ہندؤ دہشت گردی پر دُنیا خاموش کیوں؟

 مہان جمہوری ملک بھارت میں معصوم دلت بچوں کی المناک موت
مسلمانانِ عالم گذشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ اسلام کو کسی مسلمان کی غلطی کے پسِ منظر میں تشانہ توہین نہ بنایا جائے مگر دنیا کے روسیاہ ظالموں نے ایک نہیں سنی اور وہ آج بھی دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے اس سے مراد ’’اسلام اور مسلمان ‘‘ہی لیتے ہیں ۔پھر المیہ یہ کہ ’’سیکولر اور لبرل مسلمانوں‘‘نے ان کے ہاں میں ہاں ملاتے ہو ئے اسلام پسندوں کو ختم کرنے کی بھر پور وکالت کی یہاں تک کہ خودکئی مسلمان ممالک نے گذشتہ ایک سو سال میں لاکھوں اسلام پسندوں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔تحقیق سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام پسند وں کا ’’جرم ‘‘صرف یہ ہے کہ وہ مسلم ممالک میں اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے تھے ۔حیرت اور المیہ یہ کہ جب یہی مطالبہ یہودی،عیسائی،بودھ اور ہندؤکرتا ہے تو دنیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔یہ شرمناک دوہرا میعار صرف اہلِ اسلام کے ساتھ ہی خاص کیوں ؟۔

