آج کے مسلمانوں کا ضمیر اور منافقت(حصہ اول)

آج نہ جانے کیوں ہمارے ضمیر مردہ ہوچکے ہے۔آج کے اس دور میں ہم صرف نام کے مسلمان بن کررہے گئے ہے۔آج ہم کو کوئی مسلمان بھائی ملنے چلا آئے۔یا پھر کسی جگہ راستے میں مل جائے ۔تو ایک دوسرے کو بڑے خوش ہوکر ایسے ملے گئے ۔کہ اس سے بڑاہمارا کوئی ہمدرد نہیں لیکن جیسے ہی ایک دوسرے سے دور ہوئے تو اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں کرنا شروع کردیتے ہیں۔اور تھوڑے سے لالچ کے لیے یہ بھی بھول جاتے ہے۔کہ ہم جس کے پیٹھ پیچھے خنجر مار رہے ہے۔اس اچھے اور مخلص انسان کے ہم پر کتنا احسان ہے۔ آج تو لوگ احسان فراموش بن چکے ہیں۔کہتے ہے کہ دنیا میں کوئی چیز ناکارہ نہیں ہوتی۔لیکن ہم تو پھر انسان ہے۔اور مسلمان ہے۔ہمارے ضمیراگر مردہ نہ ہوتے۔تو ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز ہوتی ۔لیکن کیا کرئے۔کہ ہمارے ضمیر مردہ ہوکررہے گئے ہے۔کیا ہمارے دین اسلام سے ہم کویہی درس ملتا ہے۔کہ ہم اپنے ہی مسلمان بھائی کی برائی کرئے۔اس کا حق کھا جائے۔جو کوئی ہم کواپنی انگلی پکڑ ائے۔تواس کا بازو ہی کھینچ لیے ۔آج جو کسی کے ساتھ اچھا کرتاہے ۔وہ اس کا دشمن بن جاتاہے۔وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے ہی تو اس کو راستہ دیکھایا ہے۔اور مشکل وقت میں اس کی مدد کی تھی۔لیکن اپنے مفاد کی خاطر یہ سب کچھ ہم بھول جاتے ہے۔ہمارئے پیارئے نبی ﷺ نے توہم سب مسلمانوں کو بتایا کہ تم سب آپس میں مسلمان بھائی ہو۔چاہیے کوئی گورا ہویا کالاامیرہویا غریب سب آپس میں بھائی بھائی ہے۔لیکن آج بغل میں چھوری منہ میں رام رام ۔آج ہم مسجد میں نماز پڑھنے کی بجائے۔اس سے دور بھاگتے ہیں۔کیبل ۔سی ڈی وغیرہ پر گانے فلمے دیکھتے رہتے ہیں ۔اذان آرہی ہوتی ہے مگر ہم اس کا احترام نہیں کرتے ۔نمازجمعہ نہیں پڑھتے۔جب عید وغیرہ ہو تو مسجد کا رخ کرتے ہے۔آج جس کو دیکھوں وہ اس دوڑ میں ہے ۔کہ میں نمبر ون بنوں لیکن اس دوڑ میں وہ اپنے رشتے ناتے ۔اپنابھائی چارہ پاؤں میں روند کر بھاگ رہے ہے۔اس میں یہ نہیں دیکھتے کہ اگلے بندے کا تو میں نے نقصان تو کیا لیکن میں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔آج ایسی دوڑ میں آپ کسی سرکاری محکمہ میں کام کروانے چلے جائے ۔وہاں آپ کا جائز کام بھی ہو آپ کو پریشان کرتے رہے گئے۔جب تک آپ ان کومٹھائی نہیں دیتے ۔آج تو رشوت بھی ایک فیشن بن گیا۔جو نہیں لیتے وہ کرسی ان کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔اس کو یا تو تبدیل کروادیا جاتا ہے ۔یا پھر یہ کرپٹ لوگ اس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیتے ہیں۔آج کوئی کرپشن میں نمبرون بننے کی کوشش میں ہے ۔تو کوئی ملاؤٹ کررہاہے۔توکوئی حرام گوشت عوام کوکھلانے میں لگاہے۔یہی ہمارے میں مسلمانیا ت رہے گئی ہے۔ٹی ایم اے جھنگ نے جتنے بھی ٹینڈر کروائے۔ان میں دیکھے کہ ہر دفعہ کام کس نے زیادہ لیے۔افسران کے منظور نظر ٹھیکیدار کون کون ہے۔اور ٹی ایم اے جھنگ کے آٹھ سب انجینیرز ہونے کے باوجود ایک ہی سب انجینئر کو سب سے زیادہ کام کیوں دیئے جاتے ہے۔آج کے جو ٹھیکیدار حضرات ہے ۔یہ وہ لوگوں ہے جن کے پاس پیسہ ہے شفارش ہے۔آج جو کام کرنے والے اچھے ٹھیکیدار ہے وہ گھروں میں بیٹھے ہیں ۔