اگر شمالی پنجاب کا ذکر ہو اور
اس کے فطری اجلے پن اور حسن کا تذکرہ نہ ہو تو یہ خود حسن فطرت سے لبریز اس
علاقے اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو گی، یہ ذکر ہے سمالی پنجاب کی
آخری یونین کونسل دیول کا، جس کے بہترین دماغ پاک فوج اور سول حکومت کی
پالیسی سازی میں اپنا اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اور آج بھی اپنی قومی
خدمات کے سلسلے میں سر فہرست ہیں۔ جنرل انیس عباسی، خاقان عباسی، شاہد
خاقان عباسی اور پیر صاحب دیول شریف پیر عبدالمجید احمد علوی دیول کا وہ
مستند حوالہ ہیں جن کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا بلکہ ان ہی کی وجہ سے
اوسیا کی یہ ڈھوک دیول آج شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔
دیول۔۔۔۔۔۔۔ ماضی بعید کے کسی دور میں بھی کسی بھی حوالے سے کوئی تاریخی،
تمدنی اور علمی نشانی نہیں ملتی اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دیول نمب رومال کی
اس عہد میں ایک رکھ یا شاملات تھی اور اس کے سارے لوگ دروازہ ملکوٹ، نمب
اور پلک یونین کونسل سے تعلق رکھتے ہیں،انیسویں صدی کے آغاز تک دیول اور
نمب کا مرکزی سیاسی مقام اوسیا تھا جہاں گزشتہ آٹھ سو سال سے گکھڑ دور
اقتدار میں بلدیاتی نظام کا نیوکلس بھی تھا اور یہاں پر شمالی مری کے لوگوں
کے مقدر کے فیصلے ہوتے تھے،اوسیاہ کا وہ دیوان (موجودہ دور کی یونین کونسل
کا دفتر) جو گکھڑ اقتدار کے بعد مقامی کھتریوں کی لوٹ مار کا گودام،
انیسویں صدی کے وسط کے بعد غیر ملکی سیاحوں کا ریسٹ ہائوس اور اٹھارہ سو
ستر کے عشرہ سے کوسار کی قدیم ترین علمی درسگاہ کا روپ اختیار کئے ہوئے ہے،
اسی سکول نے ماضی کے اوسیاہ کی جگہ اس کی ڈھوک دیول کو اس کی علمی دماغوں
کی بدولت اتنا سربلند کیا کہ اب ہر حوالے سے اوسیا نہیں بلکہ دیول کی ہی
بلے بلے ہے۔
دیول کہتے کس کو ہیں اور اس کا پس منظر کیا ہے؟،،،،،،، اس کے جواب کیلئے
انڈولوجی (قدیم ہند کو سمجھنے کا علم) سے رجوع کرنا پڑے گا، قدیم ہند کے
متنازعہ قانون ساز منو جی کی منو سمرتی کہتی ہے کہ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں
ھندو شیو دیوتا کی مورتی کے آگے اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں، سنسکرت ڈکشنری میں
اسے سمال ٹمپل کے معانی دئے گئے ہیں، معروف ماہر علم البشریات (انتھروپولوجی)
عزیز احمد اپنی کتاب پاکستان سٹوپاز، اکونومیا اینڈ میں دیول کو بدھ مذہب
کے سٹوپا کا نام دیتے ہیں، یہ افغان لفظ بھی ہے جو فن مصوری اور علامت سازی
کیلئے استعمال ہوتا ہے،قدیم ہندوستان اور جدید بھارت میں دیوتائوں اور
لوگوں کے نام بھی ہوتے ہیں جن میں ایک دیوتا دیول کرشن بھی ہے، قدیم گجرات
کے حکمران رائے کارن کی اس بیٹی کا نام بھی دیول رانی تھا جس کے افیئر
ہندوستانی حکمران علائوالدین خلجی کے بیٹے خضر خان کے ساتھ تھے، وارث شاہ
کی طرح امیر خسرو نے بھی اپنی مثنوی میں ان شاہی ہیر رانجھا کا ذکر مزے لے
