دو لاکھ کا گولڈ میڈل
(Sarfraz Awan, Islamabad)
عنوان:دو لاکھ کا گولڈمیڈل |
|
امریکی خاتونِ اول کی جانب سے
مریم نواز شریف کو گولڈ میڈل سے " نواز" دیا گیا۔
گذشتہ برس ماہِ فروری میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے خوبصورت،نِگھے اور
سرسبز لان میں سنہری سہ پہر کو اپنے چند صحافی دوستوں کے ہمراہ حالاتِ
حاضرہ پر گرما گرم سیاسی گفتگو جاری تھی۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ یار لوگوں
کی اِس سیاسی بحث و مباحثہ میں تناؤ،شدت اور تلخی کا عنصر غالب آ رہا ہے
تومیں نے موضوع کو بدلنے کے لئے اچانک ایک جملہ بولا جِس سے تمام دوست اپنی
اپنی رائے دینے لگے اور اِس طرح میں کامیاب ہو گیا۔
" دوستو!ماس کمیونیکیشن میں ایم فِل کونسی یونیورسٹی کروا رہی ہے" میں نے
سب سے پوچھا
میرا سوال سنتے ہی بہک وقت سبھی اپنی اپنی آراء دینا شروع ہو گئے اور مختلف
یونیوسٹیز کے میعار،فیسوں اورکلاسز کے شیڈول بتانا شروع ہو گئے۔
ایک دوست بولا" کہ قائد اعظم یونیورسٹی ٹھیک رہے گی۔دُنیا کی ٹاپ پانچ سو
یونیوسٹیز کی لسٹ میں موجود ہے جبکہ پاکستان کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں میں
بھی شمار ہوتا ہے اسکا۔نصاب بھی جدید ہے اور تمہارے فیلٹ سے قریب ترین بھی
ہے۔
دوسرا بولا" نمل یونیورسی سے میں ماسٹرز ہو ں۔وہاں تو بے حد خوبصورت تعلیمی
ماحول ہے۔اساتذہ بھی محنتی ہیں،فیسیں تو مناسب ہیں ہی ہیں جبکہ سب سے بڑی
بات یہ کہ میڈیا کو بڑے بڑے نام بھی دئیے ہیں اِس یونیورسٹی نے۔
تیسرادوست بولا" نہیں یار اسلامک یونیورسٹی اچھی ہے۔میرا تو آپ کو مشورہ ہے
کہ یہیں پر داخلہ لے لو بھائی۔ یہاں فقیلٹی ایم فِل اور پی ایچ ڈی سے کم
نہیں جبکہ فیسیں بھی زیادہ نہیں ہیں۔سنجیدہ اور بہترین تعلیمی موحول میں
پڑھایا جاتا ہے۔
چوتھا بولا'' میرے خیال سے علامہ اقبال اوپن یونیوسٹی ہی آپکے لئے ٹھیک رہے
گی۔دو سمسٹر ہونگے،ہفتہ وار آپشنل کلاسز ہونگی اور بس ورکشاپ میں شرکت
ضروری ہوگی۔
چھٹا دوست جو خاموشی سے سب کی باتیں سُن رہا تھااچانک اپنی نشست سے اُچھل
کے بولاکہ دوستو میں جس یونیوسٹی کا آپکو بتانے جا رہا ہوں وہ تو اِن سب کی
ماں ہے ماں۔صحافیوں کے لئے علیحدہ کوٹہ میں آپکو بالکل آسانی سے داخلہ بھی
مل جائے گا۔فیسوں میں صحافی ہونے کی وجہ سے آپکو اچھی خاصی رعایت بھی مِل
جائے گی جبکہ یکمشت فیس کی بجائے ماہانہ فیس جمع کروانے کی سہولت ہوگی۔اور
سب سے بڑھ کر یہ کہ آپکو گولڈ میڈل بھی مل سکتا ہے اور وہ بھی بالکل آسانی
سے۔
" جی ہاں! آسانی سے۔۔۔" وہ دوبارہ حیرت انگیز لہجے میں ہم سب کو مخاتب کرتے
ہوئے بولا۔
'' نہ کر یار، خوش فہمیوں کی طاغوتی لہروں میں نہ جھکڑ ہمیں۔میں نے سُن
