نواز اوباما ملاقات ۔ کیا کھویا،کیا پایا
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیر اعظم جناب نواز شریف نے امریکہ کا خیر سگالی دورہ کیا جہاں پر انہوں نے امریکہ کے صدر بارک اوباما سے ماقات کی اور دیگر اہم شخصیات اور وفود سے بھی ملے، اس موقع پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا۔ اس کالم مین دونوں سربراہان کی ملاقات کے تناظر میں تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کی گئجی ہے کہ اس سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا۔ |
|
( روزنامہ جناح، اسلام آباد،
لاہور، کرچی میں 28اکتوبر2015کو شائع ہوا)
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نوا ز شریف نے مختصر وفد اور چند اہل خانہ کے
ہمراہ امریکی صدر بارک اوبامہ کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کیا۔ میاں صاحب کو
وزیراعظم کی حیثیت سے دوسری بار وائٹ ہاؤس مدعو کیا گیا تھا۔ اس پر میاں
صاحب زیادہ خوش نظر آئے۔ بیرون ممالک کے دورے سربراہان مملکت کے لیے کوئی
خاص بات نہیں ، تمام ممالک کے سربراہان اس قسم کے دورے کرتے ہی رہتے ہیں۔
ہمارے ملک کے سربراہان زیادہ ہی بیرون ممالک کے دوروں کے عادی ہیں، یہ دورے
کبھی سرکاری اور کبھی نجی ہوتے ہیں۔ دورہ کوئی سا بھی ہو اس پر قوم کا
سرمایہ ہی صرف ہوتا ہے۔ ایک روایت ہمارے سربراہان کی یہ بھی رہی ہے کہ یہ
سرکاری دورے پر اپنے ہمراہ پوری بارات لے کر سفرکرنے کے عادی تھے۔صحافیوں
کی پوری ٹیم، میڈیا پرسنز کی ٹیم، کیمرہ مین ، اینکرپرسنز، وزیر ،سفیر،
سیکریٹری ، اہل خانہ ، خاص طور پر خاتون اول اور جو قریب ہوا دورے کا ساتھی
ہوا کرتا تھا۔ اس کے لیے پورا پورا جہاز وقف ہوجایا کرتا۔ بھلا ہو
الیکٹرانک میڈیا کا کہ اس نے واویلا اور شور شرابا کر کے، بڑے بڑے وفد میں
شامل لوگوں کے نام اور تصاویر عام کئے، تجزیہ نگاروں کی جانب سے سخت تنقید
کی گئی جس نے سربراہان کو اپنے سرکاری دورے میں مختصر ٹیم لے جانے کا عادی
بنادیا۔ ورنہ تو ہر دورے میں گیارہ گیارہ کھلاڑیوں کے دو ٹیمیں بشمول اپنی
پسند کے امپائر ، کمنٹریٹر اور کورج کرنے والے صحافی و کیمرہ مینوں کا گروہ
ساتھ ہوا کرتا تھا۔
بارک اوباما سے ملاقات کی جو تصویر یں اور ویڈیوز سامنے آئی ہیں انہیں دیکھ
کر میاں صاحب اور اوباما کی باڈی لینگویج کا بغور مطالعہ بتا رہا ہے کہ وقت
ملاقات میاں صاحب کے چہرہ پر مصنوعی ہنسی تھی۔وہ مصنوعی ہنسی کو کچھ زیادہ
ہی طول دے گئے۔جب کہ اوباما کے چہرے کی دھیمی مسکراہٹ اندر سے یہ کہہ رہی
تھی کہ’ میاں صاحب کیوں مصنوعی ہنسی ہنس رہے ہو، اصل بات کرو‘۔ اوباما سے
ساتھی وفد کے اراکین کے تعارف کا منظر بھی دیدنی تھا۔میاں صاحب کے قریبی
وزراء اور مشیران ایک قطار میں کھڑے ہوئے تھے ، میاں صاحب باری باری ان کا
تعارف اوباما سے کراتے جاتے اور ان کے بارے میں مختصر بتارہے ہوں گے۔ سب سے
پہلے مشیر خارجہ جنہیں امریکہ جانا اس وجہ سے مہنگا پڑا کے کہ میاں صاحب
جاتے جاتے خاموشی سے کیبنٹ ڈویژن کو کہہ گئے کہ ہماری غیر موجودگی میں
سرتاج عزیز سے ایک وزارت (National Security Affairs) واپس لے کر لیفٹینینٹ
جنرل(ر) ناصر جنجوعہ کے حوالے کردینا اور ایسا ہی ہوا۔ سرتاج عزیز گئے تو
