جمہوری نظام میں سب سے اہم کردار
عوام کا تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ عنصر ہے جس کی بدولت لوگ اقتدار میں
آتے ہیں لیکن ان کا کام عوام کی فلاح و بہبود کرنا اور معاشرے میں ترقی و
خوشحالی کیلئے راستے ہموار کرنا ہوتاہے ۔دنیا بھر کی طرح اب پاکستان میں
بھی جمہوریت کے دور کا آغاز ہوچکا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008ء سے
2013ء تک ایک مکمل جمہوری دور گزارا اور 2013ء سے اب تک میاں نواز شریف کی
حکومت حالات کے گرداب میں گری ہونے کے باوجود جمہوریت کی چھتر چھایا میں
قائم و دائم ہے ۔ 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ
ایک شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخاب تھے لیکن کچھ سیاسی جماعتوں بالخصوص
تحریک انصاف کا موقف اس کے برعکس رہا ہے ۔ پی ٹی آئی نے ان انتخابات کو فکس
میچ قرار دیا اور موجودہ حکومت کو جعلی کہنے میں کسی قسم کی حجت نہیں کی ۔
سال گزشتہ میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف 2سے زائد دن کا دھرنا دیا گیا، بعد
ازاں ملکی حالات کے پیش نظر دھرنا تو ختم کردیا گیا لیکن مزاحمت کی تحریک
بہر کیف جاری رہی اور تاحال اس کے ختم ہونے کا امکان نہیں نظر آرہا ۔تحریک
انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کے چار حلقے کھولنے کے مطالبے پر تین حلقے
کھلے اور ان پر فیصلے ہوئے اور لودھراں کا حلقہ ضمنی انتخاب سے قبل حکم
امتناعی میں چلا گیا ۔11اکتوبر کو صوبائی حلقوں سمیت قومی اسمبلی کے حلقہ
122جہاں سے 11مئی 2013ء میں سردارایز صادق نے عمران کو شکست دی تھی ، نااہل
قرار دئے تھے ، یہاں بھی ضمنی انتخاب ہوا۔ NA-122 ضمنی انتخاب میں سب سے
اہمیت کا حامل رہا ، پورے ملک کی نظریں اس حلقے پر مرکوز رہیں ۔ بنیادی طور
پر یہ ایک مقابلہ نہیں تھا بلکہ اس نے ایک معرکہ کی شکل اختیار کرلی تھی جو
وفاق اور پنجاب کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ( ن) اور اس کے خلاف گزشتہ عام
انتخابات دھاندلی سے جیتنے کے الزام میں مہم چلانے والی جماعت تحریک انصاف
کے درمیان تھا۔ ضمنی انتخاب سے قبل عمران خا ن اور ایاز صادق کا کہنا تھا
کہ وہ عوام کی عدالت میں آگئے ہیں اور اب جو بھی فیصلہ عوام کردے وہ انہیں
قبول ہوگاالبتہ تحریک انصاف کی جانب سے سیکیورٹی اور نگرانی کے انتظامات پر
تحفظات پائے جاتے تھے۔ 11 اکتوبر کو صرف NA- 122 میں ہی ضمنی انتخاب نہیں
ہوا بلکہ صوبہ پنجاب کے میں دیگر مقامات پر صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے
پولنگ کا عمل ہوا لیکن سردار ایاز صادق کیایک بار پھر عوامی عدالت میں آنے
کے باعث اس حلقے کو زیادہ اہمیت حاصل ہوئی اور سب سے زیادہ گہما گہمی اور
چرچا یہیں کا چارسو رہا ۔ الیکٹرانک میڈیا ، سوشل میڈیا سمیت ذرائع ابلاغ
کے تمام ذرائع چاہے وہ ملکی ہو ں یا بین الاقوامی یہاں ہر زاویے سے تجزیے
اور تبصرے عوام کے سامنے پیش کئے گئے الیکشن کے روز کی لمحہ با لمحہ
صورتحال سے لیکر غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج تک ( واضح رہے کہ ہمارے
یہاں ان غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کا اس طرح ابلاغ کیا جاتا ہے کہ
گویا یہی سرکاری اور حتمی نتائج ہیں ) عوام کو بریکنگ نیوز دی جاتی رہی
تاکہ لوگ اپنے عزیز لیڈر کی پوزیشن سے مکمل باخبر رہیں ۔ اس حلقے میں ایاز
صادق جانی مانی شخصیت ہیں اور بقول شخصے مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں ان کے
مقابل پی ٹی آئی کے علیم خان جبکہ پنجاب میں موجودہ نہایت غیر مقبول جماعت
پیپلز پارٹی کے بیرسٹر عامر حسن تھے۔ پی پی چونکہ اس صوبے میں زمین بوس
ہوچکی ہے لہٰذا نتائج نے اس بات پر مہر ثبت کردی کہ پی پی نے بے وجہ ایک
فضول سی کوشش کی ، اصل مقابلہ یہاں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان
تھا جسے کانٹے کے مقابلے سے تشبیہہ دیا جارہا تھا، ایاز صادق اور ن لیگ کی
جانب سے فتح یقینی قرار دی جارہی تھی لیکن جوں جوں نتائج آرہے تھے ایاز
صادق بجھے بجھے لہجے میں اپنی کامیابی کا ہونے کا اعلان کررہے تھے ۔ مکمل
نتائج نے ایاز صادق کو کامیاب قرار دے تو دیا مگر پی ٹی آئی نے مقابلہ بھی
