تپتے صحرہ میں حد نظر ریت
تھی دور سے انہیں چھوٹے چھوٹے نقطے سے نظر آئے ،تو انہوں نے اپنے گھوڑوں کا
رخ اسی جانب موڑ دیا اور جو قریب دکھائی دے رہا تھا وہاں پہنچنے میں گھنٹوں
لگے۔۔۔جوں جوں آگے بڑھتے وہ سائے واضع ہو تے گئے اور جب قریب پہنچے تو واضع
ہواکہ وہاں انسانی نقل وحرکت ہو رہی ہے اور خیمے لگائے گئے تھے، ان کے
گھوڑے پیاس کے مارے ہانپ رہے تھے ستم یہ کہ ان کے پاس خود کے پینے کے لئے
بھی پانی نہیں تھا تو اس ریگستان میں جہاں کئی دنوں سے وہ کسی کی تلاش میں
مارے مارے پھر رہے تھے گھوڑوں کو پانی کہاں سے پلاتے ۔۔۔جب اس خیمہ بستی
میں پہنچے تو ان کا استقبال کیا گیا اور ان کی توازع کی گئی ۔بستی کے لوگوں
نے ان پیاسے لوگوں کی پیاس بجھائی اور اپنا سارا پانی جو وہ اپنے سفر کے
حساب سے ساتھ لائے تھے وہ سفر جو ابھی ادھورا تھا وہ ان مہمانوں کو پلا دیا
اور جب وہ پانی پی چکے تو بستی کے امیر نے کہا کہ جو پانی بچا ہے وہ
مہمانوں کے گھوڑوں کو پلا دیجئے اور پھر بھی کچھ بچ جائے تو گھوڑوں کے پاؤں
پر گرا دیا جائے کیوں کے ہمیں لگتا ہے کہ یہ طویل وتھکا دینے والے سفرسے
یہاں پہنچے ہیں ۔یہ کلمات سنے تو اس گروہ کے لوگ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ
گئے ۔ان کے لئے یہ بڑا عجیب منظر تھا اس لئے کہ وہ مہمان جو کمانڈر ’’حر‘‘
کی قیادت میں تھے جنہیں اس دور کے بادشاہ ’’یذید‘‘ کی طرف سے بھیجا گیا تھا
وہ ایک گروہ تھا جسے یہ زمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ قافلہ ’’امام حسین‘‘
کو گرفتار کر کے لائے اور جن بستی والوں نے ان کا استقبال کیا وہ ’’امام
حسین‘‘ اور ان کے ساتھی تھے جو چاہتے تو وہ پانی اپنے لئے بچا کر رکھتے تو
وہ تمام اموات جو دس محرم تک پانی کی پیاس کے باعث ہوئی تھیں وہ نہ ہوتیں ۔لیکن
وہ ایک ایسے کردار کو آگے بڑھا رہے تھے جس مستقبل میں کئی انسانی انقلابات
نے برپا ہونا تھا ۔
بادشاہ وقت ’’یذید‘‘ جس کی ایک بڑے علاقے پر حکومت تھی ان کے پاس اعلیٰ
تربیت یافتہ مسلح افواج تھیں اور تمام تر حکومتی ادارے ان کی کمان اینڈ
کنٹرول میں کام کر رہے تھے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کی حکومت کو امام
حسین نے چیلنج کیا ہو ،امام حسین اور یذید کے درمیاں محض مذہبی اختلاف تھا
،حسب روائت بادشاہ ’’یذید‘‘ اس بات پر محضر تھا کہ ’’امام حسین ‘‘اس کے
ہاتھ پر بعیت کریں جس کا مطلب یہ تھا کہ اسے حق بجانب سمجھتے ہوئے اس کی
اطاعت قبول کریں جب کہ ’’امام حسین ‘‘ کا ماننا تھا کہ وہ ریاست کو اسلامی
روایات کے مطابق نہیں چلا رہے اور ان کی حکمرانی میں عام انسانوں کو عدل
وانصاف و مساوات جیسے انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے اور حکمرانوں کی
ساری توجہ محض اپنی پر آسائش زندگی پر ہے اس کے علاوہ امام حسین کی
مصروفیات فقط یہ تھیں کہ وہ مدینہ منورہ کے ایک محدود علاقے میں جہاں وہ
موجود تھے اپنی عبادت کرتے درس و تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے اور جو لوگ
ان کے پاس مسائل لے کر آتے انہیں اسلامی شریعت کے مطابق حل بتاتے اور وعظ
کرتے ۔لیکن بادشاہ وقت کو نجانے کیوں ان سے ہمیشہ خوف سا لگا رہتا کہ شائد
امام حسین ان کے اقتدار کے لئے خطرہ ہیں،وہ عدم تحفظ کا شکار تھا ۔۔۔بوجوہ
وہ انہیں جلد از جلد اپنی بیعت کے لئے مجبور کرنا چاہتا تھا اور اس ضمن میں
وہ ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگا ۔وہ متعدد مرتبہ ’’امام حسین‘‘ کو
مدینہ منورہ کی حکمرانی اور اس کے علاوہ کئی دوسری مراعات کی پیشکش
