4۔ تربیتی پہلو (Instructional
aspect):-
آج کے دور میں اِس اَمر کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ ہم اپنی اولاد
کو حُبِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دیں اور ان کی تربیت
اس نہج پر کریں کہ ان میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یک
گونہ حبی و قلبی تعلق پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جائے۔ ان کے اندر یہ تعلق
پیدا کرنے کے لیے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی ترغیب مؤثر
ترین ذریعہ ہے۔ اس ضمن میں ہماری رہنمائی ایک حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے جس
میں اولاد کو حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دینے کی تلقین ان
الفاظ میں فرمائی گئی ہے :
أدبوا أولادکم علي ثلاث خصال : حبّ نبيکم، وحبّ أهل بيته، وقراء ة القرآن.
’’اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ : اپنے نبی کی محبت، نبی کے اہلِ بیت کی
محبت اور (کثرت کے ساتھ) تلاوتِ قرآن۔‘‘
1. سيوطي، الجامع الصغير في أحاديث البشير النذير، 1 : 25، رقم : 311
2. هندي، کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 16 : 456، رقم : 45409
فی زمانہ اولاد کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سکھانے کا اس سے
مؤثر اور نتیجہ خیز طریقہ اور کوئی نہیں کہ جب وہ شعور و آگہی کی عمر کو
پہنچیں تو انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کی ترغیب دی
جائے۔ زیادہ سے زیادہ ایسی محافل کا انعقاد کیا جائے جن میں تذکارِ سیرت و
رِسالت ہوں، نعتیں پڑھی جائیں اور ایک خاص اہتمام کے ساتھ حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی مجالس بپا کی جائیں تاکہ بچوں میں اَوائلِ عمری
ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یک گونہ ذہنی و جذباتی وابستگی
پختہ تر ہوتی چلی جائے۔ چین میں جب کمیونسٹ انقلاب آیا تو ماؤزے تنگ (1893۔
1976ء) کی تقریروں کے کیسٹ بچوں کے پیدا ہوتے ہی ان کے کانوں میں سنائے
جاتے تھے، یہ عمل سال ہا سال جاری رکھا جاتا۔ اِنقلابِ روس کے دور میں بھی
مدتوں نوجوان نسل کو لینن (1870۔ 1924ء) کے نام اور کام سے آشنا کیا جاتا
رہا۔ انقلابِ ایران کی جد و جہد میں خمینی (1902۔ 1989ء) کی انقلابی
تقریروں کی کیسٹیں بچوں کے کانوں میں سنائی جاتی رہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا
کہ بچے اس ماحول میں پرورش پائیں اور باشعور ہونے تک ایک خاص پیغام ان کے
ذہنوں میں راسخ ہو جائے۔
والدین کی بنیادی ذمہ داری:-
مسلمان ہونے کے ناطے اور بہ حیثیت والدین ہماری یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ
ایمان کی دولت اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کرتے رہیں۔ اگر ہم ایک لمحہ کے لیے
پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہم پر آشکار ہوگا کہ ہمارے ماں باپ نے ایمان کی عظیم
دولت نہایت امانت و دیانت سے ہمیں منتقل کی۔ اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے
کہ ایمان اور حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ وراثت اپنی اولاد
میں منتقل کر دیں تاکہ محبت کا یہ پیغام اگلی نسلوں تک پہنچتا رہے اور اس
طرح چراغ سے چراغ جلنے کا عمل جاری رہے۔ اگر ہم اس فریضہ سے سبک دوش نہ ہو
سکے تو روزِ حساب اس کوتاہی اور غفلت شعاری کے بارے میں ہم سے ضرور پوچھا
جائے گا۔
حفاظتِ ایمان کا طریقہ:-
آج مسلم دنیا کی دگرگوں صورت حال انتہائی پریشان کن ہے۔ عالمِ کفر و اِلحاد
اور باطل کی یلغار مسلم نسلوں کو ایمان کی دولت سے محروم کرنے کی اِنتہائی
کوشش کر رہی ہیں۔ اِس صورتِ حال سے نکلنے اور ایمان کی دولت محفوظ کرنے کے
لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا اور آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی پیروی کرنا اَز بس ضروری ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم شعوری طور پر یہ کوشش کریں کہ سینوں میں حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی شمع روشن رہے، اور ہم اگلی نسلوں کو محبتِ رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لازوال دولت منتقل کر سکیں۔ منتقلی کا یہ عمل
کسی نہ کسی شکل میں سال بھر جاری رہتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی تعلیمات کا ذکر ہوتا رہتا ہے، قرآن مجید کے دروس ہوتے ہیں، حدیث شریف کا
بیان بھی ہوتا ہے۔ مگر سال کے بارہ مہینوں میں ربیع الاول ایک خاص مہینہ ہے
جس میں سب سے بڑھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عشق
کا پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ اِس مہینے میں کوئی خوش الحانی سے حسنِ سراپا
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرتا ہے، کوئی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے پُر پیچ گیسوؤں کی، کوئی شہر مدینہ کے گلی کوچوں کا ذکر چھیڑ رہا
