گلگت بلتستان میں حالیہ چند روز
سے ایک مرتبہ پھر آئینی حقوق کے حوالے سے ایک نئی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے۔ اس
کا آغاز اس وقت ہوا جب وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ پھر یہ اعلان کیا کہ گلگت
بلتستان کی آئینی پوزیشن کے تعین کیلئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی
میں کمیٹی قائم کردی ہے اور اسی دوران وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ
الرحمن نے قومی اور نجی نصف درجن کے قریب ٹی وی چینلز میں انٹرویوز اور ایک
تقاریب میں خطاب کے دوران اس موضوع پرگفتگو کی۔
انٹرویوز میں انہوں نے اپنی حکومت کی 120دن کی کارکردگی کا کسی حدتک
بھرپوردفاع کیا ، لیکن خطے کی آئینی حیثیت کے حوالے سے مختلف انٹرویوز میں
ان کے مؤقف میں تضاد نظر آیا ۔ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویومیں واضح طور
پر کہاکہ’’ گلگت بلتستان کشمیر کا نہیں مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیرکی
قیمت پر ہم صوبہ نہیں چاہتے ‘‘ ساتھ ہی گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی
حال ہی میں صوبے حق میں منظور کی گئی قرارداد کا بھرپور دفاع بھی کیااور
کہاکہ ہم ’’صوبہ چاہتے ہیں تو اسمبلی نے قرارداد منظور کی ہے‘‘۔
اسی انٹرویو میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اپنی جماعت مسلم لیگ(ن) کے گلگت
بلتستان کی آئنی حیثیت کے حوالے سے مؤقف واضح نہیں کرسکے۔ ایک اور انٹرویو
میں انہوں نے’’ کشمیر کے ساتھ خطے کے تعلق کو فخر قرار دیا‘‘ لیکن دوسری
جانب ’’1947ء میں گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے جوڑنے کے عمل پر بھی
افسوس کیا‘‘۔ اگر ان سارے انٹرویوز اور تقاریر جو حالیہ ایک ہفتے کی ہیں کہ
جائزہ لیاجائے تو ایسا لگتاہے کہ بطور وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان خطے کی
آئینی حیثیت کے حوالے سے کوئی واضح مؤقف پیش کرنے میں کامیاب نہیں رہے،جس
کی ان سے توقع کی جارہی تھی حالانکہ ماضی میں انکا مؤقف تاریخی حقائق کے
مطابق جاندار اور مدلل رہا ہے۔ شاید اب اقتدار اور حالات کی مجبوریاں رکاوٹ
بن رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں حافظ حفیظ الرحمن کو چاہیے کہ وہ پارٹی کے
سینئر رہنماؤں اور تاریخی حالات واقعات او ر موجودہ حالات پر گہری نظر
رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک تھینک ٹینک قائم کرے جو مجموعی صورتحال کو
مدنظر رکھتے ہوئے ایسا حل پیش کرے جو یہاں کی تمام ، لسانی ، مذہبی،
علاقائی اور جغرافیائی اکائیوں کو قبول ہو اور وہ حل پاکستان کے کشمیر کے
مؤقف اور کشمیریوں کی جدوجہد کو متاثر نہ کرسکے، کیونکہ اس وقت کشمیریوں کی
جدوجہد آزادی ایک نئے موڑ میں داخل ہوچکی ہے ۔
بھارت میں انتہاپسند ہندوں کے اقدام نے پوری دنیا میں بھارتی سیکولرزم کے
سیاہ چہرے کو بے نقاب کردیا ہے ظاہری طور پر بمبئی اور دھلی پریس کلب میں
بالترتیب بھارتی دانشور سدھیندر کلکرنی اوربھارتی زیر انتظام کشمیر اسمبلی
کے ممبر انجینئر عبدالرشیدکے چہرے سیاہ کردیئے گئے لیکن یہ کالک ان اشخاص