جبکہ یہ لوگ جو اپنے پیسے اور شفارش کے زور ٹھیکیدار بنے ان کو عزت بھی دی جاتی ہے۔اور یہی لوگ افسران کے بھی منظور نظر ہے۔ان لوگوں کی اگر تمام سکیمے چیک کئی جائے ۔تو آپ کو معلوم ہوگا۔کہ یہ لوگ کام کیسے کرتے ہیں۔اور اس ایک ہی سب انجینئر کو کام زیادہ کیوں دیئے جاتے ہے۔کیا ٹی ایم اے جھنگ کے افسران کو اور کوئی سب انجینئر کیوں نظر نہیں آتے۔کہ افسران نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔یا پھر دوسرے سب انجینئرز کو کام کرنا نہیں آتا۔کہ وہ سب انجینئرز صرف نام کے ہے۔یہ بھی دیکھے کہ سب سے زیادہ منظور نظر ٹھیکیدارن کی سکیمیں کس سب انجینئر کے پاس ہے۔آج کے جوٹھیکیدار ہے ۔وہ اپنا کام مکمل کر کے چلے جاتے ہیں۔تو کچھ ہی دنوں بعد ان کی بنائی جانے والی پی سی سی ۔پلی نالی وغیرہ وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکررہے جاتی ہے۔افسران کو نجانے اس سب انجینئر میں کیا کووالٹی نظر آئی ہے جو کسی اور سب انجینئر میں نہیں۔لیکن یہ سب انجینئر جس کے پاس سب سے زیادہ سکیمیں ہوتی ہے ۔وہ ڈیلی چیک کرنے کے لیے ہر سکیم پر کیسے جاتا ہوں گا۔ہاں میں بات کر رہا تھا ۔انسانیت کی ضمیر کی لیکن جب ہمارے ضمیر ہی مردہ ہوچکے ہے۔توہمارئے میں انسانیت ہی ختم ہو کر رہے گئی ہے۔آج ہم حلال حرام کی تمیز ہی بھول گئے ہے۔آج ہمارے مسلمان بھائیوں کا اگر ضمیر زندہ ہوتا ۔چند روپوں کی خاطر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو حرام گوشت نہ کھلاتے۔ملاوٹ کرنے والے ملاوٹ نہ کرتے۔اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا حق نہ کھاتے۔کسی دوست کی برائی نہ کرتے ۔کسی دوست کو داغا نہ دیتے نہ ہی اس کی پیٹھ پیچھے وار کرتے ۔اوریہ ہر سال محرم روٹز کے کام جو ہر دفعہ اکثر وہی گلیاں ہے جو بنائی جاتی ہے۔اگر افسران ٹھیکیدارحضرات سے نیک نیتی سے کام کروائے تو اس کی بنائی ہوئی پی سی سی ہو یا پھرنالی ۔پلی۔سولنگ وغیرہ جن کا ہر سال کام ہوتاہے وہ نہ ہو۔خیر جوکوئی کسی شخص کے ساتھ اچھا کرتا ہے۔اس کااجر اس کو اﷲ تعائی ضرور دتیا ہے۔انسان سے کوئی امید نہیں رکھنا چاہیے۔کسی کے ساتھ اچھا کرو۔تو بھول جاؤ اس کا اجر آپ کو اﷲ تعالی دیئے گا۔آج انسان تو یہ بھی بھول گیا ہے۔کہ ایک دن مرنا ہے ۔اور اپنے رب کے پاس واپس لوٹ کر جانا ہے۔تواس وقت اے انسان تو اپنے رب کو کیا منہ دیکھائے گا۔یہی کہ دنیا میں تو نے اپنے بھائیوں کا حق کسے کھایا ۔اپنی عہدہ کا ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کو کیسے لوٹا۔اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے جھوٹ کیسے بھولے۔اپنے ہی دوستوں کو برابھلا کیسے بولا ان کی برائیاں کیسے کی ۔نماز چھوڑ کر ناچ گانے کی محفلوں میں بیٹھ۔تو اس وقت اپنے رب کو کیا جواب دیئے گا۔کہ میں نے تیرے ہر حکم کی نافرمانی کیسے کی۔آج ہمارئے دلوں میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے لیے مونافقت کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہے۔
جاری ہے۔
Shafqat Sial
About the Author: Shafqat Sial Read More Articles by Shafqat Sial: 34 Articles with 30862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.