کرچکاتھا۔لیکن دوسری جانب وہ مجسمہ انسانیت اسے یہ باور کرواتے رہے کہ ان
کا مقصد و مدعا حصول اقتدار نہیں بلکہ اصلاح احوال ہے اور جب ’’یذید ‘‘ کو
بات بنتی نظر نہ آئی تو اس نے حضرت امام حسین کو ایک ڈیڈ لائن دیدی اور وہ
ڈیڈ لائن گزرجانے کے بعد اس نے آپ کوآمدہ حج کے دوران ہی گرفتار کرنے کا
حکم دیدیا تھا اور اسی دوران حضرت امام حسین کو یہ بھی اطلاعات ملیں کہ
بادشاہ وقت ہمیں نشان عبرت بنانے کی خواہش رکھتے ہیں اس کے باعث آپ نے اس
سال فریضہ حج کی ادائیگی کا فیصلہ ترک کر دیا کیوں کہ اپ نہیں چاہتے تھے کہ
حرم شریف جیسی پر امن جا میں کوئی خون کا ایک قطر ہ گرے ۔
عرصہ دراز سے جاری حق و باطل کی اس کشمکش کے دوران کئی دوسرے علاقوں سے آل
بیعت کو دعوتیں ملیں کہ اگر آپ کو وہاں کوئی دشواری کا سامنا ہے تو ہمارے
ہاں تشریف لائیں ان میں سب سے زیادہ اہل کوفہ نے اپنے خلوص وہمدردی سے آپ
کو متاثر کیا ،تبھی اپ نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا اور یوں بچے بوڑھے جواں
مرد خواتیں پر مشتمل بہتر نفوس کا یہ قافلہ اپنے آبائی شہر جہاں زندگی بھر
کی یادیں جڑی تھیں کو خیر باد کہہ کر کوفہ کی جانب ہجرت کر گیا اور اس کے
بعد وہاں کیا ہوا۔۔؟وہ چاہتے تو ہونے والے اس جبر سے نجات حاصل کر سکتے تھے
،وہ یہ فیصلہ بھی کر سکتے تھے کہ نہتے بادشاہ کی طاقت سے ٹکرانا خود کشی کے
مترادف ہے کیوں نہ اس کی بات مان کر وہ تمام اختیارات و مراعات حاصل کر لی
جائیں تو ہم اپنے موقف کو بہتر طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکیں گے اور اگر یہ
سارہ خاندان ہی مار دیا گیا تو اس مشن کو کون آگے بڑھائے گا ؟ لیکن آپ نے
وہی فیصلہ کیا جو انقلابی ہمیشہ کرتے آئے ہیں اورآپ نے انقلاب کی وہ
منفردروائت وہ بنیاد رکھی گئی جسے قیامت تک بھلایا نہیں جا سکے گا ۔
امن کے نوبل انعام یافتہ و معروف انقلابی رہنما محترم نیلسن منڈیلہ اپنی
سوانح میں فرماتے ہیں کہ جب انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیس برس بیت چکے
تو ایک بار انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ حکمرانوں کی شرائط کو تسلیم کر کے
سرینڈر کر دوں اور ملنے والے اختیارات و مراعات سے مزے اڑاوں اور پر آسائش
زندگی سے لطف اٹھاوں لیکن یکدم میرے سامنے مبنی برحق امام حسین کا کردار
ابھرکر سامنے آگیا کہ کیسے انہوں نے اپنے موقف کی سچائی کے ثبوت کے طور پر
پورہ خاندان قربان کر دیا تھا اس وقت کے بعد کبھی مجھے ایسا خیال نہیں آیا
۔۔۔
تاریخ انسانی نے دنیا میں فرعون ،نمرود،شدادو یذید جیسے بے شمار جابر ،ظالم
،و سفاک بادشاہ دیکھے ہیں جو برسہابرس اپنے عوام پر بیماری کی طرح مسلط رہے
جن کے ایک اشارے پر بستیاں و شہر تہہ وبالا کر دئیے جاتے تھے لیکن آج تک
تاریخ انسانی نے ان ظالم وجابر حکمرانوں کو بادشا ہ تو لکھا لیکن انہیں
قومی رہبرو ہیرو کا مقام نہ دیا ۔۔۔ہاں مگر ۔۔۔ ان استحصال زدہ غریب ونادار
قصبوں و بستیوں میں پیدا ہونیوالے ان انقلابیوں کو جنہوں نے ہر دور کے ظالم
و جابر حکمراں کے سامنے ببانگ دھل حق بات کی، انہیں قوم کا نجات دہندہ و
محسن لکھا قومی ہیرومانا وہی انقلابی جن کے نام سے دنیا بھر کے انقلاب
منسوب ہیں ۔۔ ۔اس لئے کہ انقلابی اپنے کردارکی بدولت تاریخ ساز بنے اور
اقوام کی تاریخ وسوچ بدل ڈالی وہ ہر دور میں نئی تاریخ رقم کرتے اور ہر دور
میں شاہوں اور شاہ کے کاسہ لیسوں ودرباریوں کو اور ان کے حاشیہ برداروں کو
چیلنج کرتے آئے ہیں ۔۔۔اور بیشک شاہوں کی قصیدہ گوئی کبھی انقلابیوں کا
شیوہ نہیں رہاہے ۔
|