دنیا کی سب سے بڑی ”جمہوریت“انتہا پسندوں کا گڑھ!

بھارت میں انتہا پسندوں کی جانب سے پے در پے حملے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ بھارت سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ کرتاہے، لیکن حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں۔ ان دنوں بھارت پر انتہا پسندی کا مکمل راج ہے۔ بھارت شیوسینا اور دیگر جماعتوں کے انتہاپسند غنڈوں کے نرغے میں ہے۔ اقلیتوں کے خلاف آئے روز پیش آنے والے واقعات اس بات کے شاہد ہیں۔ گزشتہ دنوں بھارتی ریاست اتر پردیش کے 50سالہ مسلمان رہائشی محمد اخلاق کو مبینہ طور پر گائے کا گوشت کھانے پر گھر سے نکال کر قتل اور اس کے بیٹے کو زخمی کردیا گیا۔ اخلاق کے معاملے میں یہ بعد میں ثابت ہوا کہ اس نے گائے نہیں، بلکہ بکرے کا گوشت کھایا تھا، لیکن مودی نے اس قتل کی مذمت تک کرنا گوارا نہیں کی اور ہفتوں بعد صرف یہ بیان دیا کہ ہندوﺅں اور مسلمانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے آپس میں لڑنا ہے یا غربت کے ساتھ لڑنا ہے۔ حالات و واقعات یہ ثابت کررہے ہیں کہ جب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، اس وقت سے دن بدن بھارت میں انتہا پسندی اور پاکستان کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر کتاب کے پبلشر بھارتی کالم نگار اور سیاستدان سدھیندرا کلکرنی (چیئرمین آبزور فاﺅنڈیشن) کے چہر ے پر انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا کے غنڈو ں کی طرف سے سیاہی پھینکی گئی، حالانکہ کلکرنی بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے سپیچ رائٹر کے طور پر او ر نائب وزیر اعظم لال کشن ایڈوانی کے ساتھ بطور رابطہ کار کام کرتے رہے ہیں، لیکن محض ایک پاکستانی کی کتاب کی تقریب رونمائی کروانے پر اس کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔ پیر کے روز ایک طرف نئی دہلی میں ہندوبلوائیوں نے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن انجینئر راشد کو دھمکایا اور ان کے چہرے پر سیاہی پھینکی اور دوسری جانب مودی سرکار کی حلیف بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعت شیو سینا کے غنڈوں نے پاک بھارت کرکٹ بحالی مذاکرات کرنے پر بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی ) کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور ایمپائر کو دھمکیاں دیں اور پاکستان کے خلاف نعرے لگائے۔ پاکستانی امپائر علیم ڈار کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت اور جنوبی افریقا کے آخری ون ڈے میں امپائرنگ نہ کریں ، جس کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ہندو انتہا پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور دباﺅ میں آکر علیم ڈار کو امپائرنگ سے روک دیا۔ انتہا پسندوں کے اقدامات پر بھارتی حکومت نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا اور حملہ کرنے والے چند افراد کو حراست میں لیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی رہا کردیا۔

واقعہ کے بعد پاکستان میں مظاہرین کی جانب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریارخان سے وطن واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت کی اس غنڈہ گردی کے باوجود بھی بھارت میں کھیلنے کا جواز نہیں ہے۔ اس کے ساتھ مظاہرین نے شیوسینا کے غنڈوں کے خلاف نعرے بازی کی اور نریندر مودی کے پتلے بھی نذر آتش کیے۔ جبکہ پاکستان کی مختلف جماعتوں کے رہنماو ¿ں اورعسکری و خارجہ امور کے ماہرین نے بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی دہشتگردی کا سر پرست اعلی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے رہنماو ¿ں کے ساتھ بھارتی انتہا پسندوں کی بد سلوکی کی جتنی مذمت کی جائے، وہ کم ہے، ان واقعات سے بھارتی مودی سرکار کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ عالمی برادری اس صورتحال کا نوٹس لے، کیونکہ بھارت نہ صرف پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے، بلکہ وہ بھارت جانے والے پا کستانی رہنماو ¿ں سے بھی ناروا سلوک کرواکر عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کررہا ہے، جس سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات مزید کشیدہ ہونے کے امکان ہیں۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف کا کہنا ہے کہ بھارت نے خطے میں امن کے لیے پاکستانی کوششوں کی حوصلہ شکنی کی ہے، جبکہ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے کہا ہے کہ بھارت ایل او سی پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے اور پاکستان نے بھارت کی کولڈ اسٹارٹ نامی جنگی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کے لیے چھوٹے ایٹمی ہتھیار تیار کیے ہیں۔