لیکر کیا ہے۔ای جے بریل کے فرسٹ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کی جلد چہارم
میں اس معاشقے کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ اس شاہی جوڑے نے چودہ اپریل
تیرہ سو بیس کی شب شادی بھی کر لی تھی،جرنل آف پاکستان ہسٹوریکل سوسائیٹی
، دوہزار پانچ کے مطابق دیول ایک ہندو دیوی کا نام بھی ہے جبکہ بینی گپتا
اپنی کتاب میجیکل بیلیف انڈ سپر سٹیشنز میں ضیاء الدین برنی کے حوالے سے
لکھتی ہیں کہ اسی دیول رانی کی بیکا نیر میں دیول دیوی کے طور پر پوجا بھی
کی جاتی ہے، رائیٹنگ ان انڈیا، دی ٹونٹی انتھ سنچری کی مصنفہ سوزی جے
تھاروکی جے للیتا کے مطابق دیول پدما کے نام سے ایک بنگلہ دیشی نژاد بھارتی
ناول نگار زلیخا سانیال نے انیس سو چونسٹھ میں ایک ناول لکھا تھا جس کے
معنی دیوار کے پھول کے ہیں، معروف اسلامی مورخ طبری کے مطابق دیول کو عربی
میں دیبل کہتے ہیں اور اس کے لئے طبری نے موجودہ بن قاسم پورٹ کراچی کے
قریب دیبل کا حوالہ دیا ہے اور اسی کو ہسٹاریکل سوسائیٹی اسلام آباد کی
شائع شدہ کتاب پروسیڈنگ آف دی پاکستان ہسٹری کونسل میں بھی معتبر مانا گیا
ہے۔ جدید بھارت میں ممبئی کی فلمی صنعت کے راجکمار اور راجکماریاں ابھے
دیول، دھرم سنگھ دیول (دھرمندر) بوبی دیول اور سنی دیول سے کون آشنا نہیں،
بالخصوص نئی نسل کے وہ بانکے جو زندہ ہی بھارتی فلمیں دیکھ کر رہتے ہیں۔
دیول شمالی پنجاب کا پنجاب ہزارہ کے بائونڈری پر واقع ایک ماڈل ویلیج ہی
نہیں اس نام سے پاکستان۔ افغانستان اور بھارت میں کثرت سے گائوں بھی ہیں،
دیگر دیول نامی گائوں میں شاردہ آزاد کشمیر، ضلع پزاور میں دیول گڑھی،
دریائے سندھ پر وہ مقام جہاں بیٹی سے شادی کرنے والے پرتھوی راج کو اس کے
بیٹے بھیما نے گیارہ سو پچاسی میں قتل کیا تھا دیول کہلاتا ہے، افغانستان
میں روس کے خلاف جس زیرو پوائنٹ سے جہاد کا آغاز کیا گیا تھا وہ بھی سرخ
دیول کے نام سے جانا جاتا ہے،بھارت میں دیول دیپ کے نام سے ایک مندر بھی ہے
جہاں راجہ چندر ورما نے آخری سانس لی تھی ، ماہرین انڈولوجی کے مطابق دیول
دیپ کے معنی اس خدا کے ہیں جو اپنا خاندان بھی رکھتا ہے تاہم یہ معنی مشکوک
ہیں کیونکہ دیپ کا معنی سنسکرت میں روشنی کا دیا یا مشعل ہوتا ہے، انگریز
سیاح آرتھر نیل نے اپنی کتاب دی لیجیسی آف کشمیر، لداخ اینڈ سکردو میں
پہلی بار اٹھارہ سو ستر میں دنیا کو مری کے اس سرحدی قصبے سے روشناس کرایا
تھا تا ہم اٹھارہ سو چتھتیس میں جب ہری سنگھ نلوہ کی فوج نے جد دیول پر
حملہ کیا اور یہاں لوٹ مار کی تو یہاں کے لوگوں نے پیر عبدالمجید احمد علوی
کے دادا مولانا پیر محمد ہاشم کی قیادت میں ان کا مقابلہ کیا اور جام شہادت
نوش کیا، سی موقع پر پھگواڑی کے دارا نامی مقام پر ایک سکھ جنرل کو جہنم
واصل کیا گیا تھا، دیول کے شہداء کی قربانی کا یہ اثر ہوا کہ اٹھارہ سو
ستاون میں مری شہر پر قبضہ اور اس کے بارے میں پورا نیٹ ورک قائم کرنے کا
منصوبہ اسی دیول کی ڈھوک سیداں میں بنایا گیا، اس کے منصوبہ ساز دو سید
