بابائے قوم کے دشمن، قوم کے شمن، وطن کے دشمن

ملک کے حالات سے ہر دانا و بینا واقف ہے اور اس کے جو اسباب ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں البتہ جن اقدامات کے ذریعے ان حالات سے نمٹا جا سکتا ہے، اب تک انھیں اختیار کرنے سے ہم رکے ہوئے ہیں اور یہی ہمارا سب سے بڑا جرم ہے، جس کی سزا بھگتنی بھی ضروری ہے۔ روزانہ اخبارات کی سرخیاں چیخ چیخ کر ہمیں دعوتِ نظارہ دے رہی ہیں اور اس بات پر اکسا رہی ہیں کہ ہم امن و امان حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں لیکن ہمارے مُردہ ضمیروں پر بے حسی چھائی ہوئی ہے اور ہم میں سے اکثر اب بھی خوابِ غفلت میں ڈوبے ہوئے، پتہ نہیں کس بڑی چنگھاڑ کا انتظار کر رہے ہیں! اﷲ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے اور ہمارے مْردہ دلوں کو پھر سے زندہ فرما دے۔ آمین

ہم اپنے مضامین میں یہ بات ایک سے زائد دفعہ لکھ چکے ہیں کہ کسی بھی شخصیت کے یومِ ولادت یا یومِ وفات پر سالانہ ایک دن اسے یاد کرلینا، ہرگز اس سے محبت کی دلیل ہوسکتی گو کوئی مجبوری، لالچ یا مفاد پرستی بھلے ہی ہی۔ ہم ذاتی طور پر محض ایک آدھ دن کو کسی کی یاد منالینے کو محبت کی علامت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں گو کسی کو اس میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ کسی شخص یا شخصیت سے محبت کی اصل علامت اس کے مشن، اس کے کام، اس کی تعلیم کو یاد رکھنا اور زندہ رکھنا نیز اپنی زندگی میں جگہ دینا ہوتا ہے اور اگر آپ کو اب بھی ہماری رائے سے اختلاف ہے تو براہِ کرم بتلائیں کہ پھر کیا وجہ ہے کہ ہندو مہا سبھا نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کے ملزم نہیں مجرم کی موت کے دن کو ’تاریخِ شہادت‘ کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا؟عجیب بات ہے کہ اس موقع پر کسی کے منہ میں زبان نہیں رہی کہ وہ بتائے کہ یہ ملک سے محبت نہیں دشمنی کی علامت ہے؟ کیا یہ بابائے قوم اور ان کی قربانیوں کے مذاق اڑانے کے مترادف نہیں ہے؟ اگران سوالات کے جوابات اثبات میں ہیں اور یقیناً ہیں تو ایسا کرنے والوں پر گرفت کیوں نہیں کسی گئی اور اگر ایسا ہی کوئی اقدام اگر مسلمانوں کی جانب سے ہوتا تو کیا اسے بھی برداشت کیا جا سکتا تھا؟ ہم ملک کی سالمیت کے لیے قومی یکجہتی کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن یہ تو انتہا پسندی، تعصب پرستی اور کھلی وطن دشمنی ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ 2اکتوبر کو گاندھی جینتی منانے کا ڈھونگ کرنے والے اب 15نومبر کو گاندھی جی کے قاتل کا ’یومِ شہادت‘ منائیں گے، اس وقت برجستہ یہ شعر کہنے کو جی چاہتا ہے:
دورنگی چھوڑ دے، یک رنگ ہو جا
یا موم ہو یا سراسر سنگ ہو جا

ہندو مہاسبھا نے 15نومبر کوبابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو ر ام گوڈسے کا ’یوم شہادت‘ منانے کا اعلان کیا ہے، اس لیے کہ وہ ہندومہا سبھا کا رکن تھا، جسے اس کے گناہ کی سزا میں 15نومبر 1949کو انبالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔انگریزی اخبار اکنامک ٹائمز میں شائع ایک خبر کے مطابق اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے صدر چندر پرکاش کوشک نے ملک بھر میں واقع ہندومہا سبھا کے 120دفاتر کوہدایت دی ہے کہ وہ ضلعی سطح پر گوڈسے کا ’یومِ شہادت‘ منانے کی تیاری کریں۔ہندو مہاسبھا نے ناتھورام گوڈسے کے بھائی گوپال گوڈسے کے ذریعے لکھی گئی کتاب ’گاندھی کا قتل کیوں؟‘کی کاپیاں تقسیم کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ہے، جو کہ پروگرام میں شرکت کرنے والے دائیں بازو کی ہندوانتہا پسند تنظیموں کے کارکنا ن میں تقسیم کی جائیں گی، نیز اس موقع پر نا تھورام گوڈسے کی زندگی پر مبنی ڈرامہ بھی اسٹیج کیا جائے گا اور مہا سبھا کے کارکنان ٹرائل کے دوران کی گئی گوڈسے کی تقریر کے حصے کو بھی پڑھ کر سنائیں گے۔کوشک نے بتایا کہ راجستھان اور مہاراشٹر نے اس پروگرام کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی دکھائی ہے،جب کہ نئی دہلی میں یہ پروگرام برلا مندر کے قریب واقع ہندو مہاسبھا کے دفترمیں منعقدہوگا۔یہی نہیں انھوں نے یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ گوڈسے گاندھی جی سے کہیں زیادہ محبِّ وطن تھا۔اب بتائیے کیا اتنا سب ہونے پر بھی چشم پوشی کی گنجائش رہ جاتی ہے، آپ خود فیصلہ کریں کیا یہ بابائے قوم کا استہزا ہے یا نہیں؟؟

