کامیاب بچہ کامیاب مستقبل
(Jaleel Ahmed, Hyderabad)
سائیکالوجی کی اصطلاح میں ’’آئی
کیو‘‘ ذہانت کی پیمائش کیلئے استعمال ہوتا ہے جسے اردو میں مقیاس ذہانت
کہتے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسی اکائی ہے جس سے کسی کے کتنے ذہین ہونے کا
اندازہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً فلاں بچہ اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت رکھتا ہے تو
اس کا ’’آئی کیو‘‘ ایک خاص طریقے سے معلوم کرکے بتایا جاتا ہے۔ اس کے بعد
کا درجہ ذہین اور پھر فطین کا ہوتا ہے۔ فطین ایسا بچہ ہوتا ہے جس کا آئی
کیو بہت ہائی ہوتا ہے۔ نفسیات کے علم میں آئی کیو کے استعمال نے ذہانت کے
معیار کو پرکھنا آسان تو بنادیا مگر لوگوں نے آئی کیو کو برتری کا معیار
بھی بنالیا اوریہ سمجھا جانے لگا کہ جس بچے کا آئی کیو زیادہ ہے وہ بچہ
دیگر بچوں سے ہر اعتبار سے بہتر ہے۔ یعنی وہ زیادہ ذہین ہے لازمی بات ہے وہ
پڑھائی میں بھی اچھا ہوگا اور اس کامستقبل بھی روشن ہوگا۔ مگر سچ یہ نہیں
ہے۔
انسانی زندگی میں مشین کا عمل دخل: یہ نظریہ 20 ویں صدی تک تو قابل قبول
تھا کہ بلند آئی کیو والا بچہ کامیاب زندگی گزارنے کی اہلیت رکھتا ہے مگر
21ویں صدی میں یہ معیار بدل گیا ہے کیونکہ ہر چیز کی قدر میں تغیر و تبدیلی
رونما ہوجاتی ہے۔ انسانی زندگی میں مشین کا عمل دخل اس قدر بڑھ گیا ہے کہ
اسے شاید اپنی میں زندگی میں کسی انسان کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔ زندگی کی
رفتار تیز تر ہوگئی اور ہر شعبے میں مقابلہ بازی کا رجحان پچھلی صدی سے کئی
گنا زیادہ ہوگیا۔ چنانچہ جب قدریں تبدیل ہونگی تو اس کا مطلب ہے کہ ہر
نظریہ اور ہر معیار بھی یقیناً کروٹ لے گا اور تغیرو تبدیلی کا متقاضی
ہوگا۔
کامیاب زندگی کیلئے ضروری چیز:مغربی ماہرین کے بقول ان حالات میں آئی کیو
پر ای کیو کو فوقیت رہے گی۔ اس نئی اصطلاح کی انہوں نے اس انداز میں وضاحت
کی ہے کہ ہر وہ بچہ جو بچپن سے ایک پراعتماد شخصیت لے کر پروان چڑھے گا اور
سماجی روابط کے گُرجانتا ہوگا وہی ایک کامیاب شخص بن سکے گا۔ خواہ اس کا
’’آئی کیو‘‘ زیادہ ہو نہ ہو‘ اس کا ’’ای کیو‘‘ زیادہ ہونا ضروری ہے۔ ماہرین
کی اس بات میں صداقت نظر آئی ہے وہ اس طرح کہ عام مشاہدہ کے مطابق ایک بے
حد ذہین و فطین بچہ جو اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں تو زبردست ہے مگر اس کے
سماجی روابط نہ ہونے کے برابر ہیں وہ عملی زندگی میں کیسے کامیاب ہوسکتا
ہے؟ جسے نہ لوگوں سے میل جول کا طریقہ آتا ہو بات کا سلیقہ اور نہ ہی مردم
شناسی۔ میرے اپنے مشاہدے میں کئی ذہین کتابی کیڑے ہیں جو سماجی نقطہ نظر سے
بری طرح ناکام ہیں۔کیونکہ وہ بے عمل ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایک روکھی
پھیکی ذہانت سے زیادہ ضروری ہے ایک جذباتی ذہانت… جس کے لیے انہوں نے
ایموشنل انٹیلی جنس کا لفظ استعمال کیا ہے۔ گویا پہلی چیز ہے ’’ای کیو‘‘
اور اس کے بعد ’’آئی کیو‘‘ ہے بلکہ ’’ای کیو‘‘ ہی دراصل ’’آئی کیو‘‘ بہتر
کرتی ہے۔ ایک باعمل اور پھرتیلا انسان جس کا دماغ ہر وقت مصروف رہے وہ نت
نئے تعلقات بڑھانے والا ہو اپنے پیشے میں وہ کامیاب ہو۔ دنیا میں کچھ کرنے
کی دھن اس پر سوار ہو وہ نہایت پرامید بھی ہو ساتھ میں اسے خود پر کنٹرول