برادران سید امیر علی اور سید اکرم علی تھے اور اسے سردار شیر باز خان نے
بروئے کار لانا تھا مگر ایک مقامی خاتون نے اپنے بھائی کی جان بچانے کیلئے
یہ منصوبہ دشمن تک پہنچا دیا جس کی ناکامی کے بعد تحصیل مری کا کوئی گائوں
ایسا نہیں تھا جہاں پر مقامی آبادی کا قتل عام نہ کیا گیا ہو اور ایک ماہ
تک وہاں کے سر فروشوں کے بذر آتش ہونے والے گھروں سے دھواں نہ اٹھتا رہا
ہو، آخری جنگ ازادی کے ہیرو باز خان اور ان کے بیٹوں کو توپ زد کیا گیا
اور سید برادران کی زندہ کھال اتاری گئی ، ان کی ڈھوک سیداں کو دیول سے کاٹ
کر یو سی بیروٹ کا حصہ بنا دیا گیا۔
بعض کولوں کا خیال ہے کے کہ دیول اور ہزارہ کی صوبائی بائونڈری انگریزوں نے
بنائی تھی، مگر یہ درست نہیں، یہ بائونڈری سولہویں صدی میں دھونڈ عباسیوں
کے دو خاندانوں میں اراضی کے ایک جھگڑے کو نمٹانے کی نشانی ہے جسے سکھوں
اور انگریزوں دونوں نے برقرار رکھا،انگریزوں نے صرف اتنا رد و بدل کیا کہ
انہوں نے دیول کی ڈھوک سیداں کو پنجاب سے نکال کر ہزارہ کی یو سی بیروٹ کے
ساتھ ملا دیا۔(بحوالہ تاریخ گکھڑاں از راجہ حیدر زمان کیانی)
سترھویں صدی میں گکھڑوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ تعلیم کے بغیروہ دیول میں
اقتدار بر قرار نہیں رکھ سکتے کیونکہ مقامی قبائل ان کے "کنکوت نامی ایک
ٹیکس کیخلاف بغاوت پر آمادہ تھے ، راولپنڈی گزیٹئر کے مطابق گکھڑوں نے وسط
دیول میں ایک سکول بنانے کا قصد کیا اور اس کے انتظامات کی ذمہ داری پیر
صاحب دیول شریف کے ایک بزرگ عبداللہ علوی کے کندھوں پر ڈالی، اور اس کے عوض
ان کی تمام ذمہ داریاں بھی گکھڑ حکومت نے اپنے سر لیں، انیسویں صدی کے
آغاز میں گکھڑ اقتدار کے خاتمہ اور سکھوں کی وجہ سے سیاسی ابتری کے دوران
اس سکول نے علی گڑھ یونیورسٹی جیسی تحریک کی بنیاد ڈالی اور سکھوں سے نفرت
کی یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ نہ صرف اٹھارہ سو چھتیس میں ہری سنگھ نلوہ نے
یہاں چڑھائی کی بلکہ مولانا ہاشم علوی سمیت یہاں کے تین ہزار حریت پسندوں
کو شہید کیا اور ان کی لاشوں کو پنجاب ہزارہ سرحد پر موجودہ کرکٹ سٹیڈیم کے
مقام پر قلعہ بنیادوں میں ڈال کر دیواریں اٹھائی گئیں مگر اس کے باوجود
اہلیان دیول اور پیر صاحب کے اجداد نے یہ سکول بند نہ ہونے دیا، آج کل یہ
تاریخی سکول پھر قلعہ کے مقام پر علم کی کرنیں بکھیر رہا ہے، اوسیا کا
زمینداری پرائمری سکول بعد میں مڈل، پھر ہائی اور اب ہائر سیکنڈری سکول کی
شکل اختیار کر چکا ہے، اس کے پہلا طالبعلم راجہ دلیر خان تھے جبکہ اس علمی
درسگاہ سے سابق وزیر اعلی اور موجودہ گورنر کے پی کے سردار مہتاب احمد خان،
بریگیڈئر تاج عباسی، ائر کموڈور خاقان عباسی، سابق صدر ضیا الحق کے معالج
حکیم قاضی ظفیرالحق علوی چشتی، ڈاکٹر حکیم محمود احمد خان جدون قادری، جنرل
انیس عباسی، معروف اعوان دانشور محبت حسین اعوان سمیت بے شمار نامور لوگ
فارغ التحصیل ہیں،بریگیڈئر تاج عباسی نے ماہنامہ ڈیفنس جرنل کو انٹرویو
دیتے ہوئے کہا ہے کہ اوسیا ہائی سکول میں ہمارے اساتذہ میں ہندو اور سکھ