رکھا ہے کہ گولڈ میڈل حاصل کرنے کے لئے دِن رات ایک کرنے پڑتے ہیں،راتیں
جاگ جاگ کر فرنگی کی لکھی ہوئی موٹی موٹی کتابوں کے آنکھوں میں آنکھیں
ڈالنا پڑتی ہیں،رٹے اور گھوٹے لگانے پڑتے ہیں،ورکشاپس اٹینڈ کرنا پڑتی
ہیں،نصابی تو ایک جانب غیر نصابی کُتب کا بھی باریک بینی سے مطالعہ ضروری
ہوتا ہے۔دوستوں کا کہنا ہے کہ بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تو تب جا کہ
گولڈمیڈل مِلا کرتے ہیں جو ہم جیسے رپورٹرزکیلئے تو جوئے شیر لانے کے ہی
مترادف ہے۔
وہ پھر بولا کہ کر سکتے ہو اعوان صاحب،کرسکتے ہیں۔اِس کے لئے آپکو مندرجہ
بالا تمام پاپڑ ذرا بھی نہیں بیلنا پڑیں گے۔بس صرف اور صرف یونیوسٹی کو دو
لاکھ روپے دینا ہوں گے،اور بس گولڈ میڈل آپکو مل گیا۔
" دو لاکھ روپے، مگر وہ کس لئے دینا ہونگے بھائی؟؟؟" میں نے حیرانی سے سوال
کیا
اوئے میرے بھولے بادشاہو! پچاس ہزارایک تولہ سونا کی قیمت جبکہ ڈیڈھ لاکھ
روپے یونیوسٹی گولڈمیڈل دینے کی فیس لے گی اور مفت میں '' کمپنی '' کی
مشہوری بھی ہو جائے گی۔
آپکو صرف دو لاکھ ہی دینا ہونگے۔یونیوسٹی کو صرف اپنے دو لاکھ سے سروکار
ہے۔اُن کو اس سے کو ئی لینا دینا نہیں کہ آپ دورانِ تعلیم کتنے دِن کلاس
میں آئے،اسائنمنٹ بنائیں یا نہیں،ورکشاپس اٹینڈ کی یا نہیں۔بس آپکو تمام
مضامین میں پاس ہو لازمی ہوگا۔۔۔۔
آج کی تازہ خبر۔۔۔ آج کی تازہ ترین خبر۔۔۔ وزیرِ اعظم پاکستان،عزت مآب جناب
میاں نواز شریف کی صاحب زادی محترمہ مریم نواز شریف کو امریکی خاتونِ اول
مشعل اُبامہ نے گولڈمیڈل سے نواز دیا۔
میں نے گولڈ میڈل کو صحافتی کسوٹی پر پرکھنے کے لئے کئی ایک جتن بھی کئے جو
آپکی نظر کر رہا ہوں۔
میں نے مریم نواز شریف کی روزمرہ متحرک زندگی کے چند پہلووں کا بغور جائزہ
لیا،مختلف شعبہ ہائے زندگی کا مطالعہ بھی کیا کہ آخرکار مریم نواز شریف نے
ایسے کون سے کارنامے سرانجام دئیے جن کی بدولت دُنیا کی خود ساختی نمبر ایک
عالمی طاقت کی خاتونِ اول کو انہیں پورے خاندان کے ساتھ بُلا کر گولڈ میڈل
سے نوازنا پڑ گیا۔
مریم نواز شریف صاحبہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک نظر آتیں ہیں۔ٹویٹر کا
باقاعدگی سے استعمال کرتی ہیں بلکہ یہ کہنا غلط بالکل بھی نہ ہو گا کہ وہ
نون لیگ کی سیاسی کیمپین چلاتی ہیں، اپنے والد کی سیاسی جماعت کی بہترین
وکالت بھی کرتی ہیں جبکہ مخالفین کے سیاسی داؤ پیچ کا اثر بھی اپنے چبھتے
ہوئے جملوں سے دیا کرتی ہیں اور حکومتی پالیسیوں کا خوبصورتی سے دفاع بھی
کرتی رہتی ہیں۔دوسری جانب نون لیگی سوشل میڈیا ورکرز کی بھی حوصلہ افرؤزائی
کر کے پی ٹی آئی کے یوتھیاز کے ساتھ ٹکر کی مقابلہ باری کے لئے ہلہ شیری
بھی کرتی ہیں۔وہ اپنے اِس ذاتی اکاؤنٹ سے اب تک تقریباً پچاس ہزار تک کے