کے چہروں پر نہیں بلکہ بھارت کے سیکولرزم کے چہرے میں مل کر دنیا کو دیکھا
دیاگیاہے کہ بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔اس سے قبل اس تنازع کا آغاز
بھارتی ہائی کورٹ کے ایک فیصلے سے ہوا جس میں کشمیر میں بھی گاؤ کشی (گائے
کے ذبیحہ)کو جرم قرار دیا اور یہ حکم عید قربان سے چند روز قبل جاری کیا
گیا ،اس پر کشمیریوں نے بھرپور احتجاج کیاجو آج بھی جاری ہے ۔
حالیہ چند ہفتوں میں بھارت کے مختلف حصوں میں گائے کے گوشت کی موجودگی یا
خریداری کے الزام کو بنیاد بناکر 3مسلمانوں کو شہید کردیا گیا ہے، اس سے
جہاں ایک طرف بھارت کے اندر اقلیتوں میں بے چینی پیدا ہوئی ہے وہیں پر
کشمیر کی جدوجہد آزادی کو ایک نئی توانائی بھی ملی ہے اور اب وہ لوگ جو کل
تک’’ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے رہے تھے‘‘ اب یہ کہنے پر پر مجبور
ہیں کہ’’ محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ درست فیصلہ تھا‘‘ اس کی واضح مثال
بھارتی زیر انتظام کشمیر اسمبلی کے رکن انجینئر عبدالرشید کا میڈیا سے
حالیہ گفتگو ہے ۔
حال ہی میں ایک مقدمہ کے فیصلے میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کے ہائی کورٹ
نے بڑی وضاحت کے ساتھ فیصلہ دیاہے کہ’’ جموں وکشمیر(بشمول آزاد کشمیر و
گلگت بلتستان) بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ آج بھی متنازع ہے‘‘ ۔فیصلے میں
یہ واضح کیاہے ’’کشمیر متنازع ہونے کی وجہ سے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370میں
اس کو خصوصی حیثیت دی گئی ہے اور اس آرٹیکل کو کبھی ختم اور نہ ہی تبدیل
کیا جاسکتاہے ‘‘۔
ان سارے واقعات کے دوران اگر ہم نے گلگت بلتستان جو 1947میں قائم ریاست
جموں وکشمیر کا اہم صوبہ تھا میں کوئی نیا تجربہ کرنے کی کوشش کی تو اس کے
منفی اثرات نہ صرف خطے پر مرتب ہوں گے ،بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو
نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی یہ بات درست ہے کہ گلگت
بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے خطے میں دو سے زائد مؤقف ہیں اور عوام
اس میں تقسیم ہے۔ ایک طبقہ کلی طور پر اپنے آپ کو کشمیر سے جوڑنا چاہتاہے
تو دوسرا طبقہ کشمیر سے ہرقسم کے تعلق سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ وہ
پاکستانی صوبہ کو اپنی منزل قراردیتاہے،جبکہ ایک طبقہ خود مختاری کی بھی
بات کررہاہے، اگرچہ آخرالذکر طبقے کی تعداد کم ہے لیکن وقت کے ساتھ اس مؤقف
کو تقویت مل رہی ہے کیونکہ اول الذکر دونوں مؤقف کو کسی نہ کسی حدتک
متعصبانہ سوچ کے زیراثر قراردیا جاسکتاہے۔
اولذکر دونوں مؤقف کس حد تک شدت اس کا اندزہ جمعیت علماء اسلام(ف) کے سرگرم
رہنماء اور سابق ممبر گلگت بلتستان قانون ساز کونسل مولانا عطاء اﷲ شہاب
اور پیپلز پارٹی رہنماء و رکن گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی عمران ندیم
شگری کے حالیہ بیانات سے ہی لگایا جاسکتا ہے ۔ مولانا عطاء اﷲ شہاب نے اپنے
بیان میں اپنے ماضی بعید کے مؤقف کو ایک مرتبہ پھر ددہرایا اور واضح کیاہے