تھے مشیر خارجہ و قومی سلامتی کے امور کے مشیر کی حیثیت سے جب واپس وطن آئے
تو صرف مشیر برائے امورخارجہ تھے۔ تو یہ دورہ سرتاج عزیز کے لیے خسارے کا
سودا ثابت ہوا۔ آگے بڑھیں تو جناب وزیر دفاع و پانی و بجلی کے وزیر خواجہ
آصف صاحب تھے اور ان کے بالکل برابر
کندھے سے کندھا ملا ئے ہوئے وزیر داخلہ قبلہ چودھری نثار اس طرح اکڑے کھڑے
تھے کہ نظریں دونوں کی اوباما پر گڑی ہوئی تھیں۔ اندر ہی اندر ایک دوسرے سے
کہہ رہے تھے بچودیکھ لوں گا، میاں صاحب کے کہنے پر میں تیرے برابرا کھڑا
ہوگیا ہوں ورنہ میری تو تجھ سے چار سال سے بات چیت بند ہے۔ساتھیوں میں
سمدھی جی نہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے۔ خیر چھوڑیں اس معاملے کو یہ ہمارا
اندرونی معاملا ہے۔ بقول وزیر اطلاعات قبلہ پرویز رشید صاحب ’ بات چیت
خواجہ آصف اور چودھری نثار کے درمیان بند ہے، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے
درمیان تو نہیں‘۔ یہ بات بھی درست ہے ۔ اقتدار کی ہانڈی میں ساجا ہے ، ذاتی
طور پر ایک دوسرے کے ہرجائی ہیں۔ زرا غور کریں کہ ہم اگر کسی کانفرنس میں
جاتے ہیں باقاعدہ تقریب سے قبل آپس میں بے شمار مسائل پر بات ہوتی ہے، صلاح
و مشورے ہوتے ہیں، حکمت عملی پر بات ہوتی ہے کہ کب کس وقت کیا کرنا ہے، کس
کو کیا کرنا ہے، جب سینئر وزیروں میں بات چیت نہیں تو کیا خاک صلاح و مشورہ
ہوا ہوگا۔ حکمت عملی پر گفتگو ہوئی ہوگی۔ جہاں چودھری نثار نے کچھ کہنا تھا
انہوں نے لکھا ہوا پڑھ دیا جہاں خواجہ آصف نے اپنے خیالات کااظہار کرنا تھا
وہاں انہوں نے کردیا۔ بات ختم۔
میاں صاحب کی ظاہری شخصیت بڑی جاذب نظر ہے،گورے چٹے، دراز قد، کھلا کھلا
چہرہ، وہ سیاست بھی خوب کرتے ہیں، تب ہی تو چوتھی باری کے خواب دیکھنا شروع
کردیے ہیں۔ اگر انصاف کی بات کی جائے تو میاں صاحب بیرون ملک کے سربراہان
سے ملاقات میں کمزور ہیں۔اس کی وجہ غالباً ان کا انگریزی زبان پر عبور حاصل
نہ ہونا ہے۔انہوں نے اپنی اس کمزوری پر توجہ بھی شاید نہیں دی، اس مرتبہ
بھی وہ پوری کوشش کے باوجود اپنے ہاتھ میں موجود پرچی کو چھپا نہیں سکے۔ یہ
پرچی بڑی ظالم چیز ہے ، بندے کا کام بناتی بھی ہے اور بگاڑ بھی دیتی ہے۔
کسی بھی موقعہ پرجب میاں صاحب دیکھ کر تقریر کرتے ہیں یا گفتگو کرتے ہیں وہ
بھی انگیزی زبان میں تو ذوالفقار علی بھٹو یاد آجاتے ہیں، کیا اداتھی، کیا
روب و دبدباتھا اور کس خوبصورتی سے سامنے موجود امریکی یا انگریز کو شیشے
میں اتار ا کرتے تھے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس نے جو بہادری
دکھائی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔بینظیر کا تو مقابلہ ہی نہیں، اس کے اندر ایک
وقار تھا، کانفیڈنس تھا، گفتگو کا سلیقہ تھا، انگریزی پر مکمل عبور، لہجہ ،
انداز اور ادائیگی ، انتہائی خوبصورت، دلنشیں، جاذب نظراور پھر اس کی شخصیت
میں سحر تھا۔ اسی طرح گفتگو کرنے، قائل کرنے، متاثر کرنے میں جنرل پرویز
مشرف کا بھی جواب نہیں ۔ ان کا انداز ، حافظہ،الفاظ کا استعمال سامنے والے
کو تڑپا دیا کرتا تھا۔ اختلافات اپنی جگہ لیکن قائد اعظم ، قائد ملت کے بعد
پاکستان کے یہ تینوں سربراہان انگریزی زبان میں فلبدی تقریر کرنے اور سامنے
والے سے گفت و شنید کرنے میں یَدِ طُولیٰ رکھتے تھے۔ کہنے والوں نے کہا ،