بھی شامل تھے جو بغیر کسی مذہبی تعصب کے تعلیم ڈیلیور کر رہے تھے،بریگیڈئر
صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے مسلمان اساتذہ میں محمد خاقان اور (باسیاں کے) قاضی
ظفیرالحق علوی چشتی سب سے قابل اور نمایاں معلمین تھے، سکھ انسائیکلو پیڈیا
کے مطابق ہائی سکول اوسیا کے ریاضی کے ایک ہندو استاد بھگت سنگھ کوانیس سو
سنتالیس میں اس وقت اس کے ہونہار طلبا نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاہم
اسے اس کی بھنک پڑ گئی اور وہ دریائے جہلم کی طرف بھاگ نکلا مگر تیراکی نہ
جاننے کی وجہ سے ڈوب گیا، دیول کا پہلا گرلز سکول انیس سو چوبیس میں قائم
ہوا جبکہ اس کی طالبہ سعیدہ خاتون اپ گریڈیشن کے بعد ہائر سیکنڈری کا درجہ
ملنے کے بعد اس کی پہلی پرنسپل تعینات ہوئیں، اس وقت دیول یونین کونسل میں
دو بنک، ایک وٹرنری ہسپتال، تین لنک روڈز اور ایک یوٹیلیٹی سٹور موجود ہے
اور اب اسے ماڈل ویلیج قرقر دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
اہلیان دیول نے بالواسطہ ہی سہی مگر قیام پاکستان سے پہلے اپنا اہم کردار
ادا کیا، حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ نے اوسیا میں سکول کے سامنے ایک مسجد کی
بنیاد ڈالی اور کوہسار میں پہلا جمعہ پڑھایا، سب سے اہم بیداری کی لہر مارچ
انیس سو چوالیس میں پیدا ہوئی جب یہاں کے قلعہ گرائونڈ میں مسلم لیگ کا
سردار نور خان کی زیر صدارت ایک جلسہ ہوا، جس کے مہمان خصوصی حکیم
عبدالخالق علوی تھے، اس سے مقامی ہندو آبادی اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ ان کی
اپیل پر مری انتظامیہ نے برطانوی فوج کی جاٹ رجمنٹ اور پولیس کی بھاری نفری
دیول میں تعینات کر دی، چھبیس جولائی کو جب قائد اعظم سری نگر سے مری جا
رہے تھے تو لوئر دیول کے مقام پر اہلیان دیول نے بابا امیر احمد خان کی
قیادت میں اپنے محبوب رہنما کا استقبال کیا اور انہیں گلدستہ پیش کیا،
قیام پاکستان کے بعد اہلیان دیول اوسیا نے علاقائی اور قومی سطح پر بھی
شاندار کارنامے انجام دئے، عسکری محاذ پر دیول کے فرزند انیس سو پینسٹھ اور
اکہتر میں اگلے مورچوں پر نظر آتے ہیں، جہاد افغانستان میں بھی ان کے
کارنامے سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں، اس وقت شاہد خاقان عباسی
وفاقی وزیر پٹرولیم ہیں تاہم ان کے ووٹروں کا ان سے جائز گلہ بھی ہے کہ وہ
اپنے علاقہ کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اٹھارویں
صدی کے اوسیا کی ایک غیر معروف ڈھوک دیول اس لئے آج دنیا میں ایک نمایاں
مقام رکھتی ہے کہ یہاں پر کوہسار کی سب سے پہلی درسگاہ کا قیام عمل میں
آیا اور اس کے فرزندوں نے پاکستانی قوم کو کچھ ڈیلیور کیا ، ورنہ ہزارہ کی
پڑوسی یونین کونسل بیروٹ کے سکولوں کے انہدام پر تو سرکل بکوٹ کے حکمرانوں
کے دلوں میں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور بیروٹ کے بکرے اپنے قصائیوں کے ہاتھ میں
خون آلود چھرے دیکھ کر انہیں چوم بھی رہے ہیں۔ |