سابق وزیراعظم سشیل کوئرالا کو
۲۴۹کے مقابلے ۳۳۸ووٹ سے ہرا کر معمر اشتراکی رہنما کھڈگا پرشاد اولی نیپال
کے۳۸ ویں وزیراعظم بن گئے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس طرح وزیراعظم
نریندر مودی کی تاجپوشی کے وقت سشیل کوئرالا سب سے پہلے دہلی کی دعوت پر
لبیک کہہ کر دوڑے چلے آئے تھے اس طرح مودی جی بھی قرض کی ادائیگی
کیلئےکٹھمنڈو تشریف لےجاتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ وہ تو خیراولی کو مودی کی
طرح کا خودنمائی کا شوق نہیں تھا ورنہ اگر وہ کسی کواپنے رسم حلف برداری
میں شرکت کی دعوت دیتے تو وہ نریندرمودی نہیں بلکہ شی جین پنگ ہوتےحالانکہ
بقول اڈوانی جیجس طرحمودی جی کے اقتدار میں کانگریس کی نااہلی کا بڑا کردار
ہے عین اسی طرح اولی جی کی وزیراعظم منتخب ہو جانے میں مودی جی کابہت بڑا
حصہ ہے۔ مودی جی کی دادا گیری نے نیپالی عوام اور سیاستدانوں کو نہ صرف
ہندوستان کا بلکہ ہندوستان کیلئے نرم خو کوئرالا کا بھی دشمن بنا دیا۔ ایک
سال قبل کھڈگا کو خبط الحواس کہنے والے ماؤ نوازتک ان کے حامی بن گئے اور
وہ وزیراعظم کی کرسی پر متمکن ہوگئے۔
وزیراعظم بن جانے کے بعد مودی جی کو غیر ملکی دوروں کی اس قدر عجلت تھی کہ
فوراً اعلان ہو گیا وہ پہلا دورہ جاپان کا کریں گے لیکن جاپان جانا
احمدآباد جانے جیسا تو تھا نہیں اس لئے مودی جی بھوٹان کیلئے نکل کھڑے
ہوئے ۔ بھوٹان جانے کیلئے وزیراعظم تو درکنارایک عام ہندوستانی کیلئے بھی
کوئی دقت نہیں ہے جہاں تک ضرورت و اہمیت کا تعلق ہے ان باتوں پر غوروفکر
کرنے کی وزیراعظم کو فرصت نہیں ہے۔ بھوٹان سے واپس آنے کے بعد بھی مودی جی
کا چنچل من شانت نہیں ہوا تو ممکن ہے کسی نے مشورہ دیا ہو گروجی نیپال کے
پشو پتی ناتھ مندر میں جاکر شانتیکا کشٹ کرو ۔ وہاں پوجا پاٹھ کے بعدمودی
جی نے ٹویٹ کیا میں نہایت خوش بخت محسوس کررہا ہوں ۔
پشو پتی ناتھ مندر میں مودی جی نے خوش ہو کرتقریباً ۴ کروڈ کی صندل اور ۹
لاکھ کا گھی دان کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ دولت سرکاری خزانے
سے خرچ کی گئی تھی؟ اگر ہاں تو کیا مودی جی عوام کے ٹیکس کا روپیہ کسی نجی
ادارے پر خرچ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں؟ اگر وہ ان کی ذاتی دولت تھی تو
اچانک وزیراعظم بنتے ہی وہ ان کے ہاتھ کہاں سے آگئی ۔ ان کی دوماہ کی جائز
تنخواہ تو چار کروڈنہیں ہے۔ انتخابی حلف نامے میں جمع پونجی کا اندراج تو
صرف ایک کروڈ ۶۵ لاکھ تھا ۔ اگر وہ رقم کسی دوست نے انہیں تحفہ میں دی تھی
تو وہ کالا دھن تھا یا سفید یعنی اس پر انکم ٹیکس ادا کیا گیا تھا یا نہیں؟
جو شخص بار بار سینہ ٹھونک کریہ اعلان کرتا ہو کہ اگر میرے اوپر کوئی
بدعنوانی کا الزام ہو تو بتاو؟ اسے چاہئے کہ وہ ان سوالات کے جواب دے یا
کھوکھلی دعویداری بند کردے۔
پشو پتی ناتھ مندر سے مودی جی بھگوا وستر دھارن کرکے جب باہر نکلے تو ان
گلے میں رودراکش کی مالا اور ماتھے پر چندن کا تلک ایسے سجا تھا گویا
مہارشی جی دہلی کے بجائے سیدھے کیلاش پربت کوچ کرنے والے ہیں۔ خیر بعد میں
