بھارت اور مودی کا ظالمانہ ،تعصبانہ ا سٹائل

 بھارتی حکمرانوں کی پاکستان اور مسلم دشمنی کوئی نئی بات نہیں قیام پاکستان کے بعد ہندو تعصب اس وقت ظاہر ہوا جب بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کی اور پاکستان حامی ریاستوں پر قبضہ کا سلسلہ شروع کیا پاکستان کے حصہ کے وسائل ریلوے انجن تک بھارت نے روک لئے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے دریاؤں گا پانی روک کر آبی جارحیت شروع کی گئی بھارتی حکمرانوں کی پاکستان دشمنی کا مظاہرہ حکومتی سطح پر ہی نہیں ہو ا بلکہ ہندو رہنماؤں نے بھی بھارتیوں کے ذہن میں تعصب کا بیج بویا اوربھارت میں غیر ہندوؤں کے خلاف مذہب چھوڑنے یا بھارت چھوڑنے کا نعرہ لگایا گیا ۔بھارت میں شدت پسندی باقی ملکوں سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ یہاں ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں شدت پسندی کو سرکار ی سر پرستی حاصل رہی ہے اور اس کی وجہ بھارتی حکمرانوں کا وہ دوغلا پن ہے کہ ایک طرف عالمی سطح پر سیکولر اور روشن بھارت کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو دوسری طرف ہندو سماج کی سر پرستی کرکے ہندو ووٹر ز کورام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بھارتی سیاست کا یہ دہرا پن بی جے پی کی صورت میں گزشتہ چند سال سے پوری شدت سے ابھرا ہے جس کا انداز ہ نریندر مودی کی انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقاریر سے بھی لگا یا جاسکتا ہے بی جے پی نے الیکشن کے دوران جس تعصب کو ہوا دی ، مودی وزیراعظم بننے کے بعد اس ایجنڈے پر عمل پیراہیں ۔بی جے پی کی حکومت کے بعد ہی پہلی بار ہوا کہ بھارتی وزیر دفاع اور وزیر داخلہ نے پاکستان میں دہشت گردی کو سپورٹ کرنے کی بات کی اور نریندر مودی نے بنگلہ دیش میں پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر مہر تصدیق ثبت کردی ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر بلا اشتعال گولہ باری بھی اسی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کو پھیلا کر بھارت آگ سے کھیل رہا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان بھی خود اسے ہی ہوگا بھارت میں ایک اندازے کے مطابق تقریبا14 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اوربھی بے شمار قومیں وہاں آباد ہیں بھارت کی بے شمار ریاستوں میں گائے کا گوشت بیچنے کھانے اور اس کو ذبح کرنے پر پابندی ہے کچھ روز قبل بھارت میں واقع ایک گاؤں دادری کے 50سالہ رہائشی محمد اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں انتہا پسند ہندوں کی جانب سے مار مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔بعد میں کی جانے والی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ وہ گاے کا گوشت تھا ہی نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گائے کے گوشت پر پابندی سب سے پہلے مہارا شٹر میں لگائی گئی اس کے بعد راجھستان ، چھتیں گڑھ ، گجرات ، پنجاب اوردیگر شہروں پر عائد ہوئی ان تمام جگہوں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت تقسیم ہند سے پہلے کی رہنے والی ہے یہاں مسلمانوں اور دیگر مذاہب پر مشتمل لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہیں اپنے مذہبی معاملات کی ادائیگی میں سخت پریشانیوں کا سامنا ہے اسی طرح ہندو تعصبات کی باتوں کو آگے بڑھایا جائے تو اس میں قابل ذکر چند دن پہلے سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ بھارتی حکومت کی تنگ نظری اور غلط سوچ کا اثر مانا جارہا ہے اس کا منفی اثر حکومت پاکستان پر نہیں بلکہ غریب انڈین اور پاکستانی عوام پر ہوا ہے جو اس ٹرین میں مسافرتھے۔ انسانی ہمدردی کا تقا ضا تھا کہ اگر ٹرین کو کینسل کرنا تھا تو ایک دن پہلے پاکستانی حکام کو مطلع کیا جاتا تاکہ مسافر اپنے گھروں پر ہی رہتے واہگہ میں سات گھنٹے مسافروں کو خراب کروا کر ٹرین واپس بھجوانا غیر انسانی فعل ہے جس سے موذی کی تنگ نظری کی عکاسی ہوتی ہے۔23جنوری1926 ء کو پیدا ہونے والے بال ٹھا کر ے نے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والی جماعت شیوسینا کی بنیاد1996 ء میں رکھی جس نے بھارت میں مسلمانوں کی زندگی کو محدود کرنا شروع کردیا بے شمار دل ہلا دینے والے واقعات رونما ہوئے جس میں گزشتہ برس مہا راشٹر کے ایک شہر سے تعلق رکھنے والے شیوسینا کے رکن پارلیمان راجن وچارے نے مہاراشٹر سدن کی ایک کینٹین میں کام کرنے والے مسلمان شہری ارشد زبیر کے منہ میں اس وقت روٹی کا ٹکڑا ڈالنے کی زبردستی کوشش کی جب وہ روزے کی حالت میں تھے اس وقت اور بھی رکن پارلیمان موجو د تھے جنہوں نے ارشد زبیرکو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کا زبردستی روزہ تڑوانے کی کوشش کی جو کہ مذہبی آزادی اوربھارت کی جانب سے مسلم دشمنی کی بھیانک مثال ہے ۔