آسمان سے قلابے ملاتے دعوے،ایک سیاستدان کے
دوسرے پر تابڑ توڑ لفظی حملے،غیر شائستہ جملے،ولولہ انگیز نہیں بلکہ اشتعال
انگیز تقاریر،خود کی جیت پر مہر ثبت کر نا، ووٹ کاسٹ کرنے والی جگہوں کے
باہر ہاتھا پائی،گھتم گھتائی،پولیس کی بھاری نفری کی طلبی، مشتعل افراد کا
دوسروں سے چھیڑ خانی کرتا شوروغوغا اور کہیں جیت پر جشن تو دوسری طرف
دھاندلی کا رولا۔۔یہ سب رنگ ہماری سیاسی دنیا کے ہیں ۔ انتخابی مہم کا آغاز
کرتے ہی ہمارے منجھے خاندانی و غیر خاندانی سیاستدان جلسوں کی کال دیتے چلے
جاتے ہیں ۔ایک جمع غفیر امڈ آتا ہے۔یہاں سے سیاستدانوں کی چال چلنے کا کام
شروع ہو جاتا ہے۔ خود کی تعریفوں میں طویل سے طویل تر پل باندھ دینا،خود کے
دامن کو پاک و صاف قرار دینا،مخالف کے لئے انگارے برساتے الفاظ منتخب کرنا
اور ان کے کردار کو کیچڑ سے لت پت کر دینا،ایسی مثالیں پہلے بھی دیکھنے میں
آتی رہی ہیں مگراس NA-122کے الیکشن نے تو حد ہی کر دی۔دنیا کے تمام کام اور
جھمیلے ایک طرف رکھ کر سب کی توجہ اس الیکشن نے اپنی جانب لگا لی۔ن لیگ اور
پی ٹی آئی کی تقاریر تو سب ہی نے سنی اور ٹی وی پر ملاحظہ بھی کیں۔اس سلسلے
میں عوامی توجہ کھینچتے پی ٹی آئی کے سیاستدانوں نے غیر مہذ ب الفاظ
استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔دن بدن ان کے لہجوں میں تلخی کی شدت
بڑھتی جا رہی ہے۔ان کے ایک کھری بات کرنے والے رہنما کا کہنا تھا کہ'' ۱۱
اکتوبر کو ایاز صادق کا کلیجہ پھٹے گا اور نیاز بٹے گا''،انھوں نے یہ بھی
کہاکہ''مرو،مر جاؤ، جلاؤ، گھیراؤ مگر پاکستان کو ان سے اورخاندانی سیاست سے
نجات دلاؤ''۔ پڑھے لکھے اور اچھی شخصیت کے مالک عمران خان جب تقریر کرنے
آتے ہیں تو اپنے الفاظ کے چناؤ اور ان کے استعمال کی پرواہ کئے بغیر بولتے
ہی چلے جاتے ہیں ۔ روز بروز ان کا لب و لہجہ سان پر چڑھتا جا رہا ہے۔انھیں
کوئی بھی پسند نہیں۔جیسے طبیعت میں اطمینان ذرہ بھر نہیں بس ناراض لہجہ ہی
لئے سنائی دیتے ہیں ۔ایک بات اب سب پاکستانی جان چکے ہیں کہ یہاں دودھ کا
دھلا کوئی نہیں ۔ہر سیاستدان نے دولت کے انبار لگا رکھے ہیں۔یہ سب ذاتی
مفاد میں دوڑتے ہیں ۔دوسرے کو نیچا دکھانے کے شوقین لوگ ہیں ۔ چنانچہ اے
سیاستدانو!اس جوش میں آپے سے باہر ہونے کی ضرورت نہیں،کچھ تو ہوش کے ناخن
لو!