پتہ چلا کہ ایسے مناظر ہر غیر ملکی دورے پر دیکھنے ملیں گے کہیں وہ کوٹ پہن
کرڈھول بجا رہے ہیں ہوں گے تو کہیں ہیٹ پہن کر بین بجا رہے ہوں گے جیسا دیس
ہوگا ویسا ہی بھیس ہوگا۔وہ تو خیر امارات کے دورے پر مسجد میں جاتے ہوئے
انہوں نے عربی کندورہ نہیں پہن لیا ورنہ غضب ہوجاتا۔ مندر سے واپس ہوتے
ہوئے انہوں نے زائرین کی بیاض میں لکھا کاشی (جو ان کے حلقہ انتخاب میں
واقع ہے) اور پشوپتی یکساں ہیں ۔ وہ نیپال اور ہندوستان کو متحد رکھتے ہیں
،میں پرارتھنا کرتا ہوں کہ انکا آشیرواددونوں ممالک کی عوام پر جاری و
ساری رہے‘‘۔ اس ایک سال کے عرصے میں مودی جی نے پشو پتی ناتھ کے آشیرواد
کو بھی رائیگاں کردیا اوردیکھتے دیکھتے ہندنیپال اتحاد پارہ پارہ ہوگیا ۔
امریکہ کے علاوہ نیپال ہی وہ ملک ہے جہاں کا دورہ مودی جی اس دوران دو بار
کیا ۔ مودی جی کے امریکہ آنے جانے کا فائدہ توپاکستان کو یہ ہوا کہ امریکہ
نے اس کے ساتھ جوہری معاہدے کی پیشکش کردی اور جو کامیابی سابق وزیراعظم
منموہن سنگھ نے برسوں کی محنت سے حاصل کی تھی اس کی راہ ہموار نواز شریف
کیلئے آسان ہوگئی۔ نیپال کی آمدورفت کے نتیجے میں وہ ہندوستان کے بجائے
چین سے قریب تر ہوگیا ۔ یہی وہ سفارتی کارنامے ہیں جن کے سبب مودی جی کا
موازنہ پنڈت نہرو سے کیا جاتا ہے جنہوں نے غیرجانبدار تحریک کی ایسے قیادت
کی تھی کہ مٹھی بھر استعماری طاقتوں کے علاوہ ساری دنیا کے ممالک ایک پرچم
تلے جمع ہوگئے۔
وزیراعظم کا دوسرا نیپال دورہ بھی کم دلچسپ نہیں تھا ۔ ویسے تو انہیں سارک
کانفرنس میں شرکت کیلئے جانا تھا لیکن اچانک وشوا ہندو پریشد کو یاد آگیا
کہ سیتا کامیکہ جنک پوری نیپال کے حدود میں واقع ہے اب یہ کیسے ہوسکتا ہے
کہ رام بھکت مودی نیپال جائیں اور راجہ جنک کے دربارمیں حاضری نہ دیں ۔ ان
لوگوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ مودی جی جلسۂ عام کا اعلان کردیا اور ایودھیا
سے برات نما یاتر ا لے کر جنک پوری کی جانب نکل پڑے ۔ مودی جی کے استقبال
اورخطاب عام کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئیں ۔ اس دوران سنگھ پریوار
نے سوچا نیپال تو ہندو راشٹر ہے وہاں رام بھکتوں کو سیتا کی میکے میں جانے
سے کون روک سکتا ہے؟ وہ بیچارے بھول گئے کہ کل یگ میں نیپال اکھنڈبھارت کا
حصہ نہیں بلکہ ایک خودمختار ملک ہے اور وہاں کی حکومت کو اعتماد میں لینا
ضروری ہے۔ جنک پوری کی ترائی میں رہنے والے مدھیشی باشندوں کو ویسے بھی
پہاڑی نیپالی شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں ایسے میں وہ مودی جی کو وہاں
خطاب عام کی اجازت دینے کی غلطی وہ کیسے کر سکتے تھے۔ خیرحفاظتی وجوہات کا
بہانہ بنا کرجلسہ منسوخ کیا گیا اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
مودی جی کو نیپالیوں کے تیور سے ہوا کے رخ کا اندازہ لگاناچاہئے تھا لیکن
کسی بھی خود پسند انسان کیلئے یہ بہت مشکل کام ہے۔ انہوں کٹھمنڈو کے اندر
نیپالی حکومت کو دستور سازی کے حوالےسے ہدایات جاری فرماتے ہوئےتاخیر کے
نتائج سے خبردار کیانیز اکثریت کے بجائے اتفاق رائے سےدستور جاری کرنے کی