قریب ٹویٹ اور ری ٹویٹس کر چکی ہیں۔اگر انکے ٹویٹ اور ری ٹویٹس کابغور
مطالعہ کیا جائے تو تقریباً چالیس ہزارسے زیادہ ٹویٹس ایسے ہونگے جن میں وہ
اپنے والد میاں نواز شریف،چچا شہباز شریف،کزن حمزہ شہباز،بھائی کے سُسر
اسحاق ڈار،خالہ زاد بھائی عابد شیر علی اور دیگر قریبی عزیز نون لیگی
رہنماؤں کی تعریفیں جبکہ دیگر میں اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور
رہنماؤں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔تنقید میں سب سے بڑا ٹارگٹ عمران خان
اور پی ٹی آئی کے یوتھیاز سرِ فہرست ہیں۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پچاس ہزار تک کے ٹویٹس میں صرف چند سو ایسی
ہونگی جن میں روائیتی خاص ایام اور تہواروں مثلاً عید،بکرا عید،چودہ
اگست،تیئس مارچ،آمد رمضان وغیرہ کے بارے میں نیک خواہشات کا اظہار ملتا
ہے،باقی کچھ نہیں۔۔۔
میں نے مریم نواز کے دیگر معمولات زندگی کی بھی چھان پھٹک کی کہ آیا امریکہ
کی خاتونِ اول نے پاکستان بھر کی 52(باون) فیصد خواتین میں سے صرف اور صرف
اِنکا ہی کیوں انتخاب کیا؟
کیا مریم نواز شریف نے پاکستان میں عوتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی؟ کیا
عورتوں کی صحت و صفائی کے لئے بہتر اقدامات کئے؟ کیا عورتوں کی قرآن سے
شادیوں،کم عمری کی شادیوں،اغواء،غیرت کے نام پر نام نہاد قتل و غارت گری کو
رکوانے کی جدوجہدوں میں حصہ لیا؟ کیا کبھی کم سن بچوں کی جبری مشقت اور
جنسی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی؟کیا انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف
ورزیوں کا کبھی نوٹس لیا یا عملی اقدامات کئے؟صحافیوں کے لئے یا آزادیء
صحافت کے لئے کوئی کاوشیں کیں ہوں؟ طالبان،کیا محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی
طرح آمریت کے سامنے ڈٹ کر جیلیں کاٹی ہوں؟ کیانصرت بھٹو کی طرح جمہوریت کے
خاطر پولیس سے لاٹھیاں کھاتے ہوئے سے پھڑوائے؟ کیا جنرل پرویز مشرف کے 12
اکتوبر 1999 کے غیر آئینی اقدام کے آگے ڈٹ گئیں تھیں؟ کیا ملالہ یوسفزئی کی
طرح کم عمر لڑکیوں کی تعلیم کے لئے طالبان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن
گئی جو گولیاں کھانے کے بعد بھی عالمی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ابھی
تک آواز اُٹھا رہی ہیں؟؟ کیا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، انجینئیرنگ، طب، سپیس،
قانون، صحافت،کمپیوٹر،بنیادی انسانی حقوق یا عورتوں کے حقوق کے لئے کوئی
قابل تعریف،قابل ستائش اقدامات کئے؟؟
اِن تمام سوالات کا جواب نہ میں ملنے کے بعدنہ جانے کیوں مجھے اپنے صحافی
دوست کا"دولاکھ کاگولڈ میڈل "بہت یاد آرہا ہے۔ |
|