ہوتا ہے، کوئی گنبد خضریٰ کی سنہری جالیوں اور شہر مدینہ کی فضاؤں کے دل
نشین تذکروں سے قلب و روح کے تار چھیڑتا ہے، کوئی حضرت آمنہ اور حضرت حلیمہ
کے حوالے سے لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم کے مصداق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے بچپن کے احوال بیان کرتا ہے، اور کوئی چودہ سو سال پہلے شہر مکہ کی
تاریخ کے اَوراق پلٹ رہا ہے۔ الغرض اس مہینے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی محبت کے ترانے الاپے جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
ولادت مبارکہ کی بات ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن یاد کیا
جاتا ہے اور سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج کے لیے خصوصی
خطابات ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگلی نسلوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی محبت کی تعلیم دینے کا اس سے مؤثر اور سنہری موقع کوئی نہیں کہ
انہیں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کی زیادہ سے
زیادہ ترغیب دی جائے۔ ماہِ ربیع الاول میں بالخصوص اور سال کے دیگر مہینوں
میں بالعموم ایسی محافلِ منعقد کی جائیں جن میں تذکارِ سیرت اور نعت خوانی
کا خاص اِہتمام ہو، تاکہ نئی نسل کے قلب و روح میں حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ذہنی و قلبی وابستگی اور جذباتی تعلق کو فروغ ملے۔
5۔ دعوتی و تبلیغی پہلو (Dawah aspect):-
جشنِ میلاد کے مختلف پہلوؤں میں دعوتی و تبلیغی پہلو بھی بڑی اہمیت کا حامل
ہے۔ جب ماہ ربیع الاول آتا ہے تو کثرت سے ایسی تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن
میں مختلف مشرب و مسلک رکھنے والے لوگوں کو شرکت کی دعوتِ عام دی جاتی ہے۔
مساجد میں محافلِ میلاد ایک اجتماع کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ سرکاری اور
غیر سرکاری سطح پر مختلف تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں کثرت سے حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعاتِ سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے اَوصافِ حمیدہ کے تعلیماتی پہلو بیان کیے جاتے ہیں، درود و سلام کے
نذرانے اور گلہائے نعت آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش
کیے جاتے ہیں۔ سیرت کے بیان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
اَخلاقِ حسنہ کے مختلف گوشے اُجاگر کیے جاتے ہیں اور اِطاعت و اِتباعِ رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زور دیا جاتا ہے جس سے لوگوں میں محبت و اخوت
اور یگانگت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔
یہ بدیہی حقیقت ہے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجتماعات
دعوت اِلی اﷲ اور کلمہ حق کی سربلندی کے لیے ایک بہت بڑا وسیلہ اور انتہائی
مؤثر ذریعہ ہیں۔ حکمت و دانش کا تقاضا ہے کہ یہ سنہری موقع ہرگز ضائع نہ
کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مبلغین اور علمائے کرام محافلِ میلاد کے
پلیٹ فارم سے مصطفوی اخلاق و آداب اور سیرت طیبہ کی روشنی میں معاملات و
عبادات کا درس دیں۔ میلاد کے اس مقدس مہینے میں ایسی محافل کا انعقاد جن کے
ذریعے لوگوں کو سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف راغب کیا جائے
اور ان کے شعور کو بیدار کیا جائے دوسرے مہینوں کے مقابلے میں یقیناً بہتر
اور زیادہ نتیجہ خیز ہے۔ محافلِ میلاد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کے باب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل
و فضائل اور ان پہلوؤں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے جن سے حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور اتباع کے جذبات فروغ پائیں اور آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائیں۔ مکہ مکرمہ
میں یہ دستور تھا کہ لوگ ہر سال مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
زیارت کرتے، جہاں بالاہتمام محافلِ میلاد کا انعقاد کیا جاتا جن میں خطباء
سیرت مطہرہ کے مختلف پہلو بیان کرتے۔ شیخ قطب الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس
ضمن میں آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں :
ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام
ويخطب فيه شخص.
’’اور وہ جوق در جوق جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے
ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے
ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے۔‘‘
قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت اﷲ الحرام في تاريخ مکة المشرفة : 355،
356
جاری ہے--- |