اس سیاسی لڑائی کے مزے میں منچلوں نے کیا خوب ویک اینڈ گزارا۔یہ سلسلہ جمعے
کی شام کو ہی شروع ہو گیا۔ دونوں پارٹیوں کے جلسوں میں عوامی شرکت کا تانتا
بندھ گیا۔نعرے بازی،چیخنا چلانا،تالیوں کا شوراور جھنڈے لہرا کر اپنے
قائدین کو داد دی گئی۔ اور ہاں'' تھیم سانگز ''کا نیا کلچر بھی متعارف ہو
چکا ہے۔جتنی ڈھول کی تھاپ پر رقص کرواتی دھنیں ترتیب دی گئی ہوں گی اتنا ہی
سپورٹرز انجوائے کریں گے۔ ایک میلہ سا لگ جاتا ہے۔ جیسے کوئی کلچرل فیسٹیول
منعقد کیا گیا ہو۔ ووٹنگ کے دن تو پھر جوشیلے نوجوان کیا ہی حالات پیدا کر
دیتے ہیں۔ گھر بیٹھے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں اور اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے
ہیں ۔ یہ صورتحال خواتین اور بزرگ ووٹرز کے لئے رکاوٹ کا باعث بنتی ہے ۔
انتخابی مہم ختم ہو جانے کے بعد بھی ماحول سر گرم نظر آتا ہے صرف سیاستدان
تقریر نہیں کر سکتے باقی تو سب کا سب چلتا رہتا ہے۔اس سب پر بھی پابندی
ہونی چاہئے۔پولنگ اسٹیشنز کے باہر نوجوان ووٹرز اور سپوٹرز کو ٹولیاں بنا
بنا کر ہلا گلا اور نعرے بازی کرنے پر پابندی عائد کی جائے ۔جو پولیس کے
منع کرنے کے باوجود نہ مانے اس کے خلاف کارروائی سے گریز نہ کیا جائے۔پولیس
لاٹھی چلائے یا نہ چلائے بدنامی تو اسی کے سر ڈال دی جاتی ہے۔ایسی تمام
بلاوجہ کی باتوں کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے۔
یہ الیکشن اہم تھا یا حد سے زیادہ اہم،اس بارے میں میڈیا نے ناظرین کو آگاہ
کیا۔ہر چینل نے اس معاملے کو تمام معاملات پر ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے سارا
دن ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی شدید دوڑ لگائی۔ہر چینل نے ہرپولنگ اسٹیشن
سے سب سے پہلے رزلٹ حاصل کر کے اپنی روایت کو برقرار رکھنے کا شور مچایا۔اف
خدایا! یہ سن سن کر تو بے زاریت سی طاری ہونے لگتی تھی۔مگر چینلز کا فخریہ
لہجہ کنٹرول میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ایک چینل توکنتی دیر تک
پولنگ اسٹیشن کے باہر ہونے والی دن کے وقت کی لڑائی کو لے کر بیٹھا رہا
،بارہا اس لڑائی کی فوٹیج دکھائی گئی مگر نیوز اینکرز اس پر کچھ الفاظ
مسلسل دہرا دہرا کر ہلکان نہ ہوئے۔ باقی کئی چینلز ماسکنگ سکرین میں ان
حالات کو دکھا رہے تھے ۔ ایک اور پرائیویٹ نیوز چینل پر8بجے کے پروگرام میں
نتائج سے متعلق ایک رپورٹر نے انتہائی رش میں رپورٹنگ شروع کر دی۔ اس دوران
ایک پولیس آفیسر سے الیکشن سے متعلق سوال کیا گیاتو انھیں نے مائیک کو ذرا
پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا کہ کسی سینئر افسر سے پوچھیں۔ اتنی سی بات پر وہ
رپورٹر شدید بھڑک اٹھا اور دونوں میں تلخ کلامی شروع ہو گئی۔ وہ پولیس افسر
تو رش میں سے نکلتا ہوا اپنی سمت نکل گیا مگر رپورٹر اسے سناتا ہی رہا اور
انگریزی جملے بھی کس ڈالے۔یہ سب لائیو کوریج کی وجہ سے ناظرین ٹی وی پر
ملاحظہ کرتے رہے۔رپورٹر یہ سمجھنے سے قاصر رہاکہ سارا دن کی ڈیوٹی کے بعد
بھی اپنے کاموں میں مصروف پولیس کو بھی تھکاوٹ ہوتی ہے،ان کے ذمہ کئی کام
ہوتے ہیں کہ جن کی سختی سے پوچھ گچھ ہونی ہوتی ہے۔مگر رپورٹر لوگ تو اگلے
کے سر پر چڑھ جاتے ہیں کہ ہم تو میڈیا والے ہیں ،ہمیں جواب دو پہلے۔ایک جگہ
لڑائی میں پولیس مشتعل افراد کو روکنے میں بغیر کسی لاٹھی چارج کے مصروف ِ
عمل تھی۔مگر ان افراد نے کرسیاں برسانا شروع کر دیں ۔فوج کو دیکھ کر پھر
کنٹرول میں آئے۔
عمران خان صاحب سے پاکستانی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کی پارٹی نیا پاکستان
تب بنائے گی جب اس میں نئی سوچ،نئی قیادت،نئے ارادے اور نئے چہرے شامل ہوں
گے۔ آپ خود بھی تو دوسری پارٹیوں کے وہی گھسے پٹے رہنماؤں کو تحریک انصاف
میں شامل کر کے خاندانی کلچر کو پروان چڑھا رہے ہیں تو دوسروں سے کیا
ناراضی ؟آپ کے آتے ہی نوجوانوں نے آپ سے بہت توقعات وابستہ کر لی تھیں،اب
بھی آپ کے دیوانے ہیں مگرکئی سپورٹرزکو آپ اپنے اس بگڑتے لب و لہجے سے اپنے
سے دور کرتے جا رہے ہیں ۔تو خدارا نصیحت پکڑیئے۔ہمارے ملک میں قابل لوگوں
کی کوئی کمی نہیں ۔آپ نوجوانوں کو اپنی پارٹی میں جگہ دیں ۔ وہ بہترین
انداز میں نئے پاکستان کی ترجمانی کرنے میں آپ کا ساتھ دے سکیں گے۔ مگر اس
وقت جب آپ اس ''میں نہ مانوں''کی سیاست اورہر وقت کی اس بحث سے باہر نکل کر
عملی کاموں میں حصہ لے کر عوام کی فلاح و بہبود میں اقدامات کر کے نعرہ
لگائیں گے۔غور کیجئے ،ہر بار کی یہ شکایت نہیں۔۔! |