اس قسم کے اقدامات سے بھارتی حکو مت خود بدنام ہوتی ہے اور یہ معاملہ ان خرابیوں کے ساتھ مل جاتا ہے جس کا شکار بھارت آج کل ہے انتہا پسند ہندؤں نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو خصوصاً مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے جس پر بھارتی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بھارت سرکار دراصل خود انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اگر اس قسم کے واقعات اسی طرح چلتے رہے تو مودی کی حکومت خود اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہوجائے گی جس کی مثال یہ ہے کہ مودی سرکار کی جانب سے اس طرح کے شرمناک واقعات کو وہاں پر کا م کرنے والی سیاسی جماعتوں ، ادکاروں اور ادیبوں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ان حالیہ واقعات میں انتہا پسند ہندؤں کی جانب سے پاکستان کے غزل گو گائک غلام علی کے کنسرٹ کی شدید مخالفت کی گئی اس واقعہ کو پاکستان کے ادبی حلقوں میں اچھے انداز سے نہیں دیکھا جارہا تھا کہ اس واقعہ کے چند روز بعد پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمودقصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی پروگرا م کی بھی مخالفت ہونے لگی جس میں بھارت میں انتہا پسندی کو فروغ دینے والی تنظیم شیوسینا کے لیڈر سنجے راؤت نے شدید الفاظ میں دھمکی دی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر خورشید قصور ی اس پروگرام میں اپنے منہ سے پاکستان کی جانب سے مختلف محاذوں میں مارے جانے بھارتی فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں توان کے پروگرام کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔ شیوسینا کی اس دہشت گردی کی مذمت عالمی سطح پر ہی نہیں بلکہ خود بھارت میں بھی کی جارہی ہے ساؤتھ ایشیاء علماء کو نسل کو لکتہ کے رہنما بھی اس واقعہ کے بعد پھٹ پڑے ہیں اور علماء کونسل کی طرف سے کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھارت خوفناک راستے پر چل نکلا ہے مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کی جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کے ساتھ مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کا سلسلہ بھارت کو تقسیم کی طرف لے جارہا ہے جبکہ بھارت کے مسلمان متحدہ بھارت کے حق میں ہیں نریند ر مودی کی شدت پسند سو چ کا انداز ہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خودبی جے پی کی اہم شدت پسند رہنماایل کے ایڈوانی بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ غنڈہ گردی بھارت کے چہرے پر کالک ہے۔اسی طرح کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارت میں ہندو اور مسلمان خود نہیں لڑرہے بلکہ اپنے مفاد کے لئے لڑایا جا رہا ہے۔جلال پور ٹاؤن میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی اور اسکے وزیر اعظم مودی ہندؤوں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑارہے ہیں مودی فرقہ ورانہ سیاست کر رہے ہیں انہوں نے مودی کا نام لئے بغیر کہا کہ اگر فرقہ ورانہ سیاست ہندوستان سے ختم ہوگئی تو کچھ لوگوں کی سیاست بھی ختم ہو جائے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نریندر مودی کی تنگ نظری اور تعصب نہ صرف پاکستان کی سلامتی اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ اگر اس قسم کی انتہا پسندی کو روکا نہ گیا تو بھارت میں اقلیتیں بالخصوص مسلمانوں کی نسل کشی کی صورت میں کوئی سنگین انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے اور مودی کا ظالمانہ ،تعصبانہ سٹائل نہ صرف خطے بلکہ بھارت کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے ان حالات میں عالمی برادری کے ساتھ بھارت کے سیکولر طبقوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مودی کے شدت پسند رویہ کو روکیں ورنہ بھارت کی جانب سے دہشت گردانہ روئیے کی آگ میں خود بھارت جل کر راکھ ہوجائے گا مذہبی انتہا پسندی کا شوق رکھنے والے ہندو مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کو اپنا دھرم سمجھتے ہیں ایک طرف جہاں وہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو دھرم کا دشمن کہتے ہیں دوسری طرف وہ کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ اس وقت مسلم دشمنی میں اندھا بھارت کبھی گائے کے گوشت پر پابندی عائد کرتاہے تو کبھی مسلمانوں کے ٹوپی پہننے پر پابندی لگا تا ہے۔ مودی سرکار کی ملی بھگت سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر حکومت پاکستان کو آواز اٹھانی چاہیے کیونکہ مودی سرکا ر ان مذہبی انتہا پسندوں کو مسلمانوں پر مظالم بند کرانے کی بجائے ان کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع دے رہی ہے جو مسلمانوں کے ساتھ کھلی دشمنی کا اعلان ہے ۔
Hafiz Ishaq Jilani
About the Author: Hafiz Ishaq Jilani Read More Articles by Hafiz Ishaq Jilani: 19 Articles with 19316 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.