دربار شاہی سے ولایت تک ۔ اہل بیعت کی محبت

(از قلم:فنا فی الرسول فنافی شیخ فنا فی محبت اہل بیعت حضرت علامہ مولانا ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ)

جنید نامی شخص خلیفہ بغداد کا درباری پہلوان مملکت کیناک کا بالغ تھا۔ وقت کے بڑے بڑے سورما اس کی طاقت اور فن کا لوہا مانتے تھے۔ ڈیل ڈول اور قدوقامت کے لحاظ سے وہ بھی دیکھنے والوں کے لئے تماشا تھا۔ شخصیت کے رعب اور دب دبے کا یہ حال تھا کہ وقت کا بڑے سے بڑا جیوٹ بھی نظر ملانے کی تاب نہیں رکھتا تھا۔ کمال فن کی غیر معمولی شہرت نقطہ انتہا پر پہنچ گئی تھی۔ ساری مملکت میں جنید کا کوئی مقابل و حریف نہیں رہ گیا تھا۔ اب جنید کا مصرف سوا اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ اب وہ خلیفہ بغداد کی شاہانہ سطوت کا ایک واضع نشان تھا۔ دربار میں جنید کے لئے اعزاز کی ایک جگہ مخصوص تھی جہاں وہ بن سنور کر کلغی لگائے۔ خلیفہ کی دائیں جانب بیٹھا کرتا تھا۔ دربار لگا ہوا تھا سارے اراکین سلطنت اپنی اپنی کرسیوں پر فروکش تھے۔ جنید بھی اپنے مخصوص لباس میں زینت دربار تھے کہ ایک چوبدار نے آکر اطلاع دی کہ صحن کے دراوزے پر ایک لاغر نیم جان شخص کھڑا ہے جو کہ چہرے اور لباس اور حالت سے فقیر معلوم ہوتا ہے۔ ضعف و نقاہت سے قدم ڈگمگاتے ہیں زمین پر کھڑا رہنا مشکل ہے لیکن اس کی آواز اور پیشانی کی شکن سے فاتحانہ کردار کی شان ٹپکتی ہے۔ آج صبح سے وہ برابر اصرار کر رہا ہے کہ میرا چیلنج جنید تک پہنچا دو میں اس سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں قلعہ کے پاسبان اسے سمجھا رہے تھے کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات مت کرو۔ جس کی ایک پھونک سے تم اُڑ سکتے ہو اس سے کشتی لڑنے کا خواب پاگل پن ہے۔ لیکن وہ بضد ہے کہ اس کا پیغام دربار شاہی تک پہنچا دیا جائے۔

چوبدار کی زبانی عجیب و غریب خبر سن کر اہل دربار کو اس آنے والے شخص کو دیکھنے کے لئے دلچسپی پیدا ہوگئی اور اس کو بلانے کا حکم دیا گیا۔ کہ اسے حاضر کیا جائے۔ تھوڑی دیر بعد چوبدار اسے لے کر حاضر ہوا اس شخص کے قدم ڈگمگا رہے تھے اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں بڑی مشکل سے دربار میں آکھڑا ہوا۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ وزیر نے دریافت کیا۔ جنید سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ اجنبی نے جواب دیا۔
کیا تم کو معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے زورآورں کے ماتھے پر پسینہ آجاتا ہے ساری ریاست میں اب ان کا کوئی مد مقابل نہیں رہ گیا ہے۔ ایسی بات مت کرو جو کہ تمہارے لئے ہلاکت کا سبب بن جائے۔
وزیر نے فہمائش کے انداز میں کہا۔