تلقین کرڈالی ۔ اس طرح کی عوامی غلطی تو وائسرائے لارڈ کرذن نے بھی دستور
ہند کے وقت نہیں کی تھی بلکہ قبل پنڈت نہرو کے پاس صرف اپنا ایک نمائندہ
بھیجنے پر اکتفاء کیا تھا ۔ مودی جی اگر جانتے کہ پنڈت نہرو نے لارڈکرذن کے
نمائندے کو کیا کہہ کر لوٹا دیا تھا تو وہ اس کی حماقت کو دوہرانے کی جرأت
نہیں کرتے۔
مودی جی سے دستور کی تکمیل کے بعد خارجہ سکریٹری ایس جئے شنکر کو اپنا
خصوصی ایلچی بنا کر نیپال بھیجنے کی جو فاش غلطی سرزد ہوئی اس نےہند نیپال
تعلقات کو ناقابلِ اصلاح نقصان پہنچایا۔جئےشنکر کی پیش کردہ تجاویز کو
مسترد کرتے ہوئے ماؤنواز پشپا کمار داہل نے واضح انداز میں کہا کہ نیپالی
کسی بھی جانب سے کوئی ایسا دباو برداشت نہیں کریں گے جس سے خودمختاری پر
حرف آتا ہو۔ ہم ہندوستان کے جی حضورئیے نہیں ہیں۔ وزیراعظم کھڑگ پرشاد
اولی نے کہا ۱۹۵۰ کا وہ زمانہ لد گیا جب ہندوستانی سفیر نیپالی ایوانِ
پارلیمان میں بیٹھا کرتا تھا یا حکومت ہند بادشاہت کے خلاف سیاسی جماعتوں
کی پشت پناہی کرتی تھی اور گروہی رہنماوں کو اپنے قابو میں رکھتی تھی۔
جئے شنکر نےکٹھمنڈو میں جاکر ایسے مدھیشی رہنماوں سے ملنا جو انتخابات میں
ناکام ہوچکے ہیں۔ یہ پاکستانی خارجہ سکریٹری کےکشمیری علٰحیدگی پسند
رہنماوں سے ملاقات جیسا عمل تھا جس پر پابندی کے سبب ہند پاک گفتگو میں
رخنہ پڑ گیا۔ یعنی جس سفارتکاری کی اجازت ہم پاکستان کو دہلی میں اس لئے
نہیں نہیں دیتے کہ وہ ہماری خودمختاری کے خلاف ہے وہی حرکت کٹھمنڈو میں
جاکر کرنے کو درست سمجھتے ہیں ۔جئے شنکر کی پیش کردہ تجاویز کونیپال کے
داخلی معاملات میں مداخلت کیوں سمجھا گیا یہ جاننےکیلئے ان پر ایک غائرنظر
ڈالنا کافی ہے۔ان تجاویز دستور کی مختلف شق کا حوالہ دے کر اس طرح احکامات
صادر کئے گئے ہیں۔ دفع ۶۳(۳)مدھیشیوں کیلئے آبادی کے تناسب سے حلقہ ہائے
انتخابات اور دفع ۲۱ میں ریاستی ڈھانچے میں ان کی متناسب نمائندگی ۔ دفع ۸۶
میں تبدیلی کرکے مدھیشیوں کی آبادی کے لحاظ سے ایوان میں نمائندگی ۔ کیا
ہندوستان میں قومی سطح پر ریاستی سطح پر اقلیتوں کو ان آبادی کے لحاظ سے
متناسب نمائندگی حاصل ہے ۔جس بی جے پی نے گجرات کے مسلمانوں کو۱۲ سال سے
ایم ایل اے کا ٹکٹ تک نہیں دیا اور جس کے منتخب شدہ ۲۸۲ ارکان پارلیمان میں
ایک مسلمان یا عیسائی نہیں ہے اس کا نیپال میں جاکر متناسب نمائندگی کا
مطالبہ کیا مضحکہ خیز نہیں ہے۔ دفع ۱۵۴ میں حلقہ ہائے انتخاب میں ترمیم کی
مدت کو ۲۰ سال سے گھٹا کر ۱۰ سال کرنے کی تجویز دی گئی ۔ اس طرح کے انتظامی
فیصلے تو ہندوستان کے اندر کسی صوبائی حکومت کیلئے بھی جاری نہیں کئے جاتے
کجا کہ کسی پڑوسی ملک کے ساتھ یہ کیا جائے۔
مودی سرکار کے لئے دستور میں دوباتیں سب سے زیادہ پریشان کن تھیں اول تو
نیپال کو ہندو راشٹر کے بجائے لامذہبی (سیکولر)جمہوری ریاست قرار دیاجانا
لیکن اس کی مخالفت کرنا اس لئے ممکن نہیں تھا کہ خود ہندوستان ہنوز ایک
سیکولر جمہوریہ ہے ۔ دوسرا مسئلہ دستور کی دفع ۲۸۳ ہے جس کے تحت کسی
ایسےشخص کاجس کے والدین نیپالی نہ ہوں صدر ، وزیراعظم یا چیف جسٹس کے عہدے