ہو کس طرح ناکام ہوسکتا ہے۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جو 20ویں صدی کے کامیاب
لوگوں میں موجود تھیں اور یہی وہ خوبیاں ہیں جو 21ویں صدی میں کامیابی سے
زندگی گزارنے کے لیے ازحد ضروری ہیں۔
بچے کی حوصلہ افزائی ضروری ہے:اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلند ’’ای کیو‘‘
رکھنے والی شخصیت کس طرح پیدا کی جائے تو ماہرین اس سوال کا جواب بھی تلاش
کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پیدائش سے لے کر ایک خاص عمر تک اگر ایک بچے کو
والدین اور بالخصوص والدہ کی طرف سے مناسب رہنمائی اور توجہ ملے تو اس کا
’’ای کیو‘‘ بہتر ہوسکتا ہے۔ اس میںپہلی چیز جو بے حد ضروری ہے وہ یہ ہے کہ
بچے میں شروع سے ہی خودانحصاری کی عادت پیدا کی جائے اور اسے یہ احساس
دلایا جاتا رہنا چاہیے کہ وہ اپنے بارے میں ہمیشہ مثبت انداز میں سوچے۔
اگلاا سٹیپ یہ ہونا چاہیے کہ بچے کے اندر خوداعتمادی پیدا کی جائے ساتھ ہی
اس میں ضبط و برداشت کی صفت پیدا ہونا ضروری ہے کیونکہ جلد باز اور غصیلے
بچے ’’ای کیو‘‘ کے زمرے میں نہیں آسکتے۔ والدین کو یہ بھی چاہیے کہ ہر اس
جگہ پر وہ بچے کو اپنے ساتھ لے کر جائیں جہاں اور بچے بھی ہوں تاکہ بچے سے
اس کا ایک سوشل رابطہ شروع ہو۔ کھیل کود اور دیگر مشاغل بھی سماجی رابطے
پیدا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں بچے کو اکثر اظہار کا موقع دیا جائے اور قدم قدم
پر اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچے میں پرامیدی کا رجحان
بھی اہم ہے وہ زندگی کو اور ہر چیز کو مثبت انداز سے دیکھے۔ اس کا دوسروں
کے ساتھ رویہ اور میل جول بھی مثبت ہونا چاہیے۔ گویا ’’ای کیو‘‘ کیلئے بچے
کی باقاعدہ ٹریننگ ضروری ہے جو پیدائش کے فوراً بعد شروع ہوجانی چاہیے اور
ہر ہر قدم پر والدین اسے مناسب گائیڈ کرتے رہیں‘ ایک خاص عمر کے مطابق بچے
کا ’’ای کیو‘‘ لیول اس حد تک ہوجائے گا کہ اس کے روشن مستقبل کی پیشن گوئی
باآسانی کی جاسکتی ہے۔ اس دوران مشاہدہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ’’ای
کیو‘‘ کے ساتھ ساتھ اس کے ’’آئی کیو‘‘ لیول میں بھی بہتری رونما ہورہی ہے
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دراصل ’’ای کیو‘‘ ہی ’’آئی کیو‘‘ کی بنیاد بنتا ہے۔
پہلی ٹریننگ خودانحصاری ہے:اگرچہ ایک صحت مند گھریلوماحول اور والدین اور
بچے کے درمیان دوستانہ روابط بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں مگر پہلی
ٹریننگ خود انحصاری ہے۔ مغرب میں کئی ایسے سکول ہیں جن میں بچے کے ’’ای
کیو‘‘ پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے اور اس کیلئے پہلا سبق خود انحصاری کا ہی
دیا جاتا ہے۔ اسی خود انحصاری سے اس میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور پھر
رفتہ رفتہ بچے میں وہ تمام اوصاف نمودار ہونے لگتے ہیں جن کا کہ ’’ای کیو‘‘
متقاضی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ بچے کی کامیاب زندگی کیلئے اس کا ذہین ہونا
اتنا معنی نہیں رکھتا جتنا یہ کہ زندگی کے بارے میں اس کا رویہ مثبت ہو وہ
سوشل ہو باہمت ہو اور خود پر کنٹرول کرنا جانتا ہو۔ یہ صدی ایسے ہی بچوں کی
متقاضی ہے۔ |
|