خوب کیا اور چند ہزار ووٹوں سے شکست سے دوچار ہوئی جو اس بات کی دلیل تھی
کہ پی ٹی آئی کی اس حلقے میں مقبولیت کسی بھی طرح ن لیگ سے کم نہیں ہے ۔یہی
وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اس شکست کو تسلیم نہیں کیا اور یہاں دھاندلی کا
الزام عائد کرتے ہوئے ووٹوں کی منتقلی کو وجہ قرار دیا اور اس میں نادرا کو
ملوث قرار دیا ۔ یہاں بات قبل ذکر ہے کہ گزشتہ آٹھ ماہ دوران پی ٹی آئی نے
سات ضمنی انتخابات جن میں کراچی کا حلقہNA-248 بھی شامل جس میں متحدہ قومی
موومنٹ کا ووٹ بینک سب سے زیادہ مضبوط ہے میں بھی شکست سے دوچار ہوچکی ہے
وہاں اس نے دھاندلی کا الزام عائد نہیں کیا اور نہ ہی ایم کیو ایم کو
دھاندلی ذدہ کہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس حلقے میں ہی پی ٹی آئی کو دھاندلی
ہی کیوں نظر آتی ہے ۔ عوام کی عدالت کی بات یہاں یکسر مسترد کردی گئی ہے ۔
عوام کا فیصلہ بھی نہیں مانا جارہا حالانکہ عوام کی تکلیف کا کسی کو احساس
ہی نہیں ۔ عوام جس نے اس حلقے میں خصوصی طور اپنا کردار ادا کیا ہے اسے کسی
نے نہیں پوچھا کہ اس نے حقیقت میں کسے چنا ہے ۔ ایاز صادق چوتھی بار پھر اس
حلقے سے نامزد ہوچکے ہیں ۔ تحریک انصاف ایک بار پھر ہار چکی ہے ۔ سابق
گورنر چوہدری سرور بھی اس ناکامی کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں جو مجموعی
طور پر ایک قابل اعتماد شخصیت ہیں اس کے باوجود الیکشن کمیشن مصر ہے کہ
کوئی دھاندلی نہیں ہوئی اور ن لیگ نے میدان مار لیا ہے ۔ تحریک انصاف اور
مسلم لیگ ن کی یہ محاذآرائی تو شاید ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے مگر فکر
کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے ن لیگ کو جتوایا ہے کیا وہ لوگ اپنی بنیادی
سہولیات حاصل کرپائیں گے ۔ ان کے اجتماعی مسائل کے حل کیلئے کیا اقدامات
کئے جائیں گے ۔ بجلی کا مسئلہ ان کی زندگی سے نکل جائے گا ، روزگار کے
مواقع فراہم کرنے کی جو یقین دھانی کی گئی تھی اس پر عمل درآمد کو یقینی
بنایا جائے گا یا عوام کی عدالت صرف ووٹ کا حصول تھی جس کے بعدعوام اسی
انداز میں پھر سے اپنی زندگی کی گاڑی کو دکھیل رہی ہوگی جس طرح اس سے قبل
وہ احساس محرومی اور مشکلات سے پھر پور زندگی گزار رہے تھے۔
یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے یا پھر جمہوریت کا حسن ہے کہ جہاں جمہور کی وقعت
صرف اتنی ہے کہ چند لوگ جب عوامی مقبولیت کی بنا پر منتخب ہوکر عوامی مسائل
حل کرنے کیلئے جاتے ہیں تو وہ خود کو ان کا حکمران سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ ان
کا مقصد عوامی فلاح و بہبود ہوتا ہے ۔اب بلدیاتی انتخابات بہت قریب ہیں ،
عوام کی عدالت ایک بار پھر لگنے جارہی ہے ۔دنیا بھر میں طے ہے کہ نچلی سطح
پر اقتدار کی منتقلی سے عوامی مسائل حل ہوتے ہیں اور مقامی لوگ ہی مقامی
افراد کے مسائل حل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ مفروضہ ہمارے ملک میں
عائد کیا جاتا ہے ۔ مفروضہ کہنے کا مقصد اس لئے پیش آیا کیونکہ7دسمبر 2013ء
میں بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ہوا اور پہلا مرحلہ مکمل ہونے
کے بعد اگلے سال یعنی 31دسمبر 2014 ء کو دیگر مراحل مکمل ہوئے ، خیبر
پختونخواہ میں رواں سال بلدیاتی انتخابات ہوئے مگر کام ایک ٹکے کا نہیں ہوا
، منتخب بلدیاتی نے حلف اٹھائے ، اپنے بجٹ تیار کئے اور اپنے ایوان سے
منظور بھی کروالئے پر وتم یہ ہے کہ ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں جس کی عوام کو
ان کے بنیادی مسائل حل وتے ہوئے نظر نہیں آرہے ، دونوں صوبوں کے بلدیاتی
نمائندوں اب طے کیا ہے کہ وہ وفاق میں جاکر احتجاج کریں گے اور فنڈز حاصل
کئے جائیں گے ۔ اگر یہی صورتحال رہنی ہے تو پھر کیا ضرورت پڑرہی ہے دیگر دو
صوبوں میں بھی بلدیاتی انتخابات کا ڈھونگ رچایا جائے ۔ جب سارے کام اور
معاملات کا آخر احتجاج ہی ہے تو کیوں عوام کو ذلیل کیا جارہا ہے ۔ عوام کی
عدالت تو ہر جماعت لگوانا چاہتی ہے لیکن ان کے انصاف کیلئے کوئی منصفی نہیں
کررہا ۔ یہ لوگ کس سے منصفی چاہیں انہیں بھی اس کی خبر نہیں ۔
|