دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے آخر کون۰۰۰؟

مشرقِ وسطی ان دنوں جن حالات سے گزر رہا ہے اور ہر روز جس طرح دہشت گرد اپنی قوت میں اضافہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد یا شدت پسند عناصر کو بعض ممالک کی جانب سے زندہ رکھنا چاہتی ہیں تاکہ ان کا اقتدارسلامت رہے اور دیگر ممالک میں بحران پیدا کرکے انکے مفادات حاصلہ کو ٹھیس نہ پہنچے۔ گذشتہ دنوں ایران کے ایک سابق سفارت کار نے دعوی کیا ہے کہ ایرانی حکومت شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولت اسلامی داعش کی فوجی مدد کر رہا ہے، حالانکہ ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ شام اور عراق میں داعش کے خلاف لڑائی میں مصروف عمل ہے۔ایک عرب ٹی وی چینل کے مطابق ایران کے جاپان میں سابق سفیر ابو الفضل اسلامی نے لندن سے شائع ہونے والے فارسی جریدہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق اور شام میں داعش کے وجود سے اپنے مفادات کے حصول کی کوشش کر رہا ہے۔ تہران بغداد اور دمشق میں داعش کے خلاف کارروائی کی آڑ میں داخل ہوا ہے۔ دونوں عرب ملکوں میں داعش کی سرکوبی ایران کا مطمع نظر نہیں بلکہ ایران داعش کو اسلحہ اور فوجی سازو سامان مہیا کر رہا ہے۔ابو الفضل اسلامی سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور حکومت میں ٹوکیو میں ایران کے سفیر تھے، تاہم بعد ازاں وہ ایرانی سرکار سے منحرف ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میں سفیر تھا تو میں نے خود دیکھا ہے کہ ایرانی حکومت مختلف عقائد ونظریات رکھنے والے عسکری گروپوں کی مالی اور فوجی مدد کرتا رہا ہے۔ ایران کا دوسرے ملکوں میں سرگرم عسکریت پسند گروپوں کی مدد کا مقصد ان ملکوں میں بحران پیدا کرکے تہران کے مفادات کو تحفظ دینا ہے۔ایران کی یہ پالیسی اگر واقعی سچ ہے تو عالمِ اسلام کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ایک طرف ایران شام میں بشارالاسدکی مدد کررہا ہے تو دوسری جانب عراق اور یمن میں شیعہ ملیشیاء کو تعاون فراہم کرنے کی خبریں عام ہیں۔ عالمِ اسلام خصوصاً سعودی عرب ، عرب امارات، بحرین وغیرہ کے حکمراں شام میں بشارالاسد، یمن میں حوثی باغیوں کو اور عراق میں شیعہ حکمرانوں کو فوجی امداد فراہم کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ دشمنانِ اسلام ہی سازشوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے مسلمانوں میں مسالک کی بنیاد پر پائی جانے والی شدت پسندی کو ختم کرنے کی سب سے پہلے کوشش کریں۔ جب تک مسلمان مسالک کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہیں گے دشمنانِ اسلام اپنی سازشوں کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل عام تو کریں گے ہی اور ساتھ میں انکی معیشت کو بُری طرح متاثر کریں گے۔ سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک ان دنوں یمن کی موجودہ حکومت کی ہر ممکنہ مدد کررہے ہیں تاکہ یمن میں حوثی باغیوں کے حوصلے پست کرکے انہیں ناکام بنادیا جائے۔ سعودی عرب میں گذشتہ دنوں ایک عبادتگاہ پر خودکش حملہ کیا گیا اس سے قبل سعودی عرب کی مساجد میں حملے ہوچکے ہیں ، کویت کی مسجد میں حملہ ہوچکا ہے۔ سیکیوریٹی بندوبست مضبوط ہونے کے باوجود بم دھماکے اور خودکش حملے عوام کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں اور انہیں اپنی جان و مال کی سلامتی کا ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے۔ ایک طرف نام نہاد جہادی تنظمیں مسالک کی بنیاد پر مساجد پر حملے کررہے ہیں تو دوسری جانب فلسطین میں اسرائیلی فوج کی ظلم و بربریت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نہتے فلسطینی عوام اپنے ہاتھوں میں پتھرلے کر عصری ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج اور پولیس کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس کے باوجود عالمی طاقتیں اسرائیل کے خلاف کوئی اہم کارروائی نہیں کرتے کیونکہ یہ طاقتیں تو اسرائیل کی بقاء و سلامتی کے لئے عالمِ اسلام کے بیچ خلیج پیدا کرکے مسلمانوں کے درمیان دشمنی کے بیج بودیئے ہیں اور مسلمانوں میں دشمنی کیلئے مختلف طریقوں سے سینچ رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ سے ملنے اطلاعات سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج ، پولیس اور سیکیوریٹی عہدیداروں کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے نہتے فلسطنیوں پر فائرنگ کی کھلی اجازت دینے کے باوجود ان