20اکتوبر2015ء کی بھارت کی ریاست ہریانہ کے ضلع فرید آباد میں ایک دلت خاندان کے گھر میں آگ لگادی گئی ہے جس میں دو معصوم بچے جل کر جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے مجروح والدین دہلی کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ مقامی ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر امت اگروال نے بی بی سی کو بتایا کہ حملہ آوروں پر الزام ہے کہ انھوں نے خاندان کے گھر پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی جس سے دو بچوں کی موت ہو گئی۔ہلاک ہونے ولے ایک بچے کی عمر نو ماہ جبکہ دوسرا ڈھائی سال کا تھا۔بتایا جارہا ہے کہ بچوں کی ماں کے جسم کا 25 فیصد حصہ جھلس گیا ہے۔اس سے پہلے 30اگست2015ء کو بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور دانشور ایم ایم کلبرگی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق بنیاد پرستی کے مخالف سمجھے جانے والے 77 سالہ ڈاکٹر ایم ایم کلبرگی کو اتوار کی صبح ایک نامعلوم شخص نے کلیانگر میں واقع ان کے گھر پر گولی ماردی۔مقامی پولیس کمشنر رویندر پرساد نے میڈیا کوتفصیلات بتاتے ہو ئے کہا کہ ’مقامی وقت صبح 8 بج کر 40 منٹ پر دو نامعلوم افراد ان کے گھر پہنچے جن میں سے ایک نے ان کے سر میں گولی مار دی۔۔پولیس کے مطابق ان کے بے باکانہ بیانات کے بعد انتہاپسند ہندو تنظیموں نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ڈاکٹر کلبرگی کے قتل کی خبر سے کرناٹک کے مصنف اور ماہرینِ تعلیم نہ صرف حیران ہیں بلکہ فکر مند بھی ہیں کہ ہندو بنیاد پرستی کے خلاف لڑنے والے دانشوروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ڈاکٹر کلبرگی کی موت سے دو سال قبل پونے میں ایک معروف فلسفی ڈاکٹر نریندر دبھولکر کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر کلبرگی ایک معروف دانشور اورپروفیسر تھے اور وہ اپنی رائے کا بے باکی سے اظہار کرنے کے لیے مشہور تھے۔وہ کئی بار ہندو تنظیموں، جیسے بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کی تنقید کے شکار ہوئے تھے۔کرناٹک کے ایک ادیب نے اس مسئلے پر پریشانی کا اظہار کرتے ہو ئے کہاکہ کرناٹک میں پہلے ایسے واقعات نہیں ہوتے تھے۔ تقریباً تین ماہ قبل معروف مصنف اور صحافی لگاناستیام کو قتل کر کے ان کی لاش کو گٹر میں پھینک دیا گیا تھامعلوم نہیں کرناٹک کس طرف جا رہا ہے۔ ڈاکٹر کلبرگی کی ہلاکت پر ایک اور مصنف ڈاکٹر باراگر رام چندر پپا کا کہنا تھا کہ ’کرناٹک میں کبھی کسی مصنف کو اس کے خیالات کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا۔ ہم سب سکتے کے عالم میں ہیں۔ اگر متنازعہ خیالات ظاہر کرنے کا مطلب قتل کا خطرہ مول لینا ہے، تو یہ جمہوریت کا قتل ہے۔ یقیناً یہ کام فرقہ وارانہ عناصر کا ہے ۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جا رہی نفرت میں مسلمان اکیلے نہیں ہیں بلکہ اس میں دوسری اقلیتیں بھی ہندو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے نشانے پر ہیں حال میں بی،بی،سی نے اس حوالے سے ایک رپورٹ بھی شائع کی جس میں عیسائی اقلیتوں نے بھی خوف زدہ ہونے کا اعتراف کیا تھا۔بی۔بی۔سی کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک سال سے جب سے بھارت میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت بی جے پی نے حکمرانی سنبھالی ہے ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ملک میں مذہبی تشدد بھی بڑھ رہا ہے۔کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ بی جے پی نے اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت کے رجحان کو ہوا دی ہے اور اس کی وجہ سے ہندو حلقے بھی کھل کر بات کرنے سے ڈرے ہوئے ہیں۔کرسمس کے تہوار سے کچھ ہی دن پہلے دہلی کی’’ سباس چین چرچ‘‘ کو آگ لگا دی گئی۔ یہ گذشتہ سال ہندوستان میں حملے کا نشانہ بننے والے پانچ گرجا گھروں میں سے ایک ہے۔چرچ کے پادری انتھونی فرانسس کا کہنا ہے کہ انھیں پولیس کے اس بیان پر یقین نہیں کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ہے اس لیے کہ انھوں نے خود ہی شواہد اکھٹا کرنا شروع کر دیے ہیں۔انتھونی فرانسس کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے پولیس افسران کو آگ بجھانے کے لیے استعمال کیے گئے پانی پر تیل کی تہہ دکھائی تب ہی اس کیس کے تحقیقات آتشزنی کے واقعے کے طور پر شروع کی گئیں۔لیکن ابھی تک نہ تو اس چرچ اور نہ ہی باقی چار گرجا گھروں پر حملوں کے سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔بی ۔بی۔سی رپورٹ کے مطابق بھارت کی ایک بڑی اقلیت مسلمان بھی اس سلسلے میں دباؤ کا شکار ہیں۔پچھلے سال انتخابات کے بعد آنے والے مہینوں میں دارالحکومت دہلی سے صرف 100 کلومیٹر دور واقع قصبے مظفر نگر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جن میں 60 سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔محمد جمشید جن کے برادرِ نسبتی دین محمد اس سال مئی میں مظفر نگر کے قریبی گاؤں کیرانہ میں فسادات کے نتیجے میں فالج کا شکار ہوگئے تھے، کاکہنا تھا کہ ’اب ہندو مسلمانوں کو گاؤں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ان کے مستقل حملوں نے وہاں خوف کی فضا پیدا کردی ہے 18 سالہ دین محمد کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ یہ حادثہ تب پیش آیا جب وہ مسلمانوں پر تشدد کے خلاف پولیس کارروائی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرے کے قریب سے گزر رہے تھے ’’میں مظاہرہ دیکھنے کے لیے وہیں رک گیا کہ اس دوران پولیس کی گاڑی سے ایک گولی آ کر مجھے لگی‘‘ مجھے لگا میرا جسم سن ہوگیا ہے۔ میں چند قدم آگے چلا اور گرگیا۔ اس کے بعد مجھے خون کی الٹی آنے لگی۔‘دین محمد کو ڈر ہے کہ وہ اب کبھی دوبارہ نہیں چل سکیں گے۔اسی طرح کے ایک اور حملے میں 26 سالہ مسلمان مزدور فیضان دہلی سے بذریعہ ٹرین قریبی گاؤں شاملی جا رہے تھے کہ تقریباً دس کے قریب ہندوؤں نے انھیں بری طرح مارا پیٹا، ان کی داڑھی نوچ ڈالی اور پھر ان کے پاس موجود رقم لے کر فرار ہو گئے۔فیضان کا کہنا ہے کہ ’پولیس نے ابھی تک سوائے شکایت درج کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ ایسا واقعہ دوبارہ رونما نہ ہوجائے۔‘؂بھارتی میڈیا بھی اس طرح کے واقعات پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتا اور اس طرح کے واقعات مزید پریشان کن لگتے ہیں جب ان کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت بی جے پی کے رہنماؤں کے اقلیتوں کے متعلق متعصبانہ بیانات سامنے آتے ہیں۔