وہ شخص کہنے لگا کہ جنید کی شہرت ہی مجھ کو یہاں تک کھینچ کر لائی ہے۔ اسی اعتقاد کی میں تردید کرنا چاہتا ہوں کہ قدوقامت کا شکوہ اور بازوں کا کس بل ہی فتح و شکست کا معیار نہیں ہوتا۔ فن کی ذہانت بھی اپنا مقام رکھتی ہیں ۔اطمینان رکھیے میرا دماغی توازن اپنی جگہ پر بالکل درست ہے۔ مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں انجام کا سارا نقشہ میری نظر کے سامنے ہے۔ اجنبی شخص نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا۔ اجنبی شخص کی جرات اور گفتار کو دیکھ کر دربار شاہی میں سرگوشیاں ہونے لگیں کہ شائد اس پراسرار شخص کے پاس کوئی مہارت اور فن کا عجیب و غریب خزانہ ہے۔ جنید بھی بھی اس اجنبی شخص کی طرف حیرت کے ساتھ دیکھنے لگے ہزار ہا تجسس کے بعد بھی اس شخص کے پاس کوئی فنی مہارت نظر نا آئی۔ سب سخت حیران تھے کہ اس شخص کو آخر کس چیز نے اتنا جرأت والا بنا دیا ہے کافی دیر سوچنے کے بعد خلیفۃ المسلمین کے اشارے پر وزیر کو دربار شاہی میں موجود اہل دربار سے رائے دریافت کرنے کا کہا۔

اہل دربار نے کہا سارا نشیب و فراز سمجھانے کے بعد بھی اگر یہ بضد ہے تو اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے اور ہاں اگر یہ ہار گیا تو انجام کا یہ خود ذمہ دار ہوگا۔ اور اگر فتحیاب ہوگیا تو ایک پراسرار شخصیت کے جوہر و کمال سے پہلی بار دنیا کو روشناس کروانے کا فخر ہمیں حاصل ہوگا۔

اور خیلفہ نے بھی اس قراداد پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر دی۔ کشتی کے لئے دربار شاہی کی طرف سے تاریخ اور جگہ متعین کر دی گئی۔ اور نشر و اشاعت کے ادارے کو حکم کر دیا گیا کے اس کشتی کا پوری مملکت میں اعلان کر دیا جائے۔ وہ شخص یہ کہتا ہوا دربار شاہی سے رخصت ہوگیا کہ اطمینان رکھا جائے میں وقت مقررہ پر دنگل میں حاضر ہو جاؤں گا۔

اپنے زمانے میں جنید کے مد مقابل کوئی نہیں تھا یہ یقین لوگوں کے دلوں میں اس طرح گھر کر چکا تھا کہ مقابلے کا ذکر جس نے بھی سنا حیران رہ گیا۔ ساری مملکت میں شور مچا ہوا تھا جدھر جاؤ اسی اجنبی کی باتیں ہو رہی تھیں اور لوگ حیرانی سے یہ کہہ رہے تھے کہ وہ شخص اب نہیں آئے گا دیوانوں کے لباس میں وہ ایک شاطر آدمی تھا۔ اپنی چرب زبانی سے سب کو بے وقوف بنا گیا۔

لیکن اکثر لوگوں کی رائے تھی کہ وہ ضرور آئے گا۔ اسے شاطر اور پاگل سمجھنا غلط ہے۔ بہرحال ہوا کچھ ایسی چل رہی تھی کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اسی ہلچل میں جنید کو بھی بڑی حیرانی کا سامنا تھا کہ کئی برسوں کے بعد جنید کو کسی شخص نے للکارا بھی تو کیسے شخص نے۔ اور وہ اسی حیرانی عالم میں اندر ہی اندر سے ان کے دل کی دنیا بدلتی جا رہی تھی۔ دن بہ دن شاہی دربار سے دل کا تعلق ٹوٹتا جا رہا تھا۔ ان کو سمجھ نہیں آرہی تھی اور ان کے چہرے کا رنگ اُڑا اُڑا دیکھ کر شاہی دربار میں یہ چرچا ہو رہا تھا کہ اس بار اتنا پراسرار مقابلہ ہے کہ مقابلے سے پہلے ہی جنید پر ایک نامعلوم ہیبت طاری ہے۔

بہرحال آج وہ شام آ گئی کہ جس کی صبح ایک حیرت انگیز مقابلہ اور فیصلہ ہونے والا تھا اور جنید کے لئے یہ رات بہت پراسرار تھی۔