کا اہل نہ ہونا۔ جئے شنکر نے تجویز پیش کی کہ نکاح کی بنیاد پر شہریت
اختیار کرلینے والے کو ان عہدوں کا حقدار ہونا چاہئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ آخر ہندوستان کو اس سے کیا غرض کہ نیپال میں سربراہی کا حقدار کونہے
اور کون اس سے محروم ہے؟ سونیا گاندھی کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کی
مخالفت خود بی جے پی نے جس بنیاد پر کی تھی کیا وہ لوگ اسے بھول گئے ہیں؟
نیپال کے دستور ان طویل اصلاحات کی تکمیل ہے جن کا آغاز ۱۸۵۴ میں جنگ
بہادر رانا نے ملکی آئین جاری کرکے کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پدما
شمشیر رانا نے ۱۹۴۵ میں دستور سازی کی ابتداء کی اور ۱۹۴۸ میں جو دستور
بنا اس میں بادشاہت تو موجود تھی لیکن ایک طاقتور وزیراعظم پر زوردیا گیا
تھا ۔ وقتاً فوقتاًمختلفبادشاہ اپنے اقتدار کی خاطر دستور کو پامال کرتے
رہے اور سیاسی جماعتیں اس کا مطالبہ کرکے معتوب ہوتی رہیں ۔ ۱۹۷۹ میں راجہ
بریندر نے دستوری اصلاحات کیلئے ۱۱ رکنی کمیشن قائم کیا اور ۱۹۹۰ میں
احتجاج کے سبب نیا دستور تسلیم کرنے پر مجبور کردئیے گئے جس سے ان کے اپنے
اختیارات محدود ہوگئے ۔ ۱۹۹۶ میں اشتراکی بغاوت نے زور پکڑا دس سال بعد
۲۰۰۶ میں ایک امن معاہدہ طے پایا۔اس کے باوجود آئین سازی کا کام مختلف
وجوہات کی بناء پر ٹلتا رہا اور بالآخر ۶۰۱ ارکان پر مشتمل دستور ساز
اسمبلی نے واضح اکثریت کے ساتھ اسے منظور کرلیا ۔ جن مدھیشیوں کی خاطر
حکومتِ ہند پریشان ہے ان کے۶۹ نمائندوں نے دستور سازی کا بائیکاٹ کیا
جبکہہندوراشٹر کے حق میں صرف ۲۱ افراد نے رائے دی ۔
نئے آئین نے آئین ساز اسمبلی کو باقائدہ ایوان پارلیمان میں تبدیل کردیا۔
اس آئین میں اقتصادی مساوات اور سماجی انصاف اور مساوات پر مبنی معاشرہ
بنانے کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کے دیباچے میں کثیر جماعتی جمہوری نظام،
شہری آزادی، نسانی حقوق، حق رائے دہندگی، اظہار رائے کی آزادی، آزاد اور
منصفانہ عدلیہ اور قانون و سوشلزم کی بنیاد پر ایک آنند پورن(خوش کن) سماج
کے تعمیر کی بات کہی گئی ہے۔ صدر مملکت کو سربراہ ریاست ہیں مگر متناسب
انتخابی نظام کی بنیاد پر منتخب شدہ کابینہ کو برتری حاصل ہے۔ ۲۰ ستمبر کو
دستور کے منظور ہوتے ہی عوام اس کا جشن منانے کیلئے سڑکوں پر اتر آئے۔
ساری دنیا سے مبارکباد کے پیغام موصول ہونے لگے لیکن حکومت ہند نے نہ صرف
اس سے احتراز کیا بلکہ اظہار ناراضگی کے طور پر اپنے سفیر کو دہلی میں طلب
کرلیا ۔
ہندوستان کی ناراضگی کے جواب میں نیپالی وزیراعظم نے کہا کہ اصولی طور پر
یہ بات درست ہے کہ آئین قومی اتفاق رائےکی بنیاد پر تشکیل دیا جائے لیکن
جہاں ایسا ممکن نہ ہو تو بھاری اکثریت سے منظور کردہ آئین کا خیرمقدم
ہوناچاہیے نیزآئین کواکثریت یااتفاق رائےکی سے تشکیل دینا نیپال کا اندرونی
معاملہ ہے، بھارت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ حکومتِ ہند کےمنفی
ردعمل نےنیپالی عوام کو نہ صرف مایوس کیا بلکہ ان کے اندر غصےاورناراضگی کی
ایک لہر دوڑادی ۔ نیپال ایک گھرا ہوا ملک ہے اور اس کا بیرونی دنیا سے بری