کم عمر فلسطینی بچوں اور نوجوانوں سے وہ اتنے ڈرے اور خوف کھائے ہوئے ہیں کہ ایک فائرنگ کے واقعہ میں 23اہکاراپنے حواس کھو بیٹھے۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے جنوبی شہر بئرالسبع میں بس اسٹیشن کے اندر فائرنگ کے نتیجے میں دو صیہونی فوجی ہلاک11زخمی ہوگئے جبکہ موت کے خوف سے 23بے ہوش ہو گئے،حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب،اسرائیلی فوج نے ارٹیریا کے مہاجر کو حملہ آور سمجھ کر قتل کر دیا،غزہ سمیت فلسطین کے مختلف علاقوں میں اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے،صیہونی حکومت نے ہر فلسطینی کو مشکوک قرار دے دیا ہے،اسرائیلی پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں کو کسی بھی شخص کی مکمل تلاشی یعنی جسمانی،سامان اور لباس کی تلاشی کا اختیار دے دیاہے،مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی بستیوں کے دفاع کے لئے نئی دیوار کی تعمیر شروع ہونے کی خبریں ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیلیوں کے خوف و ہراس میں مبتلا ہونے کو دیکھتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لئے ہنگامی دورہ کرنے کا اعلان کیا اور وہ محمود عباس ونیتن یاہوسے ملاقاتیں کرینگے۔اب دیکھنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا دورہ کتنا کامیاب ہوتا ہے ۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کشیدہ حالات کے دوران ہندوستانی صدر جمہوریہ مسٹر پرنب مکرجی فلسطین اور اسرائیل کا کامیاب دورہ کرکے واپس پہنچ گئے ہیں۔ ہندوستان فلسطین کے تعلق سے اپنی ماضی کی پالیسی کو قائم رکھنے کا عہد کیا ہے اور ساتھ میں اسرائیل کے ساتھ بھی ہندوستان کے تعلقات دوستانہ نوعیت کے ہیں۔

انتفاضہ القدس تحریک کے دوران شہید اور زخمی فلسطینی
اسرائیلی ظلم و بربریت پر فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ یکم؍ اکتوبر سے فلسطین میں جاری تحریک "انتفاضہ القدس" میں 44فلسطینی شہید اور 1829 زخمی ہوچکے ہیں۔ شہدا میں30 مغربی کنارے اور14 کا تعلق غزہ کی پٹی سے بتایا جاتا ہے۔فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج کی دہشت گردی کے دوران تین ہفتوں کے دوران شہید ہونے والوں میں 11 شمول ایک تین سالہ بچی بھی شامل ہیں جسے غزہ کی پٹی میں بمباری کرکے اس کے والدین سمیت شہید کردیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک 16سالہ نوجوان لڑکی کو الخلیل شہر میں قابض صہیونی فوجیوں نے فائرنگ کے ذریعہ شہید کرڈالا تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 19 فلسطینیوں کو جعلی مقابلوں میں تعاقب کرکے گولیاں ماری گئیں اور یہ دعوی کیا گیا کہ شہید ہونے والے فلسطینی یہودی فوجیوں اور آباد کاروں پر چاقو سے قاتلانہ حملوں کی کوشش کررہے تھے۔رواں ماہ کے اوائل سے جاری تحریک میں اب تک اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 1829 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد براہ راست فائرنگ، ربڑ کی گولیوں، آنسوگیس کی شیلنگ اور بمباری سے زخمی ہوئے ہیں۔فلسطین کے طبی امدادی ادارے ہلال احمر کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کے رضاکاروں نے اسرائیلی فوج کے حملوں میں زخمی ہونے والے 5406 افراد کو فوری طبی امداد مہیا کی تھی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 541فلسطینی براہ راست فائرنگ سے 1283ربڑ کے خول میں لپٹی دھاتی گولیوں سے، 117لاٹھی چارج سے، تین فلسطینی کاروں کی ٹکر سے، پانچ بمباری سے اور 3457آنسوگیس کی شیلنگ سے متاثر ہوئے۔اسرائیل کے اس ظلم و بربریت کے خلاف چند الفاظ کہہ دے کر عالمی قائدین خاموشی اختیار کرلیتے ہیں جب عراق، شام ، یمن، پاکستان، افغانستان وغیرہ میں اندرون ملک ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کا ماحول پایا جاتا ہے ، بم دھماکے اور خودکش حملے و فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں تو عالمی ممالک مسلمانوں کو دہشت گرد بتاکر اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے فضائی حملے کرتے ہیں۔ شام میں بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے بعض تنظیموں کو امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے مدد کی جاتی ہے تو دوسری جانب روس اور ایران وغیرہ کی جانب سے بشاالاسد کو امداد فراہم کرتے ہوئے شدت پسند تنظموں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے جبکہ دوطرفہ جو ہلاکتیں ہورہی ہیں اس کی صحیح رپورٹ منظر عام پر آتی ہے تو شاید ان میں عام شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔ جہاں جہاں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے شدت پسندوں پر حملوں کا بہانا بنایا جارہا ہے یا جہاں حکمراں کو بچانے کے لئے باغیوں پر نشانہ بنانے کی بات کہی جارہی ہے ان تمام میں عام شہریوں کی ہلاکت ہورہی ہے۔ چاہے وہ سعودی عرب و دیگر اتحادی ممالک کی کارروائی یمن میں ہو یا شام ، عراق ، افغانستان وغیرہ میں کی جانے والی کارروائیاں ان سب میں بے قصور عام لوگوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں ۔ افغانستان کے حالات بھی ان دنوں مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔

طالبان اور افغان فورسز میں جھڑپیں
افغان حکومت کے مطابق طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی اور طالبان کا فریاب کے ضلع غور مچ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے ،ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان نے ضلعی پولیس سربراہ سمیت 30پولیس اہلکاروں کوگرفتار کیا جبکہ 20 افرادکو ہلاک کردیا۔

صدر بشارالاسد کا دور روس ۰۰۰شام میں مزید 70ہزار مکین نقل مکانی پر مجبور
شام میں 2011میں شروع ہوئی خانہ جنگی کے صدر شام بشارالاسد نے اپنا پہلا بیرونی دورہ روس کا گذشتہ منگل کو کیا اور صدر روس ولادی میر پوٹین نے بشارالاسد کا شاندار استقبال کیا ، جس کی امریکہ نے شدید مذمت کی ہے۔ شامی صدر کے دورہ کے بعد صدر روس نے کردو سے مطالبہ کیا ہے وہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو شکست دینے کے لئے شام اور عراق کی حکومتوں کے ساتھ اتحاد قائم کریں۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران صدر بشاالاسد کی فوج اور ان کے مخالفین کے درمیان ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین لاکھ سے زائد بتائی جارہی ہے۔ اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد تو ایک لاکھوں میں بتائی جارہی ہے ۔ گذشتہ تین ہفتے قبل روس نے شامی حکومت کی تائید و مدد کے لئے باغیوں کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ شامی فوج روس کی امداد کے بعد باغیوں کے علاقوں میں مزید کارروائی تیز کردی گذشتہ دنوں شامی حکومت کے فضائی حملوں کے بعد حلب شہر میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں سے70ہزار مکین نقل مکانی کرگئے، حکومتی فوجوں نے شامی حامیوں، ایرانی ملیشیا اور لبنان کی حزب اﷲ موومنٹ کے ساتھ مل کر خان تمن تان کے قریب تین اہم چوٹیوں پر قبضہ کر لیا۔شام میں طبی امداد کی تنظیوں کی یونین کے سربراہ ڈاکٹر زیدون الزوبی کے مطابق جن متعدد دیہات میں وہ گئے وہ خالی تھے۔انھوں نے کہا کہ بغیر طبی امداد اور تحفظ کے ہزاروں لوگ وہاں سے نکل رہے تھے۔حکومت کی جانب سے گذشتہ دو ہفتوں میں روسی امداد ملنے کے بعد یہ کم ازکم چوتھا حملہ تھا۔یہ حملے حلب کے مضافاتی علاقوں کے علاوہ حمس اور ہما صوبے کے شمال میں دیہی علاقوں اور ساحلی صوبے لتاکیہ کے شمال میں ہو رہے ہیں۔باغی جنگجو جن میں دولتِ اسلامیہ کے جہادی شدت پسند شامل نہیں ہیں، نے رواں سال کے آغاز میں ان اہم علاقوں تک رسائی حاصل کی تھی۔ڈاکٹر ذوبی کے ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے بیان کے مطابق انھوں نے حلب کے جنوبی مضافات میں کم ازکم 70 ہزار افراد کو نقل مکانی کرتے ہوئے دیکھا تھااور یہ لوگ بغیر خوراک، طبی امداد اور کسی سائبان کے جا رہے تھے۔شیلنگ بہت خطرناک تھی، آسمان جیٹ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سے ڈھکا ہوا تھا اور لوگ بری طرح خوفزدہ تھے اس طرح شام کے صدر کو اقتدار پر براجمان رکھنے کے لئے روس کی امداد ہزاروں عام شامی شہریوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کردی ہے اور اب یہ لوگ پناہ گزین کیمپوں کی تلاش میں بھٹکتے رہیں گے۔ شام میں خانہ جنگی کے دوران اب تک ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ زائد ایک کروڑ افراد بے گھر ہوچکے ہیں اس کے باوجود سوپر پاور کہلانے والے عالمی ممالک کے قائدین جو دہشت گردی کے خاتمہ کی بات کرنے والے مزید دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔یعنی کوئی بشارالاسد کی مدد کررہا ہے تو کوئی داعش اور بشارالاسد کے خاتمہ کے لئے دیگر شدت پسند تنظمیوں کی مدد کررہے ہیں اسطرح عام شہریوں کی ہلاکت اور ان کے بے گھر ہونے میں انکا اہم رول واضح ہورہا ہے۰۰۰
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.