شیو سینا کا اب دہلی کے میدانوں میں راج

 رسمی ،نام نہاد جموریت کی حامل ہندوستانی ریاست کا مکروہ ،فریب زدہ چہرہ اب پوری دنیا کی نظروں میں عیاں ،ہندوستان نے تعصب،دشمنی ،عناد ،انتہا پسندی اور منفی ہتکھنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح پاکستان اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی وارہاتھ سے خالی جانے نہیں دیتا۔جب سے ہندوستان میں انتہا پسند مودی کی انتہا پسند حکومت بنی تب سے لے کر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی دہشت اور انتہا پسندی میں اضافہ ہی ہو تا جا رہا ہے اور انتہا پسندی ،بزدلی کی کئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ہندوستان ورکنگ بانڈری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے توپوں کہ رخ سے معصوم اور نہتے شہریوں کو خون میں نہلا دیتا ہے،تو کبھی دادری کے محمد اخلاق کو گائے کے گوشت کھانے کی پاداش میں شک بلکہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت رات کے اندھیرے میں چھپ کر بے رحمانہ طور پر شہید کیا جاتا ہے،کبھی گائے کے ذبیجہ پر غیر قانونی پابندی کے خلاف کوئی آواز حق بلند کرتا ہے تو اس کو تشد د کا نشانہ بناتے ہوئے چہرے پر سیای انڈیل دی جاتی ہے اور کبھی گوشت کھانے کے لیے پاکستان جانے پر مجبور کیاجاتاہے ۔انتہا پسندی کے مکروہ فعل کہ داۂ کار کور بڑھاتے ہوئے اس عزت ہتک اور بیمانہ فعل سے اب ادیب،قلم کاراور امن کے پرچار کرنے والے سفیر کھلاڑی بھی اس کی زدہ سے نہ بچ پائے۔کبھی معروف موسیقار غلام علی کا پروگرام شیو سینا کی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ،کبھی ادکار وں اور فنکاروں جنکی کوئی حدوو نہیں ہوتی،کوئی خونی لکیر نہیں ہوتی کو کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے،کبھی ادیبوں اور قلم کاروں پر اپنی انتہا پسندی اوردہشت کی سیاسی پھینک دی جاتی ہے۔شیو سینا کی بدمعاشی نہ صرف یہی تک محدود بلکہ کھیل اور کھلاڑی جو کہ امن وامان کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں ہوتے کو بھی انتہا پسندی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔شیو سینا کی یہ بدمعاشی اور انتہا پسندی کرکٹ کی دنیا میں کوئی نئی نہیں ہے بلکہ روز ازل سے ہی اس کے ایجنڈے میں یہ واضع ہے کہ امن کا پرچا کرنے والی سرگرمیاں کھیل اور کھلاڑی اس کے ہمیشہ ہٹ لسٹ پر رہے ہیں ۔

1991میں پاک بھارت کرکٹ مقابلہ روکنے کے لیے شیو سنا کے اہلکاروں اور انتہاپسندوں نے فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم کی پچ ہی کھود دی تھی جس کا نتیجہ سریز کا خاتمہ ہی ہوا،1999میں متعصب اور بیمار ذہین کے حامل شیو سینا نے بغیر کسی روک ٹوک کے میدان میں داخل ہو کر پچ پر قبضہ کر لیا اور پاک بھارت مقابلہ منتقل کر نا پڑا،2006کا عالمی ٹاکرا ہندوستان میں منعقد ہوا اس دوران بھی اپنی روایات پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی شمولیت کے خلاف احتجا ج ،ہنگامی آرائی اور منفی نعروں کا ڈرامہ رچایا گیا،کبھی لومڑی کی چال چلتے ہوئے معروف ادارکا ر شارخ خان کو بھی فلم انڈسٹری میں کام نہ کرنے اور ہر قسم کی سرگرمیاں معطل کرنے کی ناکام دہمکیاں دیں گئی قصور صرف یہ تھا کہ انڈین پریمئر لیگ میں گرین شرٹ کی مقبولیت کو برداشت نہ کرنا تھا۔حال ہی میں شیو سینا نے اپنی نفرت ،بغض ،کینہ فرسودہ محرکات اور روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جنوبی افریقہ کے ہاتھوں بھارت کی شرمناک شکست کو تسلیم کرنے کا حوصلہ نہ ہونے کے باعث جو مہمان ٹیم کے ساتھ جلاؤ گھراؤ،کوڑا کرکٹ سے میزبانی کی گئی وہ انتہائی شرمناک اور سب کے لیے قابل مذمت ہے ،جاری کبڈی لیگ کے منتظمین کو دھمکیاں دیں کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل نہ کیا جائے اگرچہ پاکستانی پلیئر کی ہندوستان میں موجودگی ہونے کے باوجود ان کو کسی بھی مقابلے میں نہیں لیا گیامودی جو کہ اپنے آپ کو دنیا کی بڑی اور خالص جموریت کا وزیراعظم کہلاتا ہے کو اقلیتوں اور مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا محافظ بھی ہونا چاہے جوکہ ریا ست کے ہر شہری کو یکساں طور پر حاصل ہوتے ہیں جبکہ مودی سرکار کی شیو سینا کو کھلی آشیرباد حاصل ہے وہ جو چاہے کرے اس کو کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ،کوئی باز پرُس نہیں،آئی سی سی کی طرف سے ڈیوٹی پر مامور ایماپئر علیم ڈار کو بھی شیو سینا کی طرف سے دھمکیوں کے ساتھ ساتھ دنیائے کرکٹ کے سٹار وسیم اکرم اور شعیب اختر کو بھی کمنٹری کرنے سے روک دیا گیا اور دھمکی دی کہ ایسا کرنے کی صورت میں وہ خود ذمہ دار ہوں گے کچھ دن پہلے پاکستانی کرکٹ بورڈ کوپاک بھارت کرکٹ سیریز کی بحالی کے لیے دعوت دے کر شیوسینا کے کارہندوں ،مودی سرکار اور بی آئی سی سی کے گیڈروں نے جو میزبانی کا شرف بخشا وہ نہ صر ف پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ بلکہ آئی سی سی کو سنجیدہ طور پر سٹپ لیناچاہیے حالات اگر ایسے ہی رہے تو آئندہ 2016کو ہونے والا ورلڈ کپ جس کا انعقاد بھارت میں ہو رہا ہے وہ بھی شیو سینا اور مودی سرکار کی انتہا پسندی کی نظر ہو جائے گا اور پھر کہیں اور منتقلی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔آئی سی سی کو کوئی لائحہ عمل طے کرتے ہوئے کرکٹ اور امن کی راہ میں روڑے اٹھکانے والے انتہا پسندوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جانے چاہیے تاکہ کھیل اور کھیلوں کی سر گرمیاں فروغ پا سکیں اور امن قائم ہو سکے ۔ عالمی ادیبوں ،شعرا،قلم کاروں ،فنکاروں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو ان منفی سر گرمیوں کابائیکاٹ کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرنا چاہئے تاکہ بیمار اور دہشت گرد ذہن کے حامل عناصر کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔

Shujahat Abbasi
About the Author: Shujahat Abbasi Read More Articles by Shujahat Abbasi: 4 Articles with 2593 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.