! تحریر : سلمان رحمانی فون نمبر :03478666379
اصولی طور پر کسی بھی ملک کے شہری کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی
جہالت، غیر ملکی فنڈنگ یا پھر مخصوص ایجنڈے کے تحت ملک کی تعمیر و ترقی کے
لئے ہونے والے کسی بھی منصوبے کے خلاف اس نوعیت کی بیان بازی کرے کہ یہ
منصوبہ ہماری لاشوں سے گزر کر ہی پورا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔
اس نوعیت کے بیانات کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے جس پر کوئی دو رائے نہیں
ہیں،خدا کا شکر ہے کہ خواجہ آصف نے دبی زبان ہی سے سہی اس بات کا اقرار تو
کر لیا کہ توانائی کے سات زیر غور منصوبوں میں کالا باغ ڈیم بھی شامل ہے۔
ان کے اس محتاط بیان سے بھی یقینا دشمنان پاکستان کو بہت تکلیف ہو گی میں
نے دشمنان پاکستان کی اصطلاح انتہائی محتاط اور نرم الفاظ کے انتخاب کے لئے
استعمال کی ہے۔ ماضی میں متعدد انٹیلی جنس رپورٹ، دستاویزی ثبوت اس بات کے
موجود ہیں کہ بھارتی حکومت کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو روکنے کے لئے لاکھوں
ملین ڈالرز آج تک خرچ کر چکی ہے۔ کیونکہ اس کا ایجنڈہ خاکم بدہن پاکستان کی
تباہی ہے جس کے لئے اس نے پاکستانی معیشت خصوصا زراعت پر بڑا جان لیوا حملہ
کیا ہوا ہے۔ اس حقیقت سے آگاہی کے بعد کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں
اللہ کی مہربانی سے گلیشئر، دریائوں، ندی نالوں کا ایک سلسلہ ہمیشہ سے
موجود رہا ہے بھارتی حکومت نے آہستہ آہستہ اپنے خطرناک عزائم کو عملی روپ
دینا شروع کیا ہمارے دریا ایک ایک کر کے ہتھیائے گئے۔ ستلج، چناب، راوی
یعنی تین بڑے دریا عملا خشک ہو چکے ہیں اور اب دریائے سندھ کا رخ تبدیل
کرنے کے لئے بھارتی حکومت دن رات کوشاں ہیں۔ آبی دہشت گردی کا یہ عالم ہے
کہ افغانستان سے پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں کے پانی کو روکنے کے لئے
بھی بھارتی انجینئرز افغان حکومت سے تعاون کے بند باندھ رہے ہیں اور صدیوں
سے دریائے کابل کی اس طرف آنے والے پانی کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی
جا رہی ہیں۔
سیاہ چن گلیشئر پر بین الاقوامی ماحولیات کے تمام اصولوں کو جوتے کی نوک پر
رکھتے ہوئے بھارتی حکومت نے تجاوزات شروع کر دی ہیں جس سے عالمی ماحولیات
کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ بھارتی فوج نے یہاں ہوائی اڈہ بنا لیا ہے۔
سڑک کے ذریعے سیاچن کو مقبوضہ کشمیر سے ملا دیا ہے اور یہ سب کچھ ساری دنیا
کے سامنے ہو رہا ہے۔
سیاچن میں بھارتی دراندازی اور ماحولیات کی تباہی سے گلگت اور سکردو کو
خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ سکردو میں شدید اور تباہ کن سیلابوں کا سلسلہ
بھارتی آبی غنڈہ گردی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔پاکستان کے وہ تمام شہر جو چناب،
ستلج، راوی کے کناروں پر آباد ہیں اس آبی دہشت گردی کے عینی شاہد ہیں ہماری
