حکمرانوں کا آبائی وطن کون سا ہے؟

سرسلیم مزہ آگیا، سندھ حکومت نے عید الاضحی پر اسکولوں کی پانچ چھٹیوں کا اعلان کیا ہے۔ میں آرام سے اپنے گاؤں میں عید منا کر واپس آجاؤں گا۔ہمارے نئے اور نوجوان ساتھی خالد سیف اﷲ صاحب نے انتہائی خوشی اور مسرت کے ساتھ مجھے بتایا۔ ہمارے یہی ساتھی محرم کی سرکاری اور اتوار کی تین چھٹیوں کے موقع پر بھی اپنے گاؤں کا چکر لگا کر آئے تھے۔

دیکھا جائے تو صرف کراچی نہیں بلکہ لاہور، اسلام آباد ، پشاور اور ایسے بڑے شہر جہاں ملک کے دیگر حصوں سے روزگار کے سلسلے میں آنے والے افراد مقیم ہوتے ہیں، وہاں سرکاری تعطیلات کے موقع پر تمام ہی غیر مقامی ( غیر مقامی سے مراد غیرملکی نہیں بلکہ وہ لوگ جو اس شہر کے رہائشی نہیں ہوتے بلکہ روزگار کے سلسلے میں وہاں مقیم ہوتے ہیں)افراد کے کم و بیش یہی جذبات ہوتے ہیں۔کسی بھی مذہبی اور قومی تہوار کے موقع پر ایسے لوگوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ وپنے وطن، اپنے لوگوں کے درمیان ان تہواروں کی خوشیاں منائیں۔اسی لیے ہر عید بقر عید کے موقع پر اسلام آباد ویران ہوجاتا ہے، جبکہ کراچی سے اندرون ملک جانے والی ٹرینوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔یہ صرف ان افراد کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ دراصل فطری طور پر ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ خوشی اور غم کے موقع پر اپنے لوگوں کے درمیان موجود رہے، ان کے دکھ درد ، شادی غمی میں شریک ہواور ان سے اپنے دکھ درد کہہ سکے۔

تمہید لمبی ہوگئی ، میں اصل بات کی طرف آتا ہوں۔ اوپر دی گئی مثالوں کو سامنے رکھیں اور پھر ذرا اس بات پر غور کریں کہ ہمارا حکمران طبقہ قومی اور مذہبی تہواروں کے موقع پر کہاں موجود ہوتا ہے؟ جواب ہے کہ وہ وان لوگو ں کے درمیان ہوتے ہیں جن کو وہ اپنا سمجھتے ہیں۔ جی ہاں کوئی لندن میں ہوتا ہے، کوئی دبئی میں اور کوئی سعودیہ میں۔عید الاضحی کے موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری صاحب اور ان کی پارٹی کے کئی اہم رہنما دبئی میں موجود تھے۔ عید الفطر کے موقع پر وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب سعودیہ میں تھے، ان کے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب لندن میں تھے۔عید الاضحی کے موقع پر وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے مقررہ تاریخ سے کئی روز قبل ہی ملک سے روانہ ہوجاتے ہیں اور عید الاضحی لندن میں مناتے ہیں۔ یوم ِ عاشورہ کے موقع بھی وزیر اعظم صاحب امریکہ کے دورے پر روانہ ہوتے ہیں اور اس دوران میں لندن میں دو دن رکنا ضروری سمجھتے ہیں۔دورہ امریکہ مکمل کرنے کے بعد بھی وطن واپسی سے پہلے وہ لندن میں حاضری دینے کے لیے وہاں رک جاتے ہیں ۔ایک اور خو د ساختہ جلا وطن رہنما 23 برسوں سے لندن میں مقیم ہیں۔

بات سمجھ میں آرہی ہے۔ جی ہاں ہمارا حکمران طبقہ صرف حکومت کرنے کے لیے پاکستان آتا ہے، ورنہ یہ لوگ پاکستان اور یہاں کے عوام سے کوئی رابطہ رکھنا نہیں چاہتے۔ کئی مثالیں یہاں پیش کی جاسکتی ہیں، جنرل (ر) پرویز مشرف گیارہ سالہ دور اقتدار کے بعد امریکہ اور یورپ کے سیر سپاٹے پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ وہ تو غلط فہمی میں مارے گئے ورنہ شائد وہ بھی کبھی واپس نہ آتے۔ نگران وزیر اعلیٰ معین قریشی ، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، سابق صدر آصف علی زرداری وغیرہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ ایک اور صاحب بھی ہیں جو یورپ کے سر دموسم سے گھبرا کر پاکستان چلے آتے ہیں اور یہاں انقلاب کے نعرے لگاتے ہیں۔ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عوام کے ان رہنماؤں کو عوام کا کتنا خیال ہے۔

گزشتہ روز پاکستان میں بد ترین زلزلہ آیا، وزیر اعظم میاں نواز شریف اس وقت لندن میں موجود تھے، دوپہرتقریباً دو بجے زلزلہ آیا، اور وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب رات تقریباً دس بجے تک لند ن ہی میں موجود تھے جبکہ وہاں ان کی کسی برطانوی حکام یا کابینہ سے کوئی سرکاری میٹنگ بھی نہیں تھی ، صرف اپنی پارٹی کے لوگوں اور لندن کے دوستوں سے میل ملاقات کے لیے وہاں رہے ، حالانکہ انہیں تو فوری طور پر وہاں سے روانہ ہوجانا چاہیے تھا۔لگے ہاتھوں خادم اعلیٰ کا حال بھی سن لیجیے۔خادم اعلیٰ جو پنجاب کی گڈ گورننس اور عوام کی دی گئی سہولتوں کا راگ الاپتے رہتے ہیں لیکن اپنے طبی معائنے کے لیے وہ اپنے ہی صوبے کے کسی بھی ہسپتال کو اس قابل نہیں سمجھتے اور اس کے لیے وہ لندن جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ جس صوبے کا سربراہ جب اپنے ہی ہسپتالوں پر اعتماد نہ رکھتا ہو تو پھر وہ کس منہ سے عوام کو بہترین سہولیات دینے کا دعویٰ کرتے ہیں؟ میٹرو بس، میٹرو ٹرین کی تعریف میں رطب اللسان ہونے والے خود سفر کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں۔

بات وہی ہے کہ چاہے یہ لوگ عوام کی محبت کا کتنا ہی زبانی دعویٰ کرتے ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ چاہے پی پی پی ہو، ن لیگ ہو یا کوئی اور جماعت ، یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کو صرف حکمرانی کے لیے منتخب کرتے ہیں اور دور اقتدار پورا ہوتے ہیں اپنے اپنے آبائی وطن روانہ ہوجاتے ہیں اور انسان کا آبائی وطن وہی ہوتا ہے جہاں وہ اپنے مذہبی اور قومی تہوار گزارنا پسند کرتا ہو۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1519948 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More