ساری رات بے چینی سے کروٹ بدلتے گزری۔ اپنے زمانے کا مانا ہوا سورما آج نا معلوم طور پر دل کے ہاتھوں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ جس نے بڑے بڑے زورآوروں کا غرور پلک جھپکتے خاک میں ملا دیا تھا۔ آج وہ ایک نحیف اور ضعیف انسان کے مقابلے کے لئے وہ ہزاروں اندیشوں کا شکار تھا۔ اُس شخص کے بارے میں رہ رہ کر دل میں بار بار یہ خلش محسوس ہو رہی تھی کہ ہو نا ہو اس شخص کے پیچھے کوئی نا کوئی طاقت ضرور ہے۔

دل کے یقین کے آگے جسم کی ناتوانی کوئی چیز نہیں۔ معنوی کمالات اور نادیدہ قوتوں کا کوئی مخفی جوہر ضرور اس کی پشت پناہی میں ہے۔ ورنہ ایسے ناتواں اور حیرت انگیز جسم میں اتنے طاقت کہاں کہ دبار شاہی میں آکر مجھ سے کشتی کا اعلان کرے ۔اس اثنا میں صبح ہونی شروع ہوگئی ۔اور اس طرف مقررہ میدان میں پوری مملکت سے آنے والے تماشائیوں کا ہجوم اس حیرت انگیز منظر کو دیکھنے کے لئے جمع ہونے لگا۔ بغداد کا سب سے وسیع میدان تماشائیوں سے بھر گیا تھا اور میدان کے شروع میں شاہی خاندان، درباری معززین اور عمائدین کے لیے نشستیں بھی نہایت قرینے سے لگا دی گئی تھیں۔ اسی اثنا میں آواز لگائی گئی کہ بادشاہ سلامت اور دربار شاہی کے وزراء تشریف لے آئے ہیں اور ان کے ہمراہ جنید بھی بڑی شان اور شوکت سے حاضر ہوئے۔

کشتی کا وقت ہوگیا تھا اور لوگ بھی حیران تھے اور جنید کو فاتح ہونے کا یقین دلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ شخص بے وقوف بنا گیا اور وہ اب نہیں آئے گا۔ اور اراکین سلطنت کو ندامت ہو رہی تھی کہ وہ شخص سب کو بے وقوف بنا گیا اور اگر حکومت اس کو گرفتار بھی کرنا چاہے تو بغیر نام و نشان کے کیسے تلاش کرے گی۔

لیکن غائبانہ طور پر اس میدان میں اس پراسرار شخص کے حامیوں کی بھی کافی تعداد موجود تھی۔ ابھی وقت مقررہ میں کچھ وقفہ باقی تھا اس لئے اس کے بارے میں فیصلہ کرنا قبل از وقت تھا اور اس طرف اس شخص کے نا آنے پر تماشائی بے قابو ہو رہے تھے کہ وزیر اعلان کرنے کہہ لئے کھڑا ہوا اور ابھی منہ سے پہلا لفظ ہی نکلا تھا کہ مجمع کے کنارے سے ایک شخص نے آواز دی کہ ذرا ٹھہر جائیے وہ دیکھئے سامنے گرد اڑ رہی ہے ہو سکتا ہے یہی وہ اجنبی شخص ہو۔

جب تھوڑی سی گرد ہٹی تو سامنے ہانپتا ہوا اور قدم لڑکھڑاتا ہوا وہی اجنبی شخص آرہا تھا۔ یہ معلوم ہوتے ہی مجمع میں خوشی کی لہر دوڑ اُٹھی۔ بڑی مشکل سے مجمع پر قابو کر کے اس شخص کو میدان تک پہنچایا گیا دنگل کا وقت ہو چکا تھا اور اعلان ہوتے ہی جنید تیار ہو کر اکھاڑے میں اتر گئے۔ اب دونوں آمنے سامنے تھے اور جنید نے خم ٹھونک کر زور آزمائی کے لئے پنجہ بڑھایا۔

اس اجنبی شخص نے دبی ہوئی آواز سے کہا کان قریب لائیے مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ نہ جانے اس آواز میں کیا سحر تھا کہ سنتے ہی جنید پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اچانک ہاتھ سمٹ گئے اور کان قریب لاتے ہوئے کہا۔ فرمائیے!