اس موقع پر بھی یہ بھی عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ دیکھیے ایک طرف مسلمانوں کو ملک کا دوسرے نمبر کا شہری کہا جاتا ہے اور انھیں بات بات پر ملک بدر کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے، ان کی وطنِ عزیز سے وفاداری پر شک کیا جاتا ہے اور دوسرے طرف خود ملک کے محسن اور بابائے قوم کے ساتھ ایسا گھناؤنا مذاق کیا جاتا ہے، جس کے بعد کسی کو وطن سے اپنی محبت ثابت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں رہ جاتی۔ ارے ہم تو وہ ہیں جو گاندھی جی کی شخصیت کو مہاتما کے نام سے یاد کرتے ہیں، ان کی کی قربانیوں اور جاں فشانیوں کاادب و احترام کرتے ہیں اور ہمارے بزرگوں کا بھی طریق رہا ہے۔ملاحظہ کیجیے مولانا ابو الکلام آزاد اپنی خود نوشت میں گاندھی جی کے قتل پر کس طرح افسردگی کا اظہار کرتے ہیں:
’’گاندھی جی کے الم ناک قتل کے ساتھ تاریخ کا ایک دور ختم ہو گیا، میں آج تک نہیں بھولا ہوں کہ ہم جدید ہندوستان کے سب سے جلیل القدر فرزند کے تحفظ میں کس بری طرح ناکام ثابت ہوئے، ان پر بم پھینکنے کے واقعے کے بعد یہ توقع کرنا ناقدرتی بات تھی کہ دلّی کی پولیس اور سی آئی ڈی ان کی حفاظت کے لیے خاص تدبیریں کرے گی، کسی معمولی شخص کو بھی اس طرح قتل کرنے کی کوشش کے بعد پولیس اس کی حفاظت کا خاص اہتمام کرتی ہے، یہ اس صورت میں بھی کیا جاتا ہے، جب کسی کو خطوط یا پمفلٹ کے ذریعے اس قسم کی دھمکی دی جاتی ہے۔ گاندھی جی کو خطوط اور پمفلٹ کے ذریعے اور کھلے بندوں اس قسم کی صرف دھمکیاں ہی نہیں دی گئیں بلکہ ان پر بم پھینکا گیا۔ یہ معاملہ دورِ حاضر کی عظیم ترین شخصیت کے تحفظ کا تھا لیکن اس کے باوجود کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔ ایسا نہیں ہے کہ احتیاطی تدابیر میں کوئی خاص دشواری رہی ہو، گاندھی جی کی پرارتھنا کسی کھلے میدان میں نہیں بلکہ برلا ہاؤس کے لان پر چار دیواری کے اندر منعقد ہوا کرتی تھی، جہاں صرف پھاٹک سے داخلہ ممکن تھا، پولیس کے لیے آنے جانے والوں پر نگاہ رکھنا بہت آسان تھا۔ اس الم ناک حادثے کے بعد لوگوں کی عینی شہادت نے یہ بات واضح کر دی کہ قاتل نہایت مشتبہ انداز سے داخل ہوا تھا، اس کا طرزِ عمل اور اندازِ گفتگو اتنا مشکوک تھا کہ خفیہ پولیس کو اس پر نگاہ رکھنی چاہیے تھی، اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو اس کی نیت کا اندازہ کرکے اس سے پستول چھینا جا سکتا تھا لیکن ہوا یہ کہ وہ پستول لے کر بے روک ٹوک اندر داخل ہو گیا اور جوں ہی گاندھی جی وہاں پہنچے، وہ اٹھا اور یہ کہہ کر کہ ’آج آپ کو دیر ہو گئی‘ اس نے گاندھی جی کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، گاندھی جی نے جواب دیا ’ہاں‘ اور قبل اس کے کہ دوسرا لفظ زبان سے نکلے، پستول کی تین گولیوں نے اس بیش بہا زندگی کا خاتمہ کر دیا‘‘۔ (انڈیا ونس فریڈم:323)

اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور اندازہ کیجیے کہ مولانا ابو الکلام آزاد بابائے قوم کی زندگی کو کس قدر اہم گر دانتے تھے اور ان کے نزدیک گاندھی جی کی کیا قدر و منزلت تھی، کس طرح وہ اس حادثے کے ٹالے جاسکنے کے امکانات تلاش کر رہے ہیں اور اس مصیبت کے وقوع پذیر ہو جانے پر کس درجہ رنج و افسردگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ در اصل یہ محض مولانا ابو الکلام آزاد کی تنہا فکر نہ تھی بلکہ قوم کی اکثریت‘ جس میں تمام سیکولر اذہان شامل تھے‘ ان کے دلی جذبات یہی تھے اور آج بھی جب ہم اس روح فرسا واقعے کو یاد کرتے ہیں، تو رنج و الم کا احساس ہوتا ہے لیکن کیا کیجیے گاندھی جی کو ایک طرف تو بابائے قوم کہا جاتا ہے اور دوسری طرف اسی ملک میں ہندو مہا سبھا کی جانب سے اس شخص کی ’یومِ شہادت‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا جا تا ہے، جس نے بابائے قوم کی قیمتی زندگی کا خاتمہ کر دیا اور جس کی پاداش میں اسے اس وقت کی حکومت و عوام کی جانب سے تختۂ دار کی سزا دی گئی تھا، کیا اس عمل سے یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ یوں بابائے قوم کے قاتل کا ’یومِ شہادت‘ منانا اصلاً ’بابائے قوم کے قتل پر رضامند ہونا‘ ہے، اس کی خوشیاں منانا ہے گو منافقت کی راہ سے ہو۔ اس لیے کہ بابائے قوم کے دشمن دراصل قوم کے دشمن اور ملک کے دشمن ہیں!

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 308827 views (M.A., Journalist).. View More