آنکھوں کے سامنے ہمارے دریا ایک ایک کر کے خشک ہو کر گندے جوہڑوں میں تبدیل
ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال کو ہر محب وطن پاکستانی شدت سے محسوس کرتا ہے۔
میڈیا کے ذریعے حالات کی سنگینی سے آگاہ پاکستانی ماہرین جن میں ماضی کے
نامور انجینئرز شامل ہیں دن رات اس تباہی کا واویلا مچا رہے ہیں جو حونخوار
اژدھے کی طرح ہماری معیشت اور معاشرت کو نگل رہی ہیں زرخیز زمینوں کا بانجھ
ہونا بدقسمتی اور بدبختی نہیں تو اور کیا ہے لیکن حیرت ہے کسی کے کانوں پر
جوں نہیں رینگتی۔ جیسے ہی پانی کو زخیرہ کرنے کے لئے سستی ترین توانائی کے
حصول کے لئے کالا باغ ڈیم کی بات ہو پاکستان دشمنوں کی دم پر پائوں آ جاتا
ہے وہ دھمکیاں دینے لگتے ہیں چیخنے چلانے لگتے ہیں اور ایک خاص منصوبے کے
تحت کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دینے
لگتے ہیں اس حوالے سے میں نے درجنوں مباحث میڈیا کے مختلف فورمز پر دیکھے
ہیں میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں آج تک کالاباغ ڈیم کا کوئی
مخالف یہ ثابت نہیں کر سکا کہ اس کی تعمیر سے خدانخواستہ خیبرپختونخوا کا
کوئی شہر ڈوبے گا نہ ہی سندھ میں ہنگروز لائف کو خطرات لاحق ہوں گے۔ صرف
ایک ضد ہے یا پھر وطن دشمنی کا کیڑا ہے جو انہیں ٹکنے نہیں دیتا اور ہر بحث
کو آخر میں ضد اور انانیت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ میں ماضی قریب میں جب
ایک قومی روزنامے سے منسلک تھا تو ہم نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے ایک تین
روزہ سیمینار منعقد کیا تھا جس میں سندھ کے پی کے اور بلوچستان کے ہر اس
قابل ذکر لیڈر کو شامل کیا جس کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر اعتراض ہے اس کا
طریق کار یہ تھا کہ ہر معترض صوبے کے نمائندہ انجینئرز کو اس موضوع پر خطاب
کے لئے کہا۔ وقت کی کوئی قید نہیں تھی۔ ان کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات
کے جوابات مدلل اور سائنٹیفک انداز میں ان ہی کے صوبے کا کوئی ماہر دیتا
تھا۔ تین روزہ مباحث میں کوئی ایک خطرہ اور خدشہ بھی مخالفین کالا باغ ڈیم
صحیح ثابت نہیں کر سکے۔ اس کے گواہ ملک کے ہر صوبے میں موجود ہیں یہ سب
صاحب الرائے لوگ تھے۔ ضرب عضب کے آغاز پر الطاف حسین نے نائن زیرو پر خطاب
کے دوران کالا باغ ڈیم کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور حکومت سے استدعا کی
تھی کہ وہ مخالفین کو مطمئن کر کے اس کا آغاز کرے ایم کیو ایم ان کے ساتھ
شامل ہے جس کے بعد سے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں اچانک اضافہ ہونے لگا
اور یہ معاملہ دب کر رہ گیا۔ جنرل مشرف نے اپنے دور حکومت میں کالا باغ ڈیم
کی تعمیرکی مہم شروع کی لیکن محض اقتدار کے چسکے میں اچانک ان لمحات میں
اسے روک دیا جب عملا پورے ملک کی رائے عامہ اس کے لئے ہموار ہو چکی تھی۔
حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ نوشہرہ جس کے ڈوبنے کا واویلا اے این پی
