بھارت کی علیحدگی پسند تنظیمیں اور خونی انقلاب کا اندیشہ

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے وزرائے اعلیٰ کی ایک کانفرنس میں ماؤ کے حامیوں کی تحریک کو بھارت کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ انکی بات درست ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت 67 علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے17بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق بھارت میں 100سے زائد دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔ دراصل اپنی ان لا تعداد تنظیموں پر پردہ ڈالنے اور حقائق چھپانے کے لئے وہ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرتا ہے۔

بھارت کے صرف ایک صوبے آسام میں 34 علیحدگی پسند تنظیمیں ہیں۔ ان میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا ، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، کارگورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس، ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل، تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس ، تری پورہ آرمڈ ٹرائیبل والنٹیرز فورس ، تری پور مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ ، مینرو رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ، پنجاب میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی سمیت بھارت میں بائیں بازو کی کئی انتہا پسند تنظیمیں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت نے جن انتہا پسند تنظیموں پر پابندی نہیں لگائی ان میں پیپلز گوریلا آرمی، پیپلز وار گروپ نیکسلائٹس، تامل نیشنل ٹروپس، آصف رضا کمانڈو فورس رن ویرسینا ، ایل ٹی ٹی ای وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ گوہاٹی میں رات کے وقت سڑکوں پر گوریلوں کا راج ہوتا ہے اس لیے غروب آفتاب کے بعد لوگ گھروں باہر نہیں نکل سکتے۔ حکومت کی جانب سے پابندیوں کے باوجود علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیاں انڈر گراؤنڈ جاری رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی پنجاب، ناگا لینڈ٬ بہار٬ مغربی بنگال٬ مقبوضہ کشمیر اور آزادی پسند ریاستوں کے تقریباً 66فیصد عوام بھارت سے اکتا چکے ہیں۔ گورکھا ٹائیگر فورسز اور علیحدگی پسندوں کی کاروائیوں سے بھارت کے انٹیلی جنس ادارے خود پریشانی کا شکار ہیں جبکہ بھارتی حکام اپنے ملک میں ہونے والی تمام تخریبی کاروائیوں کے اصل حقائق تک پہنچنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔ بھارتی حکام سیاسی تجزیہ نگار اور دانشور اپنے بیانات میں ملک کے اندر دہشت گردی انتہا پسندی مذہبی جنونیت کو تسلیم کر چکے ہیں اور بھارت کے تقسیم ہونے کا خدشہ محسوس کرتے۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر گوریلا فورسز کاروائی کرتی ہیں۔ پیپلزگوریلا٬ تامل گوریلا دنیا کی جانی پہچانی گوریلا فورسز ہیں جن کے ٹریننگ کیمپ اسلحہ کے مراکز بھارت میں موجود ہیں۔ گوریلا فورسز اپنے دشمنوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ بھارت میں 100 سے زائد دہشت گرد تنظیموں میں سے 35تنظیمیں انتہائی خطرناک شمار کی جاتی ہیں۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس٬ بابری مسجد کے انہدام٬ گجرات فسادات اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت میں بھارت کی خطرناک دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ تاہم ان سب تنظیموں میں سب سے زیادہ خطر ناک اور شدت تنظیم نکسل باڑی ہے جیسے ماﺅ نواز علیحدگی پسند تنظیم کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے پچھلے بیس سالوں کے دوران ماؤ باغیوں نے چھ ہزار سے زائد افراد مارے۔ اس تنظیم کی بڑھتی کاروائیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1996 میں ان کے حملوں میں صرف 156 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ پچھلے سال ان کے ہاتھوں 1134 افراد مارے گئے۔ چونکہ ان کے ٹارگٹ زیادہ تر سیکورٹی اہلکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے یہ تعداد کم نہیں۔ گزشتہ چند برسو ں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں نکسل باڑیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔ پچھلے دو سالوں کے دوران کی جانے والی اس کی چند بڑی کاروائیوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ 29جون 2008 کو اڑیسہ میں پولیس آفیسروں کو لے کر جانیوالی ایک کشتی پر نکسل باغیوں کے بم حملے میں 38 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ دو ہفتے بعد 16جولائی 2008 کو اڑیسہ کے ضلع مالکنگری میں ایک پولیس وین کو سڑک پر نصب بم سے اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں 21پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ سال 2009 نکسل باڑیوں کی دہشت گردی کے حوالے سے تباہ کن رہا۔13اپریل 2009 کو اڑیسہ میں پیرا ملٹری فورسز کے کیمپ پر حملہ کر کے 10اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا۔22اپریل کو جھاڑ کھنڈ میں ایک مسافر ٹرین کو اغوا کر لیا ۔22مئی کو مہاراشٹر کے جنگل میں16پولیس اہلکاروں کو قتل کر دیا،10جون کو جھاڑکھنڈ 10سکیورٹی اہلکار ہلاک کر دئیے،13جون کو جھاڑ کھنڈ میں مزید دس اہلکار مار دئیے،16 جون کو جھاڑکھنڈ میں نکسل نے 10 اہلکار ہلاک کئے اور 23جولائی کو چھتیس گڑھ کے ایک قبیلے کے سردار کو قتل کر دیا ۔26 ستمبر کو چھتیس گڑھ کے ایک گاﺅں میں بی جے پی کے ایم پی کے بیٹے کو قتل کردیا۔8اکتوبرکو مہاراشٹر کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کر کے 17پولیس اہلکار ہلاک کر دئیے۔ حالیہ سال میں اب تک دو بڑے حملے کر چکے ہیں۔15 فروری 2010کو مشرقی اڑیسہ کے علا قے میں پیرا ملٹری فورسز کے 10اہلکار مار ڈالے اور 4اپریل2010سے شروع ہونے والی کاروائیوں میں چھتیس گڑھ کی سنٹرل ریزرو فورسز کے 85 سے زائد اہلکار ہلاک کر چکے ہیں۔

اس تازہ حملے کے بارے میں بھارتی وزیر داخلہ چدم برم نے کہا کہ مجھے اس حملے سے شدید صدمہ پہنچا ہے، حملے سے ثابت ہوگیا کہ ماﺅ علیحدگی پسند کتنے سفاک ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اعتراف کرتے ہیں کہ ماؤ نواز باغیوں کی تحریک بھارت کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ دوسری جانب نکسل بھی بھارتی حکمرانوں سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ ان کی نفرت کا یہ عالم ہے کہ ان کے رہنما ” گناپتی“ نے حال ہی میں وزیر اعظم منموہن سنگھ اور وزیر داخلہ چدمبرم کو ” دہشتگرد “ قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ”ہمارے ملک پر حکمرانوں یعنی خون چوسنے والی بلاؤں کا نام و نشان مٹانے کیلئے لوگ ہماری جماعت کی قیادت میں طوفان کی طرح اٹھ کھڑے ہوں گے۔ دوسروں پر علیحدگی پسند تنظیموں کے الزامات لگانے والے بھارت کا اپنا یہ حال ہے کہ اس کے صرف ایک صوبے آسام میں 34 علیحدگی پسند تنظیمیں ہیں۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90586 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.