بکر پرائز حاصل کرنے والی بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے کا کہنا ہے کہ ’تعصب یہ نہیں کہ آپ مسلمانوں کو جان سے ماردیں یا ان کے پیچھے پڑجائیں، یا آپ کسی کا گھر جلا ڈالیں بلکہ تعصب یہ ہے کہ انہیں نوکریاں نہیں دی جائیں یا ان کو رہنے کی جگہ نہ دی جائے جس کی وجہ سے وہ خوف کا شکار ہیں۔‘اروندھتی رائے کا کہنا تھا کہ ان کی طرح کے شہری مڈل کلاس بھی اب ہندو قوم پرستی کے نئے نظریے سے خوفزدہ ہے۔’یہ صرف مسلمانوں اور ہندوؤں کا سوال نہیں ہے بلکہ شاید ان لوگوں کا ہے جن سے وہ سب سے زیادہ نفرت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کو ایک مختلف نظریے سے دیکھتے ہیں، اور اس لیے انہیں خاموش کرایا جا رہا ہے۔‘فادر انتھونی کا کہنا ہے کہ چرچ کا جلنا ’بھارت کے آئین کے جلنے کے مترادف ہے‘ جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے ہم یہ کس قسم کا ملک بنانے جا رہے ہیں‘‘۔اس ساری صورتحال کو بھاجپا کے لیڈران اور ممبرانِ پارلیمنٹ جان بوجھ کر ہوا دے رہے ہیں بے جی پی کے رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج کا کہنا ہے کہ ’ہندوؤں کی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ہر ہندو عورت کو چار بچے پیدا کرنے چاہییں۔‘ایک اور رکن پارلیمنٹ گریراج سنگھ نے کہا ہے کہ ’جو لوگ مودی کے خلاف ہیں انہیں پاکستان جانا ہوگا۔‘ اس بیان کے بعد ہی انھیں وزیر کا عہدہ دے دیا گیا۔نریندر مودی نے فروری میں گرجا گھروں پر حملے کے بعد دباؤ میں آ کر کہا تھا کہ ’ہماری حکومت اکثریت یا اقلیت سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مذہبی گروہ کو دوسرے فرقے کے خلاف کھلے عام یا درپردہ نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی۔‘لیکن حال ہی میں جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں 2015 ء کے پہلے چھ ماہ میں فرقہ وارانہ تصادم میں پچھلے سال کے مقابلے میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سال ہونے والے 330 فرقہ وارانہ حملوں میں 51 جان لیوا تھے جبکہ پچھلے سال انھی مہینوں میں اس قسم کے کل 252 حملوں میں 33 جان لیوا تھے۔نریندر مودی کے موجودہ دور حکومت میں مظفر نگر کے فسادات 2002 میں گجرات میں ہونے والے خونی فسادات سے کم تباہ کن تھے جب نریندر موددی وہاں کے وزیر اعلی تھے۔گجرات میں تقریباً 1000 سے زیادہ افراد جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی لقمہ اجل بنے۔ گجرات فسادات ٹرین میں آگ لگنے کی وجہ سے 60 ہندو زائرین کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے۔

ہندوستان اب ایک ہندو راشٹر بننے کی جانب بڑھ رہا ہے ایسے میں اقلیتوں کا خوفزدہ رہنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں بلکہ فطری امر ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو ہندوستان گذشتہ 68برس سے اقلیتوں کو برباد کرنے پر کمر بستہ تھا، اب وہی ہندوستان حکومتی چھتر چھائے میں ہندو راشٹر بننے جا رہا ہے جس میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے برعکس خود ہندوستانی سیکولر ہندؤ (جو ہندوستان کے ہندؤں کی اکثریت ہے)بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ان سے راست مقابلے کے برعکس مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں پر حملے کئے جاتے ہیں ۔اس کے نتیجے میں پورا بھارت خوفناک لہر کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔دنیا اس ظلم پر صرف اس لئے خاموش ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی بربادی کی انتہا ہے اس کی ابتدا 1947ء میں ہوئی ہے اور تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔مسلمانوں کے سوا باقی جتنے بھی عقائد کو ماننے والے لوگ ہیں دنیا ان کے لئے آنکھیں بچھاتی ہے ۔مسلمانوں کے ساتھ یہ شرمناک میعار اس پیشن گوئی کے عین مطابق ہے جس میں نبی پاکﷺ نے صاف صاف فرما دیا تھا کہ تمام قومیں مل کر بھوکوں کی طرح مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گی اس لئے کہ ان کو موت سے اُنس کے برعکس نفرت اور دنیا سے نفرت کے برعکس محبت نے گھیر لیا ہو گا ۔
 
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93656 views writer
journalist
political analyst
.. View More