جنہیں ہم جیسے غیر مہذب
اور غیر ترقی یافتہ ممالک کے باشندے مہذب اور تہذیب یافتہ خیال کرتے ہیں وہ
کتنی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اپنی بدمعاشیوں پر محض معافی کہہ کر بری
الزمہ ہونا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ انکی غلط معلومات کے نتیجہ
میں عراق پر حملے میں جو بچے شفقت پدری سے محروم ہوگئے ، جن ماؤں کی
جھولیاں اجڑ گئیں جن بہنوں کے بھائی موت کے منہ میں دھکیل دئیے گئے ان کی
روح کو تسکین کیسے ملے گی ؟ کتنی بے غیرتی کا مقام ہے کہ جن جھوٹی اطلاعات
کا آج اعتراف کیا جا رہا ہے اور اپنے اس عمل کو خود جنگی جرم سے تعبیر دے
رہے ہیں اس کے عوض اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مقرر ہوکر بھاری مراعات
بھی سمیٹ رہے ہیں۔
سابق امریکی صدر جارج بش سنئیر کے بعد برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی
بلئیر نے اعتراف کرلیا ہے کہ عراق پر جنگ مسلط کرنا انکی غلطی تھیاور عراق
کے پاس کیمیکل ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاعات بھی بے بنیاد تھیں، ٹونی
بلئیر نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ داعش کے قیام میں انکا بھی کردار
ہے،کیونکہ عراق پر حملہ داعش کے قیام کے بنیادی عوامل واسباب بنے، ٹونی
بلئیر کا کہنا کہ ہم جنگ کے متوقع نتائج کا اندازہ کرنے میں ناکام و قاصر
رہے،اور عراق کے حوالے سے منصوبہ بندیاں کرنے میں بھی بعض غلطیاں سرزد
ہوئیں…… ٹونی بلئیر نے اپنی اس غلط پر معذرت کی ہے …… برطانیہ کے سابق وزیر
اعظم ٹونی بلئیر کو معافی کے الفاظ ادا کرنے کے فیصلے تک پہنچنے میں پورے
بارہ سال لگ گئے ، ادھر امریکی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی
امیدوارڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر صدام حسین اور معمر قذافی زندہ ہوتے تو
آج نہ صرف عراق اور لیبیا کے حالات اچھے ہوتے بلکہ پوری دنیا بہتر مقام پر
ہوتی ری پبلکن پارٹی کے ارب پتی امیدوار نے کہا کہ لیبیا میں ایک بحران ہے
عراق میں لوگوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے کے مراکز قائم ہیں۔
ٹونی بلئیر کے بارہ سال بعد اس پچھتاوے کو کیا کہا جائے ؟ ٹونی بلئیرنے جس
آسانی سے عراق کی تباہی کو محض غلطی قرار دیکر کر ایک حقیر سا لفظ’’ معافی
یا معذرت‘‘ بول کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی ہے وہ اسقدر آسان نہیں
امریکہ ،برطانیہ سمیت پوری عالمی برادری کو عراق ،لیبیا ،افغانستان اور شام
میں لگائی گئی آگ کے شعلوں میں بھسم ہونا پڑے گا،اسکی وجہ یہ ہے کہ امریکی
صدارتی امیدوار نے جس حقیقت کا ذکر کیا ہے کہ عراق دہشت گردی کی تربیت گاہ
بن چکا ہے ،اگر امریکی صدارتی امیدوار اسییوں کہتا
کہ’’عراق،لیبیا،افغانستان اور شام سمیت دیگر کئی ممالک دہشت گردی کی تربیت
گاہیں بن چکے ہیں تو بہتر ہوتا…… سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ٹونی
بلئیر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو وہ اپنے موجودہ منصب سے مستعفی
ہوجائیں کیونکہ امریکہ کی تحریک اور عراق جنگ میں ٹونی بلئیر کی خدمات کے
انعام کے طورپر ہی اقوام متحدہ نے مشرق وسطی کے لیے انہیں اپنا نمائندہ
خصوصی مقرر کر رکھا ہے اور وہ بھاری معاوضے اور مراعات سے مستفیذ ہو رہے
ہیں۔اکیلے ٹونی بلئیر ہی نہیں امریکی سابق صدر بش بھی اقوام متحدہ کے خزانے
سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ انہیں بھی مسلم دشمنی اور
مسلم کشی کے صلے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے طور پر تقرر کیا گیا-
جس حقیقت کا اعتراف تونی بلئیر کر رہے ہیں اس صورتحال سے عالمی برادری کو
خبردار کرنے کی کئی بار کوششیں کی گئیں مگر عالمی برادری امریکی مفادات کے
تھفظ میں اندھی ہو چکی تھی اور سب ممالک جوق در جوق امریکی اتحاد میں
شمولیت کے لیے بے چین دکھائی دیتے تھے، عراق کی تباہی اور بربادی کے لییصرف
امریکہ اور برطانوی ہی نہیں ہمارے نانہاد مسلمان لیڈر بھی اسی خواہش کے
اسیر ہوچکے تھے اور وہ اپنی بھلائی اور خود کو محفوظ اسی طور سمجھتے تھے کہ
عراق کو برباد کردیا جائے بلکہ وہ اسے صفحہ ہستی سے ہی مٹانے کے آرزو مند
تھے۔ عراق کی تباہی میں اقوام متحدہ نے جو شرمناک کردار ادا کیا آج اسکی
حالت زار اسی کردار کے ثمرات ہیں-
مجھے یقین کامل ہے کہ جس طرح بارہ سال بعد ٹونی بلئیر عراق پر حملے کو غلطی
تسلیم کر رہے ہیں اور عراق کے پاس کیمکل ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاعات کو
جھوٹ پر مبنی قرار دے رہے ہیں بالکل اسی طرح امریکی اور برطانوی اور دیگر
ممالک کے حکمران افغانستان پر نائین الیون کی حقیقت بیان کریں گے، اور
افغانستان پر چڑھائی کو بھی اپنی غلطی تسلیم کرکے اپنے ضمیر کے بوجھ کو
ہلکا کرنے کی ناکام کوشش کریں گے-
لیکن اس وقت عالمی نوسربازوں کے اعتراف حقیقت کا کیا فائدہ؟ کیونکہ عراق ،لیبیااورافغانستان
کو جو ناقبل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے اسکی تلافی محض اعتراف جرم کرنے سے
تو نہیں ہو سکتی …… اس کے لیے ضروری ہے کہ عراق ،لیبیا اور افغانستان کی
تباہی اور بربادی میں حصہ لینے والے تمام اتحادی ممالک کے سربراہان پر
عالمی عدالت انصاف میں جنگی جرائم میں مقدمہ چلایا جائے تاکہ انہیں جھوٹی
انفارمیشن تیار کرنے اور پھر ان ممالک پر درندوں کی طرح حملہ آور
ہونے،انسانی حقوق کے چارٹر ککی دھجیاں اڑانے کے جرم میں قرار واقعی سزا دی
جائے…… اقام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کیمون فوری طور پر امریکہ کے سابق
صدر بش اورسابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر کو اقوام متحدہ کی جانب سے
سونپی گئیں تمام ذمہ داریوں سے الگ کریں بصورت دیگر ان کی غیر جانبداری پر
سوالیہ نشان کھڑے ہوں گے۔ |