مسلسل مچاتی رہتی ہے کے ہی رہنے والے واپڈا کے سابق چیئرمین نے اس منصوبے
کی بنیاد رکھی درجنوں مرتبہ وہ اس بات کو غلط ثابت کر چکے لیکن باچا خان کا
پوتا جن کے دادا نے پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا تھا لیکن
مفاہمت کی سیاست کے کاریگر جناب آصف زرداری نے محض اپنے راج پاٹھ کو قائم
رکھنے کے لئے پشاور ایئرپورٹ کو باچا خان کے نام سے منسوب کر دیا جو خود کو
سرحدی گاندھی کہلانے پر فخر محسوس کیا کرتے تھے ان کے اہل و عیال نے قیام
پاکستان کے بعد سے اس بات کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے کہ پاکستان کی تعمیر و
ترقی کے لئے بننے والے ہر اہم منصوبے کی مخالفت کی جائے اور یہ سلسلہ آج تک
جاری ہے۔
انجینئرنگ کی الف بے کو سمجھنے والا ہر ماہر آبپاشی یہ بات اچھی طرح جانتا
ہے کہ کالا باغ کی تعمیر سے پاکستان کی زرعی معیشت میں انقلاب آ جائے گا۔
اس کے ثمرات سے ہم سب آگاہ ہیں۔ متعدد مرتبہ باسی کڑھی میں ابال آتا ہے۔ اس
کی تعمیر کا آغاز ہوتا ہے اور روک دیا جاتا ہے۔ مجھے کالاباغ ڈیم پر طویل
ڈاکومنٹری بنانے اور تین پروگرام کرنے کا اعزاز حاصل ہے میں نے وہاں اپنی
آنکھوں سے وہ تعمیرات دیکھی ہیں جو اب جنوں پریوں کے مسکن بن گئی ہیں۔ اگر
حکومت جرات ایمانی سے کام لیتے ہوئے یہ عزم کر لے کہ اس نے کسی غدار کی
لغویات کو خاطر میں لائے بغیر یہ منصوبہ مکمل کرنا ہے تو واللہ! اس حکومت
کے احسانات آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ میری وزیراعظم پاکستان سے
التجا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی تعمیر و ترقی اور مستقبل میں اسے ایشین
ٹائیگر بنانے کے لئے بہت اہم کام کئے ہیں۔ موٹروے سے سلک روڈ تک جو انشا
اللہ اسفند یار ولی اور نریندر مودی کی مخالفت کے باوجود مکمل ہو گی ان کے
پاکستان پر احسانات کی مظہر ہے۔اب اللہ کا نام لے کر کالا باغ ڈیم کا
ادھورا منصوبہ مکمل کر دیجئے۔ پاکستان کے انجینئر اس کی تعمیر کے لئے دل و
جان سے کوشش کریں گے اور یہ منصوبہ انشا اللہ ریکارڈ ٹائم میں پورا ہو گا
انگریزی کی کہاوت کے مطابق بھونکنے والے کتے کاٹنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اب تو بھارت کا مکروہ چہرہ سامنے آچکا ہے اس نے شدت پسندی کی انتہا کر دی
ہے اور شاباش ہے پاکستانی میڈیا پر کہ وہ ایک طرف بھارتی شدت پسندی اور
انارکی ،بھارتی سرکار کے ظلم و جبر اور انتہا پسندی کو ظاہر کرتا ہے اور
دوسری طرف انڈین گورنمنٹ کو اس جارحیت پر پڑنے والے اثرات سے بھی آگاہ کرتا
ہے سمجھ میں نہیں آتاکہ بھارتی سرکار کی مخالفت کررہا ہے یا سپورٹ؟
بہر حال قوم اعلان کی منتظر ہے۔ آپ نے ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود اللہ
کے بھروسے اور عوام کے اعتماد پر ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو سرخرو کیا
تھا۔ آگے بڑھئے ایٹمی دھماکے کی تاریخ دہرایئے اور کالا باغ ڈیم کے ادھورے
خواب کو تعبیر کی شکل دے کر تاریخ میں اپنا نام انمٹ نقوش کے ساتھ ثبت
کروایئے۔
|