”یہ باہر شور کیسا ہے؟“
” الیکشن ہورہے ہیں....“
” کیا الیکشن ہی ہوتے رہیں گے یا پھر کچھ کام بھی ہوگا۔“
” الیکشن بھی تو ایک کام ہے، جس سے کئی ایک کے کام بنتے ہیں۔ اب اسی بات کو
دیکھ لو کہ بلدیاتی الیکشن ہوں گے تو کئی ایک کو روزگار مل جائے گا۔ “
” اب اسی طرح بے روزگاری دور کرنا ہے تو عوام کو کیوں پریشان کرتے ہیں؟“
”تمہیں کس نے کہا کہ عوام پریشان ہے؟ عوام تو بہت خوش ہے الیکشن سے.... جس
سے وہ پانچ سال میں صرف ایک بار ملتے تھے وہ اب بار بار ان کے دروازے پر
ووٹ کی بھیک مانگنے آرہا ہے۔ “
” ویسے تمہارے خیال سے اس طرح ملک میں کوئی تبدیلی آئے گی؟“
” یہ تبدیلی نہےں تو اورکیا ہے کہ جمہوری حکومت میں بلدیاتی الیکشن ہورہے
ہیں۔“
” لیکن یہ تو سپریم کورٹ کے حکم پر مجبوراً ہورہے ہیں۔ورنہ یہ جمہوری لوگ
تواپنی پارٹی میں بھی الیکشن نہیں کرواتے۔“
”یہ بات درست نہیں.... دو جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی میں الیکشن
کروائے ہیں۔“
” تمہارا اشارہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی طرف ہے۔“
” اگر انصاف کی بات کروں تو یہی سچ ہے۔“
”تم انصاف کی بات نہ کرو، ورنہ مجھے لگتا ہے کہ تم تحریک انصاف کی بات
کررہے ہو یا پھر اس کے اتحادی کی جو انصاف کا ترازو لے کر سپریم کورٹ کے
باہر اسے تلاش کررہی ہے اور اسے پتا نہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ “
”یہ تو تم نے حق اور سچ کی بات کی۔“
”میری کیا مجال کہ میں حق کی بات کرو، حق کی بات صرف حق پرست ہی کرسکتے ہیں
۔ دوسروں کو حق بات کہنے کی اجازت نہیں چاہے وہ حقیقی ہو یا کوئی اور ....“
”تمہاری بات میں وزن ہے۔“
”میری بات میں وزن کہاں ؟ وزن تو پیپلز پارٹی کے پاس ہے، جب ہی تو ان کی
پارٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری۔“
”اسی لیے آج کل ان کی پارٹی ان ہی کے بوجھ تلے دب گئی ہے۔“
”بہت پارٹی کرلی ....اب یہ پارٹی کا نہیں لیگ کا زمانہ ہے۔ “
” صحیح کہا تم نے .... اسی لیے کرکٹ ،فٹ بال اور دیگر کھیلوں میں لیگ میچز
ہورہے ہیں۔“
” میں کھیل کی نہیں سیاست کی بات کررہا ہوں۔“
” ایک ہی بات ہے۔ کھیل میں سیاست اور سیاست میں کھیل !!“
”ویسے یہ کھیل اور سیاست کو الگ الگ ہونا چاہےے۔“
”الگ الگ ہی تو ہے .... اسی لیے الگ الگ میچز ہوتے ہیں۔“
” کھیل اور سیاست الگ الگ ہوتے تو آج بھارت میں ہمارے منھ پر کالک نہ مَل
دی جاتی۔“
”منھ کالا کرکے بھی ہم نے کیا سیکھا ہے؟“
” سیکھا تو بہت کچھ ہے اسی لیے عوام نظام میں تبدیلی چاہتی ہے .... چہرے کی
تبدیلی نہیں۔“
” اس کا مطلب طاہر القادری کا انقلاب.... “
” اب تو طاہر القادری کا انقلاب بھی الیکشن میں حصہ لے رہا ہے.... ورنہ وہ
کچھ عرصہ قبل نظام کو ہی گرانے کی بات کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ “
” نظام کو صرف نظام الدین ہی تبدیل کرسکتا ہے اور لیکن اس کے پاس ٹائم ہی
نہیں ہے۔“
” یہ نظام الدین کون ہے؟“
” ارے اپنا نظام ....سارے سیاستدان اس سے ہی سبق لیتے ہیں۔ جس نے نظام کا
ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ جہاں نظام خراب ہوا اس کو ہی یاد کیا جاتا ہے۔“
” اسی لیے سالہا سال سے وہی پرانے چہرے جمہوریت کی پہچان بنے ہوئے ہیں۔ “
”پاکستان کی عوام کسی نئے چہرے پر اتنی جلدی بھروسہ نہیں کرتی۔“
”جن پر بھروسہ کیا تھا انہوں نے ہمیں گدھے کا گوشت کھلا دیا۔“
”آپ کو کس گدھے نے گدھے کا گوشت کھانے پر مجبور کیا تھا؟؟.... آپ نے اپنی
مرضی سے کھایا ہے۔“
” لیکن ہمیں کیا پتا تھا کہ یہ گدھے کا گوشت ہے۔“
” اب رہنے دو میرا منھ نہ کھلواؤ.... جب ان لوگوں کو ووٹ دیتے ہو تو تمہیں
پتا نہیں ہوتا کہ کسے ووٹ دے رہے ہو؟“
”گدھے کا گوشت کھاکر اب ہم گدھوں کو ہی منتخب کریں گے ۔پھر شور کیسا؟“
٭....٭ |