوئے بغیر اسی اسٹیج سے مذاکرات ہوئے اور وہ اسی
حکومتی شرائط پر ہی ہوئے اور کامیاب بھی ہو گئے ۔ختم ہونے کی ہدایت لندن سے
پارٹی قائد کی طرف سے آئی تھی اور مذاکرات کرنے اور کامیاب بنانے کی ہدایت
وزیر اعظم کو لندن سے ایک اخبار خبر کے مطابق برطانیہ اور امریکا کی طرف سے
آئی جس پر فوری عملدرآمد کیا گیا ۔اس کے بعد جناب چودھری نثار وزیر داخلہ
کا یہ بیان جس میں انھوں نے ایم کیو ایم دہشت گرد کے بجائے ایک سیاسی جماعت
کہا اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔کراچی کے لوگ اس خبر سے پریشان ہیں کہ کراچی میں
جو کچھ عرصے کے لیے سکون ہوا تھا کیا وہ عرصہ اب ختم ہونے والا ہے۔جب کہ
بلدیاتی انتخاب بھی آنے والے ہیں ۔ایم کیو ایم کے علاوہ جن سیاسی جماعتوں
نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں انھیں یہ امید تھی کہ رینجرز کے آپریشن کی
وجہ سے انتخابی مہم پرامن اور پرسکون انداز میں چلائی جاسکے گی اور ہم سب
انتخاب میں حصہ لے سکیں گے ۔نئی صورتحال سے وہ بھی بے سکون ہو گئے ہیں ۔
اس اچانک کامیاب مذاکرات کی وجوہات کے پردے میں یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا
ہے کہ حکومت نے ایم کیو ایم کے اس مطالبے کو کسی نادیدہ قوت کی ہدایت پر
تسلیم کرلیا ہے کہ متوقع بلدیاتی انتخاب میں ایم کیو ایم کو فری ہینڈ دے
دیا جائے گا ۔پچھلے دنوں لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے ایک رہنما بابر غوری
نے دبئی میں جناب آصف زرداری سے بھی خصوصی ملاقات کی ہے جس میں پی پی پی نے
ایم کیو ایم کی حمایت کا وعدہ کیا ہے یعنی ایم کیو ایم کوکراچی میں بلدیاتی
انتخاب کے موقع پر پی پی پی کی صوبائی حکومت سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا
نہیں کرنا پڑے گا ۔اس سارے ہنگاموں میں ریاستی اداروں کی پوزیشن کیا ہو گی
یا اس وقت ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔
|