اکتوبر 2015وزیراعظم نواز شریف کی امریکہ یاترہ کے نتائج و عواقب
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
اِن حالات مین جب کہ پاک فوج اپنے
دشمنوں کے ساتھ جنگ ِ عضب میں برسر پیکار ہے۔ بھارتی کی دشمنی کا درجہ
حرارت اتنا اوپر گیا ہوا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ بھارت کے وزیراعظم مودی
پھٹنے والے ہیں۔ جس طرح کے حالات شیو سینا نے وہاں پیدا کیے ہوئے ہیں اور
مسلمانوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جارہا ہے اور پاکستان کو آنکھیں دکھائی
جارہی ہے ۔ان حالات میں جبکہ بلوچستان کی شورش میں بھارت براہ راست ملوث ہے
اور پاکستان میں طالبان کے نام پر ہونے والے دہشت گردی کے سرئے بھی بھارتی
خفیہ ایجنسی راہ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔اور تو اور دورہ امریکہ سے چند روز
قبل راہ کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی سامنے
آگیا ۔ اِن حالات میں جناب وزیراعظم کا دورہ امریکہ کافی اہمیت اختیار کر
چکا تھا۔ پاک فوج اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی کی بدولت جس طرح دہشت گردی
پر قابو پانے کے لیے عظیم کامیابیاں پاکستان کو ملی ہیں اور چین کی جانب سے
پاکستان کو معاشی ترقی کے لیے بے مثال تعاون نے بھارتی سورماؤں کی نیندیں
اُڑادی ہیں ۔امریکہ بہادر بھی اس وقت بھارت سے نالاں نہ سہی مطمئن دیکھائی
نہیں دے رہا اور پھر نواز شریف کی جانب سے حالیہ امریکی دورہ بھی بہت اہم
قرار دیا جارہاہے۔بھارتی وزیر اعظم کا جنگی جنون اور پاکستان سے نفرت عروج
پر ہے۔بنگلہ دیشی وزیرِاعظم کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کو توڑنے کااعتراف،
پاکستان کی سرحدوں پر فائرنگ اور اشتعال انگیزی، افغانستان کی سر زمین کو
بھارت کی جانب سے پاکستان کے لیے استعمال کیا جانا یہ سب کچھ جو بھی ہو رہا
ہے۔ سب بھارت کی پاکستان دشمنی کا عروج ہے۔حالیہ دنوں میں بھارتی عوام کو
خوش کرنے کے لیے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے اپنی کتاب کی
رونمائی کے لیے بھارت کو اپنے لیے بہتر مقام سمجھا اور ساتھ ہی مسٹر قصوری
نے اپنے بھارتی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ہی بیان بھی داغ دیا ۔کہ
قائدِاعظم محمد علی جناح پاکستان نہیں بنانا چاہتے تھے۔اس طرح بھارت کی
جانب سے جس طرح کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔وہ بھارتی چالاکی کے ساتھ ساتھ
بھارت کے زِچ ہونے کی داستان سنا رہا ہے۔بھارت سے جب کچھ بن نہیں پڑرہا اور
اُسے ہر محاذ پر حفت اُٹھانا پڑ رہی ہے۔تو پاکستان کو دلدل میں پھنسانے کے
لیے خاکم بدہن نوازشریف کے قتل کا منصوبہ بنا لیا ہے۔اِن حالات میں
پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے چوکنا رہنا
ہو گا موجودہ حالات میں وزیرِاعظم نواز شریف کو قتل کرنے کے بھاری سیکرٹ
ایجنسی راہ کے منصوبے کا مقصد پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف د ھکیلنا
ہے۔پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی بھارتی پالیسی انتہائی بچگانہ
ہے۔پاکستان بھارت کے لیے ایک بفر سٹیٹ ہے۔پاکستان میں ہونے والی بد امنی سے
بھارت میں بھی بد امنی ہو گی پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے بے
چین بھارت خود کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہے۔بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں اس
انداز میں رواں ہیں کہ اگر پاکستان اور چین نے ان عناصر کے سر پر ہاتھ رکھ
دیا تو بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیر نہیں لگے گی۔پاکستانی وزیر اعظم
کے ہمراہ دورہ واشنگٹن میں موجود وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا
ہے کہ وزیر اعظم کا دورہ اور خصوصا صدر اوباما سے ملاقات اس اعتبار سے اہم
تھی کہ تمام امور پر کھل کر پاکستان کے موقف کی وضاحت کی گئی ۔خواجہ آصف کا
کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ،خطے کی صورتحال، پاک افغان تعلقات،
پاکستان اور بھارت کے موجودہ تعلقات سمیت تجارت،سائنس و ٹیکنالوجی اور دفاع
سمیت تقریبا ہر شعبے میں تعاون پر مثبت بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا، ’’میرے
خیال سے دوطرفہ تعلقات کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو، جس پر بات نہ ہوئی ہو۔
انہوں نے ہمیں سنا اور ہم نے ان کی سنی، جو بھی معاملات یا مسائل تھے ان پر
تبادلہ ء خیال ہوا اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ کشمیر سمیت تمام اہم معاملات
مشترکہ اعلامیے میں موجود تھے اور میرے خیال سے یہ ایک بڑی کامیابی
ہے۔‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ صدر اوباما اور وزیر اعظم کے درمیان ملاقات طے
شدہ وقت سے زائد یعنی دو گھنٹے جاری رہی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں
رہنماوں نے اہم امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔بھارت کی طرز پر امریکا کے
ساتھ جوہری معاہدے کی پاکستانی کوششوں کے نتائج سامنے نہ آنے سے متعلق ایک
سوال کے جواب میں وزیر دفاع نے کہا، ’’ملکوں کے درمیان تعلقات میں بعض
معاملات پر بہت سا کام ہو چکا ہو تا ہے اور کچھ کرنا باقی ہوتا ہے اور وہ
کسی بھی وقت مکمل ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی امریکا پاکستان کے موقف کو
سمجھتا ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ ہماری حالیہ ملاقاتوں کے بعد مزید اس
بارے میں سوچیں گے۔‘‘دفاعی امور کے تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت
مسعود کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکا اور صدر اوباما کے
ساتھ ملاقات کو سفارتی لحاظ سے ایک اچھا دورہ کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا
کہ ہر طرح کے معاملات میں بہتری کی گنجائش تو موجود رہتی ہے لیکن ان کے
خیال میں موجودہ حالات میں وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے بہتر طریقے سے
پاکستان کا موقف پیش کیا۔طلعت مسعود کا کہنا تھا، ’’پاکستان اور امریکا کے
تعلقات میں اونچ نیچ اور اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے لیکن ایسے دوروں سے دونوں
جانب کی قیادت کو آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کا
موقع ملتا ہے، جس سے بہت سی بدگمانیاں اور غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں اور
تعلقات کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سربراہی دوروں
اور دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے کیے جانیوالے اقدامات کے فوری نتائج کم ہی
ہوتے ہیں۔ اصل میں ان کے نتائج آنے میں وقت لگتا ہے۔دوسری جانب حزب اختلاف
کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے امریکی صدر باراک اوباما اور وزیر اعظم
نواز شریف کے درمیان ملاقات کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کو مایوس کن قرار
دیا ہے۔ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق نے ایک بیان میں کہا کہ
وزیر اعظم اس اہم ترین دورے میں پاکستان کے لیے خاطر خواہ ثمرات سمیٹنے میں
ناکام رہے۔امریکا اور ایران کے تعلقات میں بہتری کے باوجود نوازشریف پاک
ایران گیس پائپ لائن سے متعلق امریکی رویہ بدلنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے
کہا کہ حکومت بتائے کہ ٹیکسٹائل مصنوعات کے کوٹے میں اضافے کے دیرینہ
پاکستانی مطالبے کا امریکی صدر نے کیا جواب دیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ بھی
بتایا جائے کہ سندھ میں کوئلے کے ذخائر کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے
پر امریکی تحفظات کس حد تک دور کیے جاسکے؟انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم تمام
تر شواہد کے باوجود بظاہر بھارتی اشتعال انگیزیوں کے بارے میں امریکی
انتظامیہ کو آگاہ کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم امریکا کے
ساتھ بھارت کی طرز کا سول جوہری معاہدہ کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام
ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ملاقات میں کشمیر کا ذکر بھی رسمی انداز میں کیا گیا
اور تنازع کے حل میں امریکا کے فعال کردار پر بھی کوئی یقین دہانی حاصل
نہیں کی گئی۔تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا پاکستان کی اندرونی
صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے دورے سے زیادہ آئندہ
ماہ پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے دورے کا منتظر ہے۔ جہاں
تک پاکستان کے موجودہ حالات کا تقاضہ ہے اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے ساتھ
جو سرد مہری جاری ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا امریکہ کا دورہ کافی بہتر
رہا ہے اور راقم کے خیال میں جناب وزیر اعظم نواز شریف کافی بہتر انداز میں
دورہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اِس لیول پر ہونے والے دورہ جات میں ملکوں
کے نقطہ نظر کو سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے اور کسی موقف پر اگر کوئی معاملہ
بند گلی کا شکار ہوجاتا ہے تو اُس حوالے سے بھی برف پگھلتی ہے۔ |
|