دوسری جانب بھارت کے دانشوروں اور ادیبوں نے مودی سرکار کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ بھارت میں بڑھتے ہوئے نسلی امتیاز اور فرقہ واریت کے خلاف بھارتی ادیبوں اور شاعروںکی جانب سے ایوارڈ واپس کیے جارہے ہیں، اب تک پچاس سے زاید ادیبوں نے احتجاجاً اپنے ایوارڈز اور ان کے ساتھ ملنے والی اعزازی رقم حکومت کو واپس کردی ہے۔ جبکہ بھارت کے شہر ممبئی میں ہندوقوم پرست انتہا پسند جماعت شیوسینا کی جانب سے پاکستانی فنکاروں، ادیبوں اور کھلاڑیوں کے خلاف حالیہ دھمکیوں اور رکاوٹوں پر دونوں ملکوں کے صحافیوں نے افسوس اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق شیو سینا کے ڈی این اے میں پاکستان سے نفرت شامل ہے اور ہم شیو سینا کی غنڈہ گردی پر شرمندہ ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت میں پاکستان کی مخالفت انتخابی و دیگر کئی فائدے فراہم کرتی ہے۔ بھارت میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست اسی پر منحصر ہے۔شیوسینا بھارت میں خوف کی سیاست پھیلانے والا ایک اہم کردار ہے اورانتہا پسندی کی علامت ہے۔ قومیت، مذہب اور زبان، ہر نام پر ہندوستان کو تقسیم کرنے کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم کے غنڈے کبھی بہاریوں کو دیکھتے ہی مارتے پیٹتے، کبھی ا ±ن کا غصہ مسلمانوں پر اترتا ہے تو کبھی کمیونسٹ رگڑے میں آ جاتے ہیں، لیکن پاکستان کے ساتھ ان کی بہت پرانی اور پائیدار دشمنی ہے۔ پاک بھارت کرکٹ پہلی بار 1991 میں شیو سینا کے ہاتھوں متاثر ہوئی، جب بمبئی کے وانکھیڑے اسٹیڈیم میں شیو سینا کے غنڈوں نے پچ خراب کردی گئی۔

گزشتہ سال جب ہندوستان کے عام انتخابات میں گجرات کی خوشحال ریاست کے سابق وزیرِ اعلیٰ نریندرا مودی کامیاب ہوئے تو پوری دنیا کی نظریں بھارت پر لگی ہوئیں تھیں۔ بہت سے لوگ یہ گردانتے نہیں تھک رہے تھے کہ بھارتی جمہوریت اس سے زیادہ بہتر نہیں ہو سکتی، کیونکہ نئے وزیرِ اعظم لڑکپن میں ایک ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتے تھے، مگر پھر بھی سسٹم نے انہیں جگہ دی۔ کئی لوگوں نے پیشگوئی کی کہ بھارت میں اب سماجی و اقتصادی ناہمواری کے دن گنے جا چکے ہیں اور مودی ہی وہ رہنما ہیں جو بھارت کو اس کے مسائل سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ دلا دیں گے، لیکن جلد ہی نریندر مودی کے انتہا پسندانہ بیانات اور مودی سرکار کے انتہا پسندانہ اقدامات کی وجہ سے ان کی خوش فہمی دور ہوگئی۔ انتہا پسندی اب پورے بھارتی معاشرے کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ بھارت کی انتہاپسندی رکنے میں نہیں آرہی۔ بھارت میں انتہاپسندی کا حالیہ طوفان حیران کن نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ایک ایسا شخص جس نے گجرات میں بدترین فسادات کی خود سربراہی کی ہو، وہ ملک کے بلند ترین عہدے پر فائز ہو کر فوراً رحم دل کیسے بن سکتا ہے؟ مبصرین کے مطابق بھارت میں انتہا پسندی کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اب یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ جو کچھ اب ہورہا ہے، اس کو مودی سرکار کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ نریندر مودی کی مکمل سیاست پاکستان اور مسلمانوں کی مخالفت کے گرد گھومتی ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے مودی کے پاکستان مخالف بیانات اورگجرات میں مسلمانوں کا قتل عام مودی کی انتہا پسندی کی گواہی دیتے ہیں۔ مودی سرکار حکومت میں ہونے کی وجہ سے جو کچھ خود نہیں کرسکتی ہے، وہ شیوسینا کے غنڈوں سے کروارہی ہے۔اگر مودی سرکار نے انتہا پسند بھارتی غندوں کی خاموش سرپرستی ختم نہ کی تو اس سے نہ صرف بھارت بلکہ پورا خطہ متاثر ہوسکتا ہے، اس لیے عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.