کہ’’ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اور تنازع کشمیر کے حل تک اسیں دنیاکی
کوئی طاقت کشمیر سے الگ نہیں کرسکتی ہے‘‘انہوں نے کشمیر سے تعلقی کے مؤقف
پر صوبائی وزیر ڈاکٹر محمد اقبال کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔مولاناکا
گلگت بلتستان کونسل کے ممبر بننے سے قبل نہ صرف یہی مؤقف رہاہے بلکہ انہوں
نے ’’منزل کی تلاش‘‘کے عنوان سے کشمیر کا سفر نامہ بھی لکھاہے جس میں گلگت
بلتستان اور کشمیر کے تعلق پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ،تاہم گلگت بلتستان
کونسل اورگلگت بلتستان اسمبلی میں2009ء کے بعدجمعیت علماء اسلام کا مؤقف
تقریباً یکسر مختلف رہا ہے ،بلکہ گلگت بلتستان اسمبلی کی جانب سے گلگت
بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ بنانے کے حق میں منظور کی جانے والی
حالیہ قرارداد کی حمایت میں جمعیت کے واحد رکن حاجی شاہ بیگ پیش پیش رہے ،
لیکن جماعتی بنیاد پر آج بھی جمعیت علماء اسلام کا وہی مؤقف ہے جس کا اظہار
مولانا عطاء اﷲ شہاب نے حال ہی میں کیا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہے
کہ مولانا عطاء اﷲ شہاب کا شمار خطے کے ان چند سیاسی اور مذہبی قائدین اور
دانشوروں میں ہو تا ہے جو مسئلہ کشمیر ، تنازع کشمیر ، گلگت بلتستان کی
قانونی و آئینی پوزیشن اور عالمی حالات پرگہری نظر رکھتے ہیں ۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کے سرگرم رہنماء اور رکن اسمبلی عمران ندیم نے اپنے
ایک حالیہ بیان میں’’ آئینی حقوق کو موت حیات قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیاہے
کہ خطے کو پاکستان کا آئینی عبوری صوبہ بنا یا جائے ‘‘۔لیکن موصوف کی جماعت
پیپلزپارٹی 5مرتبہ اقتدار میں آنے کے باوجود گلگت بلتستان کو کشمیر سے جدا
نہیں کرسکی،اس کے اسباب کا ادراک عمران ندیم کو بخوبی ہے ۔ عمران ندیم کا
شمار بھی پیپلزپارٹی کے چند سنجیدہ اور تجربہ کار رہنماؤں میں ہوتا ہے ،غالبا
ًیہی وجہ ہے کہ خطے کے ایک بڑے حلقے کی جانب سے انہیں پارٹی کی صوبائی
صدارت دینے کا مطالبہ کیاجارہاہے ۔ہم نے دو معتدل رہنماؤں کے بیانات کو
بطور مثال پیش کیا ہے اورمتضادمؤقف رکھنے والوں کی شدت پسند ی کا قارئین
اسی سے اندازہ لگائیں ۔
تاریخی حقیقت یہی ہے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر اور تنازع کشمیر کا
فریق ہے لیکن جموں وکشمیر کا جغرافیائی حصہ نہیں ہے،اس لئے تاریخی حالات
وواقعات سے واقف اشخاص کو چاہیے کہ وہ کسی مخصوص سوچ کا حصہ بننے کے بجائے
خطے کے مفاد ات اور تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا مؤقف اختیار
کریں جو مسائل کے حل میں کردار اور قومی اتفاق پیدا کرے ۔ سیاسی نعرے وقتی
طور پر افراداور جماعتوں کو فائدہ تو پہچا سکتے ہیں لیکن عملی طور پر قوموں
کو نقصانات کا سامنارہتاہے۔ مسلم لیگ(ن) نے جو کمیٹی قائم کی ہے اس میں
گلگت بلتستان کی تمام مذہبی ، لسانی ، علاقائی اور جغرافیائی اکائیوں کو
نمائندگی دی جائے تاکہ جو حل سامنے آئے وہ قابل قبول اور قابل عمل ہو بصورت
دیگر خطے میں ایک نئے فساد کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ |