مثالی ریاست ایک ایسی اصطلاح ہے،
جس پر صرف بحث کی جاسکتی ہے اوراس کا خواب دیکھاجاسکتاہے۔اس کاقیام، اسکا
وجوداوربچشم سراس کامشاہدہ صرف مشکل نہیں بالکل اس دورمیں ایک ناممکن
امرہے۔مثالی ریاست کیاہے، سب سے پہلے اس اصطلاح کی مختصر تاریخ اوراسکی
تشریح وتوضیع ضروری ہے۔ مثالی ریاست کا خواب سب سے پہلے تقریباً چوبیس
سوسال قبل یعنی چارسوقبل مسیح میں یونان کے مشہورفلسفی افلاطون نے
دیکھاتھااوراس نے اس کے لئے یوٹوپیا Utopiaکی اصطلاح استعمال کی تھی۔جس کے
معنی ہیں ناممکن ، ناقابل عمل یعنی جوچیز وجودمیں نہ آسکے ، کیونکہ اسکے
بقول مثالی ریاست کے بارے میں صرف سوچاجاسکتاہے ، اسکوحقیقی صورت میں نہیں
دیکھاجاسکتا۔اس کے بعدیہ ایک ادبی اصطلاح بنی ، کیونکہ ادیبوں کاکام
اکثرایسی چیزوں کاخواب دیکھناہوتاہے، جس کاحصول ناممکن ہو۔لہذا ایک مثالی
ریاست کے لئے ادیبوں کی خواہش کانام’’ یوٹوپیا‘‘رکھاگیا۔1516ء میں ایک
مشہور انگریز قانون دان، فلسفی اورمصنف مسٹرتھامس مورنے’’یوٹوپیا‘‘ کے نام
سے لاطینی زبان میں ایک ناؤل لکھا، جس کالب لباب یہ ہے کہ انگلستان میں
مثالی معاشرے یامثالی ریاست کاقیام صرف ایک خواب ہے۔مشرقی ادب میں علامہ
اقبال نے مثالی ریاست کاخواب دیکھاتھا اوراس کااظہارانہوں نے اپنی کتاب
جاویدنامہ میں کیاہے۔جب علامہ اقبال آسمان کے سفرپرنکلتاہے اوراسکی
راہنمائی مولاناروم کرتاہے، تووہ ایک ایسی دنیاکانظارہ کرتاہے ، جہاں تمام
لوگ چین اورسکون سے رہتے ہیں،امیرغریب کاکوئی فرق نہیں،نہ آقا اورغلام کی
قید ہے۔وہاں کے باسی انتہائی خوبصورت ہیں۔بلند وبالا عمارتیں ہیں، کسی قسم
کی آلودگی نہیں ہے، ہرسوں امن وامان ہے اورکسی قسم کے جرم کانام ونشان نہیں
ہے۔لوگ دولت کی بجائے علم سے پیارکرتے ہیں۔علامہ اقبال کویہ مثالی ریاست
مریخ میں نظرآئی اوراس کانام انہوں نے مرغدین بتایاہے۔یہ تومثالی ریاست کے
بارے میں ادیبوں کی بحث تھی ۔ حقیقی دنیا میں مثالی ریاست کبھی قائم ہوئی
ہے یانہیں۔اسکے لئے ہمیں اسلامی تاریخ کی اوراق گردانی کرنی ہوگی۔مثالی
ریاست کے نمونے ہراس دور میں ملتے ہیں ، جس میں سوفی صد اسلامی نظام حکومت
رائج ہواہے۔جہاں ریاست کے تمام امورقرآن وسنت کی روشنی میں طے ہوتے ہیں
۔بادشاہ وقت عام انسانوں جیسی زندگی گزارتاہے اوراسکی زندگی کامقصدصرف
اورصرف رعایاکے حقوق کاتحفظ اورانکی خدمت کرناہوتی ہے۔جو سرکاری خزانے کو
ذاتی ملکیت تصورنہیں کرتااورجو صرف اور صرف اﷲ کی رضاحاصل کرنے کے لئے
رعایاکی خدمت بجالاتاہے۔ ایسی ریاست جہاں حضرت حذیفہؓ کابحیثیت
گورنرتقررہوااورہاتھ میں گورنری کاپروانہ لئے جب مدائن میں داخل
ہواتومعززین شہر کے بے حد اصرارپرآپ ؓ نے صرف روٹی کاایک ٹکڑا اوراپنی
سواری کے لئے تھوڑاساچارامانگااورمسند اقتدارچھوڑنے کے بعدوہی کچھ ساتھ لئے
آئے، جو ساتھ لے گئے تھے۔جہاں خلافت کی معرکہ خیز ذمہ داریوں میں سرسے پاؤں
تک لدے پھندے ہوئے حضرت ابوبکرصدیقؓ جیسی ہستی کچھ غریب لڑکیوں کے کہنے پر
ان کی بکریاں دوہنے سے منہ نہیں موڑتے۔جہاں حضرت عمر ؓ جیسے خلیفہ ، جن کے
پاؤں میں قیصروکسریٰ کے تاج وتخت لوٹ رہے تھے ، دھول سے اٹے ہوئے سنگریزوں
پر لیٹے ہوئے دیکھے گئے ۔ آپ ؓ جب کھاناکھانے بیٹھتے ،تواچانک یہ سوچ ہاتھ
کانوالہ ہاتھ اورمنہ کانوالہ منہ میں روک دیتاکہ کوئی اﷲ کابندہ اس وقت
بھوکا نہ رہ گیاہو۔ایسی ہی ایک مثال حضرت عثمان غنی ؓ کی بھی ہے ، جنہوں نے
خلافت کی فوجی طاقت کو اپنے لئے اس وقت بھی استعمال نہیں کیا، جب فسادیوں
کی ایک ٹولی آپ ؓ کے جسم اطہر پر خنجر آزمائی کیلئے آپ ؓ کے مکان پرچڑھتی
آرہی تھی۔جہاں حضرت سلمان فارسی ؓ گورنرہوتے ہوئے بھی وہی پرانی تنگ
اورچھوٹی عباپہنتی تھی ، جس سے انکی پنڈلیاں کھلی رہتیں اوروہی گدھاانکی
محبوب سواری تھی ، جس پر نہ گورنربننے سے پہلے اورنہ بعدمیں کبھی زین لگی
تھی۔ایسی ریاست جوتین براعظموں پر مشتمل ہے اورجہاں ایک حکمران کی
صاحبزادیاں پیازکھانے کی وجہ سے اپنے منہ پرہاتھ رکھے ہوئے اپنے والد سے مل
رہی ہیں تاکہ انکے والد کو پیازکہ بدبونہ لگے، کیونکہ انکے کھانے کے لئے
گھرمیں پیازکے علاوہ کچھ تھاہی نہیں اوروہی عمر بن عبدالعزیزؒ ، جو سرکاری
خزانے سے بے شمارضرورت مندوں میں درہم ودینارتوبانٹتے ہیں لیکن اپنی بچیوں
کے گھرخالی ہاتھ جاتاہے۔یہی مثالی ریاست ہائے ہواکرتی تھیں۔ایک ہمارے
دورمیں ہمارے حکمران بلندبانگ دعوے کررہے ہیں ، پاکستان کو مثالی ریاست
بنانے کی۔اب اندازہ نہیں ، وہ ہمارے ملک کو مثالی ریاست کس طرح بنارہے
ہیں۔جہاں سارانظام اسلام کے منافی چل رہاہے۔جہاں کسی ادارے میں قرآن وسنت
کی پیروی نہیں کی جاتی ۔جہاں کرپشن ، دھاندلی ، بدعنوانی، چوری ، سود، زنا،
موسیقی ، ناچ گانا، قتل وغارت، اختیارات کاناجائز استعمال ،بے حیائی اوربے
پردگی کوکوئی گناہ تصورہی نہیں کرتااوراکثرگناہ حکومتی سرپرستی میں کئے
جاتے ہیں۔جہاں حاکم وقت اقتدار کے نشے میں مست دنیا ومافیہاسے بے خبرہمہ تن
بیرونی دنیا کے سیروسیاحت میں مصروف رہتاہے اورقوم وملک کے حالات سے آگہی
اپنے شاہی آرام میں خلل کاذریعہ سمجھتے ہیں۔ جس ریاست کا بچہ بچہ قرض کے
بوجھ تلے دباہواہو۔جہاں تعلیم اورصحت کے دروازے غریب عوام کے لئے بند
ہواورجہاں اقتدارکی کشتی کے سواراورانکے بچے شاہی خرچوں پر بیرون ملک تعلیم
اورعلاج کی سہولیات سے مستفید ہورہے ہوں ، وہاں مثالی ریاست کا خوا ب
دیکھنا بھی مشق عبث ہے۔ |