بیٹیاں ہر قوم کی صدق و صفا کے پھول ہیں
(Shahzad Hussain Bhatti, )
خادم اعلیٰ پنجاب کے شہرلاہور کے
مشہور زمانہ گنگا رام ہسپتال کے ایم ایس ڈاکڑوقار نبی باجوہ جوکہ رقص و
سرور کے دلدادہ معلوم ہوتے ہیں نے گذشتہ ہفتے میں دوسری مرتبہ نرسنگ ہاسٹل
گنگا رام ہسپتال میں ڈانس پارٹی کا اہتمام کیا جس میں متعدد اہم شخصیات نے
شرکت کی۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق نرسنگ ہاسٹل میں باقاعدہ میوزیشن
بلوا کر گانوں اور ڈانس کا پروگرام مرتب کیا گیا جس میں نرسزاور زیر تربیت
نرسز کی جانب سے پارٹی میں ڈانس پرفارم کیے گئے۔ایم ایس خود بھی رقص و سرور
میں محو رہے اور بذات خود ایک گانا"او میرے دل کے چین، چین آئے میرے دل کو
دُعا کیجئیـ "گاکر سُنایاجس پر سامعین سے بھرپور داد بھی وصول کی۔
اس سے قبل بھی پنجاب کے رنگین مزاج افسران کی طرف سے پبلک ہیلتھ نرسنگ
سکولوں اور جنرل نرسنگ سکولوں میں اور بیرونی مقامات پر طالبات کو زیور
تعلیم سے آراستہ کرنے کے بجائے رقص و سرور کی محفلیں منعقد ہونے کی خبریں
اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں جن میں نمایاں کردار ہاسٹل کی وارڈنز اور
پرنسپل ادا کرتی ہیں اور اگر کوئی نرس اس قسم کی تقریبا ت میں شرکت کرنے سے
انکا رکرے تو اسے عتاب کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے جس کی مثال نرسنگ ہاسٹلز
میں نرسززکی جانب سے خودکشی کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں جن کی کڑیاں
بھی بلواسطہ یا بلا واسطہ انہیں معاملات سے جڑی نظر آتی ہیں۔ان رنگیں محافل
کے انعقاد میں مختلف نرسنگ سینڑوں کی زیر تربیت طالبات کو ان رقص و سرور کی
محافل کی زینت بنایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ محکمہ صحت کے افسران ان زیر
تربیت نرسزز کی عزتوں کو سرعام نیلام کر کے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں
اور اشرافیہ سے فوائد اُٹھاتے ہیں۔جنرل نرسنگ سکولوں،پبلک ہیلتھ سکولوں اور
ہاسٹلوں میں نرسز کے حالات زندگی انتہائی مخدوش ہوتے ہیں۔نہ پینے کو صاف
پانی میسر ہوتا ہے اور نہ کھانے کو صاف ستھرا کھانااکثر پبلک ہیلتھ سکولوں
اور جنرل نرسنگ سکولوں میں پرنسپل کی آسامیاں خالی ہیں جبکہ کئی سکولوں میں
مرد پرنسپل تعینات ہیں جسکی مثال اٹک کا پبلک ہیلتھ نرسنگ سکول ہے جسکے
پرنسپل کا چارج گذشتہ دوسال سے ایم ایس ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال اٹک کے ایم
کے پاس ہے جسکی اپنی شہرت پر سوالیہ نشان ہے؟ یہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا
ہے کہ ان خواتین کے سکولوں میں مرد ملازمین محکمہ ہیلتھ کا آنا جانا ایک
معمول ہے جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور نرسنگ سکولوں مین تمام سٹاف
خواتین پر مشتمل ہونا چاہیے۔موبائل کے استعمال پر مکمل پابندی ہونی چاہیے