لکھنے والوں نے لکھا میاں صاحب کو یہ بات اچھی لگے یا بری کہ میاں صاحب سے
بہتر ان کی صاحبزادی مریم نواز نے امریکی خاتون اول مشیل اوباما کے ساتھ
گفتگو اور صحافیوں کے سامنے زیادہ کانفیڈینس کا مظاہرہ کیا۔ بہت ممکن ہے کہ
نواز لیگ مستقبل میں نواز شریف اور شہباز شریف کے بیٹوں کے بجائے مریم نواز
کو اپنا لیڈر بنالے۔ اس لیے کہ دونوں میاں صاحبان کی نرینا اولادیں سیاست
میں تو ہیں ان کی سوچ سطحی ہے، اور شخصیت میں لیڈری والا حسن دکھائی نہیں
دے رہا۔ اس لیے امکانات یہی ہیں کہ نواز لیگ کی آئندہ کی صف اول کی لیڈر
مریم نواز ہوسکتی ہیں جن کے مدِ مقابل آصفہ بھٹو زرداری یا فاطمہ بھٹو
میدان سیاست میں ہوں گی ۔ پاکستان کے مستقبل کی سیاست میں ان خواتین کے صف
اول میں آنے کے آثار نمایاں ہیں۔ کون آگے جاتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف اور امریکی صدر بارک اوباما کے درمیان ہونے والی
ملاقات کے نتیجے میں جو مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے اس پر نظر ڈالی جائے
تو چند اہم باتوں کے سوا کوئی خاص بات سامنے نہیں آتی۔ البتہ دورے سے قبل
جن خدشات کا ذکر کیا جارہا تھا کہ امریکہ ان امور پر پاکستان کی گرفت کرے
گا، ڈو مور کرنے کو کہے گا، جیسے بھارت میں دہشت گردی، افغانستان کی جانب
سے دباؤ اور جوہری صلاحیت کو کم سے کم کرنا شامل تھا کسی ایک پر بھی امریکہ
کی جانب سے کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ سب سے اہم خدشہ یہ تھا کہ اوباما
بہادر نواز شریف سے کہیں گے کہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام کو ختم نہیں تو
محدود کردے۔ لیکن اس دورے میں دونوں رہنماؤں کی جانب سے اس قسم کی کوئی بات
سامنے نہیں آئی جو ایک اچھی اور پاکستان کے لیے مثبت بات ہے۔ مشترکہ
اعلامیہ دس نکات پر مشتمل ہے ان میں (۱)دیر پا شراکت داریAn Enduring
Partnership))یعنی دونوں ممالک مختلف شعبوں میں دیر پا شراکت داری قائم
کریں گے۔ (۲)اقتصادی نمو(Economic Growth)امریکہ پاکستان کے ساتھ اقتصادی
میدان میں تعاون جاری رکھے گا۔ تاکہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہوسکے،(۳)
تجارت اور سرمایہ کاری(Trade, and Investment)امریکہ پاکستان کے ساتھ تجارت
اور سرمایہ کاری میں تعاون کرے گا، سرمایہ کاری اور تجارت سمیت تمام شعبوں
میں تعاون کے فروغ کے لیے دوطرفہ اقدامات پر اتفاق کیا گیا، (۴)تعلیم اور
سوسائٹی میں تعاون (Education and Civil Society Cooperation)،تعلیم کے
شعبہ میں امریکہ اپنا تعاون نہ صرف جاری رکھے گا بلکہ اسے وسعت دی جائے گی،
(۵) موسمیاتی تبدیلی و توانائی میں تعان (Climate Change and Energy)امریکہ
موسمیاتی تبدیلی اور توانائی کے شعبہ میں پاکستان سے تعاون بڑھانے کی ضرورت
ہے،(۶)عالمی صحت کا فروغ (Promoting Global Health)۔ (۷)علاقائی سا لمیت
اور انسدادِ دہشت گردی (Regional Security and Counterterrorism) امریکہ نے
دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہا ، (۸) دفائی تعاون (Defense
Cooperation)، (۹) سائیبر تحفظ (Cybersecurity)، (۱۰)جوہری سلامتی اور
جوہری عدم پھیلاؤ(Strategic Stability, Nuclear Security, and
Nonproliferation)شامل ہیں۔ دونوں سربرہان کی ملاقات میں باہمی تعاون کو
بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی
مسلسل خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا، اس کے علاوہ افغانستان اور
طالبان کے مذاکرات پر زور دیا گیاہے۔ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے
علاوہ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ امریکہ پاکستان کو آٹھ نئے ایف سولہ
طیارے فروخت کرے گا۔ امید ہے اس دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑے
گا اور اعتماد کی فضا ء قائم ہوگی۔
عمومی طور پر تو نواز شریف کا امریکہ کا یہ پھیراکامیاب ہی رہا ۔ البتہ
امریکہ نے واضح طور پر بھارت کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کے لیے
بھارت کوایسے اقدامات سے روکنے کی کوئی بات نہیں کی لیکن دونوں ممالک یعنی
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کے لیے کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا
ہے، جو سابقہ وعدوں کی طرح صرف عندیہ ہی رہے گا۔ بھارت کے افغانستان میں
بیٹھ کر کراچی اور بلوچستان میں پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے،
کشمیری مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھانے جیسے اہم امور پر امریکہ نے کوئی
واضح حکمت عملی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ امریکہ آسانی سے بھارت کو پاکستان میں
عدم استحکام کی کاروئیوں کو روکنے کو کہہ سکتا ہے۔ وہ بھارت کو جو پاکستان
سے مذاکرات سے دور بھاگ رہا ہے مذاکرات پر آمادہ کر سکتا ہے۔ البتہ اس نے
آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں ہونے والی کامیابیوں کو خوش آئند قرار دیا
ہے۔وزیر اعظم نے امریکی وزیر دفاع سے بھی ملاقات کی، وزیر دفاع نے دہشت
گردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ
دہشت گرد ی کے خلاف پاک فوج کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔وزیر
دفاع کارٹر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک ختم کرنے میں پاکستان کے اقدامات کی
تعریف کی اور پاک فوج ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کی قربانیوں
کو سراہا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اوباما انتظامیہ نے 2016ء کے لیے
پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کروئی کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ جاری رکھنے کے
لیے کانگریس کو درخواست بھیج دی ہے۔ لیکن اس کے بعد اس کے مستقبل پر کچھ
بھی کہنے سے انکار بھی کردیا ہے۔ امریکہ کی پاکستان کے لیے نوااز شریف کے
دورہ پر نرم اورلچک دار پالیسی ایک سوالیا نشان ہے۔ امریکہ کچھ عرصہ قبل ہی
بھارت کے ساتھ پینگیں پڑھاتا نظر آرہا تھا، یہ وہ امریکہ ہے جس نے ہمیشہ
پاکستان کو وقت پر دھوکہ ہی دیا ہے۔ اس سے اچھائی کی امید کرنا حماقت سے کم
نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اوباما کی واپسی نذدیک ہونے کے باعث اس نے اپنی
پالیسی وقتی طور پر نرم اور لچک دار کردی ہو، امریکہ سے ہمیں کسی خو ش فہمی
میں نہیں رہنا چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ دونوں سربراہوں کے اس دورے سے
خطے میں امن و سلامتی اور استحکام کی راہ ہموار ہوگی۔ |
|