میدان کربلا میں امام حسین رضی اﷲ عنہ کا عظیم تاریخی خطبہ
(Ata Ur Rehman Noori, India)
میدان کربلا میں چمن اسلام کی
آبیاری کے لیے خانوادۂ نبوت کے متعدد افراد اور رفقائے کار نے جام شہادت
نوش کیا۔ اب تنہا امام عالی مقام، راکب دوش رسول، شہزادۂ بتول، حضرت علی کے
نور نظر، جنتی نوجوانوں کے سردار، شہنشاہ کربلا، پیکر صبر ورضا حضرت سیدنا
امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ باقی تھے۔سیدناامام حسین رضی اﷲ عنہ نے اپنے
فرزند ارجمند عابد بیمار حضرت زین العابدین رضی اﷲ عنہ کو تمام ذمہ داریوں
کا حامل کیا، اپنی دستار مبارک اتار کر ان کے سر پر رکھی اور اس صبر ورضا
کے پیکر کو بستر علالت پر لٹا دیا۔ اب امام پاک اپنے خیمہ میں تشریف لائے،
صندوق کھولا، قبائے مصری زیب تن فرمائی، اپنے ناناجان کا عمامہ مبارک سر پر
باندھا، سید الشہدا حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ڈھال پشت پر رکھی،
شیر خدا حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تلوار ذو الفقار گلے
میں حمائل کی اور حضرت جعفر طیار کا نیزہ ہاتھ میں لیا اور اپنے برادر اکبر
سیدنا امام حسن کا پٹکا کمر میں باندھا۔ اس طرح شہیدوں کے آقا، جنتی
نوجوانوں کے سردار سب کچھ راہ حق میں قربان کردینے کے بعد اب اپنی جانِ
عزیز کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوگئے، اہل خیمہ نے اس منظر کو کس
آنکھوں سے دیکھا ہوگا، ان کا سردار ان سے طویل عرصہ کے لئے جدا ہونے والا
ہے، ناز کے پالوں کے سرو ں سے شفقت پدری کا سایہ اٹھنے والا ہے، نونہالان
اہل بیت کے گرد یتیمی منڈلا رہی ہے، ازواج کا سہاگ رخصت ہورہا ہے، بیکس
قافلہ حسرت بھری نگاہوں سے امام کا چہرہ دیکھ رہا ہے، نورانی آنکھوں سے
آنسو جاری ہیں، حضرت امام پاک نے اہل بیت اطہار کو خدا کے سپرد فرمایا، سب
کو صبر وشکر کی تلقین فرمائی اور سب کو اپنا آخری دیدار کرایا اور آخری
سلام کرکے گھوڑے پر سوار ہوگئے۔
تین دن کے بھوکے پیاسے اور اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے بیٹیوں، بھائیوں،
بھتیجو ں اور جانثاروں کو راہِ حق میں قربان کردینے والے امام پہاڑوں کی
طرح جمی ہوئی فوجوں کے مقابلے میں شیر کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اور میدان
کربلامیں ایک ولولہ انگیز رِجز پڑھی جو آپ کے نسب اور ذاتی ناخوشی وناراضگی
اور ظلم کے انجام سے ڈرانا تھا، اس کے بعد آپ نے ایک فصیح وبلیغ تقریر
فرمائی، اس میں آپ نے حمدو صلوٰۃ کے بعد فرمایا:
’’اے لوگو! تم جس رسول کا کلمہ پڑھتے ہو اسی رسول کا ارشاد ہے کہ جس نے حسن
وحسین سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے
اﷲ تعالیٰ سے دشمنی کی۔ تو اے یزیدیو! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور میری دشمنی سے
باز آؤ، اگر واقعی خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہو تو ذرا سوچو، اس خدائے
سمیع وبصیر کو کیا جواب دوگے ؟ اور محسن اعظمﷺکو کیا منہ دکھاؤ گے ؟ اپنے
رسولﷺکے لاڈلوں کا گھر اجاڑنے والو اپنے انجام پر نظر کرو۔ بے وفاؤ! تم نے
مجھے خطوط اور قاصد بھیج کر بلایا اور کہا کہ ہماری رہنمائی فرمایئے ورنہ
ہم خدا کے حضور آپ کا دامن پکڑ کر شکایت کریں گے، اس لئے میں چلاآیا اور جب
میں یہاں آگیا تو تم نے میرے ساتھ برا سلوک کیا اور مظالم کی انتہا کردی۔
ظالمو! تم نے میرے بیٹوں، بھایؤں اور بھتیجوں کو خاک وخون میں تڑپایا، میرے
رفقا کو شہید کیا اور اب میرے خون کے پیاسے ہو۔ اے یزیدیو! سوچوکہ میں کون
ہوں ؟ کس کا نواسہ ہوں ؟ میرے والد گرامی اور میری والدہ صاحبہ کون تھیں؟بے
غیرتو! اب بھی وقت ہے شرم سے کام لو اور میرے خون سے اپنے ہاتھ کو رنگین
کرکے اپنی عاقبت برباد نہ کرو۔ اتنے میں یزیدی لشکر سے شور اٹھا اور کسی
ظالم نے کہا :اے حسین! ہم کچھ سننا نہیں چاہتے، آپ کے لئے سیدھا راستہ یہ
ہے کہ آپ یزید کی بیعت کرلیجئے یا پھر جنگ کے لئے تیار ہوجایئے۔ امام عالی
مقام نے فرمایا: اے بد بختو!مجھے خوب معلوم ہے کہ تمہارے دلوں پر مہر لگ
چکی ہے اور تمہاری غیرت ایمانی مردہ ہوچکی ہے، اے یزیدیو! میں نے یہ تقریر
صرف اِتمامِ حُجت کے لئے کی تھی تاکہ کل تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم نے حق اور
امام برحق کو نہیں پہچانا تھا، الحمد ﷲ! میں نے تمہارا یہ عذر ختم کردیا،
اب رہا یزید کی بیعت کا سوال تو یہ مجھ سے ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا کہ میں
فاسق وفاجر کے سامنے سر جھکادوں‘‘۔
امام عالی مقام نے جب دیکھا کہ یہ بد بخت میرے قتل کا وبال اپنی گردنوں پر
ضرور لیں گے اور میرا خون بہائے بغیرچین سے نہیں بیٹھیں گے تو آپ نے فرمایا:
اب تم لوگ جو ارادہ رکھتے ہو اسے پورا کرو اور جسے میرے مقابلہ کے لئے
بھیجنا چاہتے ہو بھیجو۔ ‘‘
بالآخر نیزہ اور شمشیر کے 72؍ زخم کھانے کے بعد آپ سجدے میں گئے اور اﷲ کا
شکرادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ 56؍ سال 5 ماہ 5 دن کی عمر شریف جمعہ
کے دن محرم کی دسویں تاریخ 61ھ مطابق 680ء کو امام عالی مقام اس دار فانی
سے رحلت فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
تو زندہ ہے واﷲ، تو زندہ ہے واﷲ! میری چشم عالم سے چھپ جانے والے
|
|