اجنبی کی آواز گلوگیر ہوگئی اور بڑی مشکل سے اتنی بات منہ سے نکل سکی۔ کہ میں یک سید زادا ہوں اور خاندان عالیشان کا چشم و چراغ ہوں میں اور میرے اہل و عیال نے یہاں پاس ہی جنگل میں پناہ لے رکھی ہے بہت دنوں سے کوئی کام نہیں ملا اور گھر پر کھانے کو کچھ نہیں۔ سید ہونے کی وجہ سے اتنی حیا ہے کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ہمت نہیں ۔اس آل رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چمن کو روزانہ یہ کہہ کر آتا ہو کہ آج تمہارے لئے کچھ لے کر آؤں گا لیکن شام کو مایوس واپس لوٹ جاتا ہوں۔ میرے سارے گھر والے کئی دنوں سے بھوکے ہیں۔ میں اس اُمید سے تم سے کشتی کرنے آیا ہوں کہ تم میری مدد کرو اور مجھ کو جتوا دو۔

میں وعدہ کرتا ہوں کہ بروز قیامت اپنے نانا جان سے عزت کا تاج سر پر رکھواؤں گا۔ ہم کسی کا قرض سر پر نہیں رکھتے جلد اتار دیتے ہیں۔ جب جنید نے یہ سنا تو حیران ہو کر سوچنے لگے کہ کیا عجب اگر دنیا کی ساری نعمتیں چھوڑ دو اور اگر ان کو گرا دیا تو بروز قیامت اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ اور کاش دو جہاں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنے ہاتھو ںسے تاج پہنائیں۔ یہ سوچ کر پھر کشتی شروع کر دی اور کچھ دیر بعد خود ہی ڈھیر ہوگئے۔ اب سید زادہ ان کے سینے پر تھا اور وہ نیچے چت پڑے تھے۔

جب عوام الناس نے دیکھا تو سید زادے کو کندھے پر اٹھایا اور ان کی فتح کے نعرے لگاتے ہوئے سارے لوگ جنید کو اپنے قدموں میں روندتے چلے جارہے ہیں۔ ادھر ان کو کوئی ہوش نہیں اور وہ یہی سوچ رہے ہیں۔ کاش! کاش قیامت آج ہی آجائے اور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سے عزت کا تاج پہنوں۔ جب مجمع ختم ہوا تو گھر کو چل دیئے اب سب لوگوں کا یہ عالم تھا کہ جیسے ان کو کوئی جانتا ہی نہیں۔

اب یہ گھر گئے اور جا کر سونے کے لئے بستر پر لیٹے اور ساری رات یہ آواز کانو ں میں گونجتی رہی کہ بروز قیامت سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سے عزت کا تاج پہنواؤں گا۔ اور آنکھوں میں آنسوں آرہے تھے اور دل کی بس ایک ہی سدا تھی کہ یا اللہ عزو جل قیامت آج ہی آجائے۔ اسی اضطراب کے عالم میں حضرت جنید رضی اللہ عنہ کی آنکھ لگ گئی اور قسم انگڑائی لے کر جاگ اُٹھی اور پوری کائنات کہ آقا تاجدار مدینہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لے آئے۔ اور حضرت جنید سے کہہ رہے ہیں اے جنید ہم اپنا قرض ادھار نہیں رکھا کر تے تم سے ہمارے نواسے نے جو عہد لیا تھا ہم آج ہی اس کو پورا کرتے ہیں اور ان کے سر پر تاج رکھ کر فرمایا جاؤ آج کے بعد دنیا تم کو قیامت تک عزت سے پکارے گی اور اچھے القاب سے یاد رکھے گی۔

جب صبح ہوئی تو دروازے پر فقراء علماء اور مشائخ کرام کی لائن لگی تھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر گھر گھر خود ہی پہنچ گئی تھی۔ اور فقراء نسبت کی خیرات لینے دروازے پر کھڑے تھے۔ جب باہر آئے تو ایک کونے سے اسی ناتواں سید زادے نے آواز دی عزت کا تاج مبارک ہو۔

مجھے ہاتھ آئے اگر تاج شاہی
تیرے قدموں پر سب کچھ وارا کروں میں
Muhammad Owais Attari
About the Author: Muhammad Owais Attari Read More Articles by Muhammad Owais Attari: 97 Articles with 687751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.