اور ان سکولوں کی واڈنز اور پرنسپل ایک اچھی شہرت کی حامل ہونی چاہیں تاکہ
ان سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبا ت اچھے اخلاق اور تربیت لے کر
مریضوں کی خدمت کر سکیں۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان سکولوں کی وارڈنز
اور پرنسپلز اپنے افسران بالا کی خوشنودی حاصل کرنے اوراپنے سروس ریکار ڈ
کو بہتر بنانے کے لیے ان نرسنگ سکولوں کی طالبا ت کو افسران بالا کی عیاشی
کے لیے بھجوایا جاتا ہے اور جو لڑکی رضا مند نہ ہو اسے حیلے بہانوں سے تنگ
کیا جاتا ہے اور نوبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اکثرلڑکیاں خودکشی کرنے میں
ہی اپنا تحفظ سمجھتی ہیں۔ قصور کے ایک نرسنگ سکول کی پرنسپل کے کارنامے بھی
اخبارات کی زینت بن چکے ہیں جو سکول کی لڑکیوں کو خود لاہور میں افسران
بالا کی عیاشی کے لیے لے کر آتی تھی لیکن ایک شریف لڑکی وہا ں سے بھاگ نکلی
اور میڈیا میں یہ واقعہ افشاں کردیا۔ہمارے معاشرے میں اول تو ایسے واقعات
رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور اگر سامنے آبھی جائیں تو ذمہ داروں کے خلاف محض
کاغذی کاروائیاں کی جاتی ہیں اور کچھ ہی ماہ بعد معاشرے کے یہ ناسور اسی
محکمہ صحت میں کسی اور اچھے عہدے پر برُجمان نظر آتے ہیں۔
اسلامی معاشرے میں صنف نازک کی اس تذلیل کی بالکل اجازت نہیں ہے۔بلکہ ایسے
لوگ جو اس طرح کی حرکات و سکنات کے مرتکب ہوتے ہیں وہ سخت سے سخت سزا کے
مستحق ہیں کیونکہ وہ صرف عورت کی محترم ہستی کو ہی رسواء نہیں کرتے بلکہ
بدنظری کی دعوت کو عام کرتے ہیں اور لوگوں کو گناہوں کی ترغیب دیتے
ہیں۔ہماری اسلامی تاریخ کا وہ عظیم واقعہ جب ایک جنگ میں کچھ قیدی آپ ﷺ کے
سامنے پیش کئے گئے تو اس میں حاتم طائی قبیلے کی ایک لڑکی بھی تھی جسے
زنجیر پہنائی گئی تھی اور وہ بے پردہ تھی۔ آپ ﷺ نے جب اُس غیر مسلم اور
دُشمن لڑکی کو بے پردہ دیکھا تو اپنی چادر مبارک اسکے چہرے پر تان دی۔ عورت
صنف نازک ہے جس کے لیے زندگیوں کی سنگینیاں اس قدر گراں ہیں کہ انہیں
اُٹھانا آسان نہیں۔اسلام مخلوط تعلیم، مخلوط مجالس اور مخلوط تقریبات کی
بھی اجازت نہیں دیتا۔ یہ بے راہ روی ہمارے معاشرے کو جس مقام پر لے آئی ہے
دیکھ کر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم کس طرح ایک ایسے گڑھے کے کنارے کھڑے
گرنے والے ہیں جس میں آگ کے شعلے لپک رہے ہیں۔ اسلام عورت کو غلامی کی
زنجیروں سے آزاد کروا کر یہ پیغام دیتا ہے کہ اے بیٹی اس حیاء سوز ماحول
میں بتول بن کر خود کو پردہ بنا لے تاکہ تیری گود میں حسین پرورش پا سکیں۔
جناب خادم اعلیٰ پنجاب ایسے عناصر کو جو عورت کی تذلیل کے باعث ہیں سر عام
کٹری سزائیں دلوائی جائیں محض خانہ پرُی نہیں چاہیے۔
بیٹیاں ہر قوم کی صدق و صفا کے پھول ہیں
ہم نشیں مہ و پروین حیاء کے پھول ہیں |
|