رابطہ ہندوستان کی مرہونِ منت ہے۔ اس کی تجارت کا تقریبا۶۵فیصدہندوستان
سےہے۔ نیپالی عوام کی تمام اہم ضروریات زندگی مثلاپ یٹرول،کھانےکاتیل،آٹا
سبزیاں اورگارمنٹس ہندوستان سےجاتی ہیں۔ دستور کی تیاری کے آخری مراحل میں
ترائی کے اندر حفاظتی دستوں کے خلاف تشدد پھوٹ پڑا۔ ابتداء میں پولس والے
مارے گئےپھر بعد ان کی جانب سے بھی زیادتی شروع ہوگئی۔ دستور کی منظوری کے
بعد مدھیشیوں کے احتجاج کا بہانہ بنا کر ہندوستان کی جانب سے جانے والی
آمدورفت بند کردی گئی اور بلااعلان ۱۹۷۵ کی طرح کا معاشی مقاطعہ نافذ
کردیا گیا۔
اس اقدام کے سبب ہندوستان نوازنیپالی کانگرس بھی دہلی سرکار کی جارحانہ روش
کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوگئی ۔نیپال کےسیاسی رہنماوں نےاقتصادی ناکہ بندی
کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپنا کردار نبھانے کی اپیل کی ہے ۔ تین
اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نیپال کے نائب
وزیر اعظم ’’ پرکاش مان سنگھ ‘‘ نے کہا ہے کہ پچھلے دو ہفتوں سے نیپال کی
اقتصادی ناکہ بندی کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی ایشیاء اور
پٹرول ڈیزل وغیرہ کی شدید قلت کے سبب پونے تین کروڑ نیپالی عوام سخت مشکلات
کا شکار ہیں اور آنے والے دنوں میں بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
مودی جی کو اس بیجا مداخلت کے نتائج کا احساس ہوتا تو وہ اپنے دورے کے موقع
پر یہ نہ کہتے کہ میں نے تو چند ماہ کے اندر نیپال کا دورہ کرلیا جبکہ
منموہن سنگھ دس سالوں میں نہ کرسکے۔ اس دوران نیپال میں دستور سازی کا عمل
جاری تھا۔ اس لئے حکومت ہند در پردہ جو کچھ کرسکتی تھی کرتی رہی لیکن
اعلانیہ مداخلت سے احتراز کیا گیا تاکہ اس کا منفی ردعمل نہ ہو لیکن جلد
باز طبیعت کے مالک مودی جی اس نزاکت کو نہیں بھانپ سکے اور اپنی ناتجربہ
کاری کے سبب برسوں کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ ایک نیپالی سفارت کار کے بقول
’’ نیپال میں بھارت مخالف جذبات اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ انہیںمعمول
پر آنے میں شاید کئی عشرے درکار ہوں ‘‘۔ اس لئے کہ بقول نیپال کےایک
دانشور امیت ڈھا کل جئے شنکر کے پاس اپنے آقا کا کوئی پیغام نہیں بلکہ صرف
دھمکی تھی۔ جس دھمکی کا خدشہ ڈھاکل نے ظاہر کیا تھا غالباًاس کو عملی جامہ
پہنایا جاچکا ہے۔
اپنے راج ابھیشیک کے بعد پشوپتی ناتھ مندر سے نکلتے ہوئے مودی جی کے دل میں
یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ پشو پتی ناتھ کی طرح کا ش کاشی وشوناتھ بھی ہندو
راشٹر میں ہوتا ۔ انہوں نے من ہی من میں عزم بھی کیا ہوگا کہ ایک دن وہ
ہندوستان کو بھی نیپال کی طرح ہندوراشٹر بنا دیں گے لیکن وہ نہیں جانتے تھے
کہ بہت جلد خود نیپال بھی ہندوراشٹر نہیں رہے گا بلکہ سیکولر راجیہ میں
تبدیل ہو جائیگا۔ اس وقت چونکہ مودی جی اس انقلاب کا اندازہ نہیں کرسکے اس
لئے آج ہند نیپال کے تعلقات میں کشیدگی پر یہ شعر صادق آرہا ہے ؎
جب شکل آئینے میں ہماری بگڑ گئی
احساس تب ہوا ہمیں شیشے کے بال کا |