نریندر مودی کا دورہ برطانیہ۔۔تحفظات

مصدقہ اطلاعات کے مطابق نومبر کی 13 تاریخ بروز جمعۃ المبارک بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی برطانیہ آرہے ہیں۔ برطانیہ انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے دنیا کے صف اول کے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ سگے ماں باپ یا اساتذہ کرام بھی بچوں کو زود و کوب کریں تو انہیں معاف نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے خلاف باضابطہ کاروائی کی جاتی ہے۔ میاں بیوی کے مابین بھی کسی صورت ریپ ثابت ہو جائے تو سزا دی جاتی ہے۔ ان ہی برطانوی روایات کے پیش نظر دہشت گردوں کی حمایت میں بیان بازی کے نتیجے میں چند سال قبل مذہبی سکالر’’ ذاکر نائیک‘‘ کو ویزہ دینے سے انکار کردیا گیا تھا اور وہ برطانیہ نہ آسکے۔ سوال یہ ہے کہ پھر نریندر مودی کو کس طرح برطانیہ آنے کی اجازت دی جا رہی ہے جو خود دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے۔ ماضی کے جھروکوں سے کچھ افسوسناک سانحات کو ذکر کرنے سے مودی کی شخصیت کے سیاہ پہلو خود ہی آشکار ہو جائیں گے۔ 2002 میں جب نریندر مودی گجرات کا وزیر اعلی تھا تو دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا انتہائی بے دردی سے قتل عام کیا ۔ اکثریت ان لوگوں کی تھی کہ جنہیں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے پھول جیسے معصوم بچوں کے نرم و نازک جسموں پر نیزوں سے وار کیے جاتے۔ انہیں اوپر اٹھا کر فضاء میں لہرایا جاتا اور پھر دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جاتا۔ مسلمانوں کی عزت مآب ماؤں بہنوں کے ساتھ اجماعی زیادتی اور ریپ کیا گیا اور پھر ان کے وجود کے حصے بخرے کرکے انہیں آگ میں جلا دیا گیا۔ بھارت کے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ’’وی ۔این کھرے‘‘ نے نریندر مودی کو اس تمام قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایاتھا۔ لیکن افسوس اسناک صورت حال ہے کہ جسے ان بھیانک اقدامات کے نتیجے میں جسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا وہ بھارت کا وزیر اعظم بن گیا۔ نہ صرف مسلمان اور سکھ بلکہ بھارت میں بسنے والے عیسائی بھی ان تنگ نظر اور انتہا پسند نظریات کے حامل جنونی ہندووں کے زیر عتاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 31 اگست 2008 کو ’’ اڑیسہ‘‘ میں ایک سو عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔ تین سو چرچز کو آگ لگائی اور چھ ہزار ان گھروں کو تہس نہس کردیا جہاں عیسائی بستے تھے۔ جب سے مسٹر مودی بر سر اقتدار آیا ہے اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں میں روز بروز اضافہ ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے بنیادی اور پیدائشی حق کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں پر بے پناہ ظلم و ستم ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کے قتل عام اور عورتوں کے ساتھ زیادتی اور ریپ کے واقعات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کے نتیجے میں پاکستانی سرحدوں پر گولہ باری ایک معمول بن چکا ہے جس کے نتیجے میں کئی بے گناہ پاکستانی شہری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ پاک فوج کی طرف سے ان بزدلانہ کاروائیوں کا منہ توڑ جواب دیا جا رہا ہے۔ مودی سرکار کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ اور بھی دلخراش اور افسوسناک واقعات پیش آئے۔ دنیا بھر کے میڈیا نے انہیں ریپورٹ کیا یہاں تک کہ بھارتی میڈیا بھی مودی سرکار کی ان احمقانی اور ظالمانہ کاروائیوں پر بلبلا اٹھا ہے۔ بھارت کے سنجیدہ مزاج لکھاری اور مفکرین مودی سرکار کے ان اقدامات کو بھارت کیلئے بھی خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ اسی سال ستمبر کے مہینے میں دہلی کے چند میل کے فاصلے پر واقع ’’ دراوی‘‘ کے علاقے میں ایک مسلمان اخلاق احمد کے ساتھ انتہائی بہیمانہ سلوک کیا گیا۔ اپنے مندروں سے اعلان کیے گئے کہ اخلاق احمد کے گھر ان کی فرج میں گائے کا گوشت پڑا ہوا ہے۔ سو سے زیادہ’’ شیو سینا ‘‘کے جنونی ہندووں نے رات کو اخلاق احمد کے گھر پر دھاوا بول دیا ۔ پتھراؤ کے نتیجے میں وہ شہید ہوگیا جبکہ اس کا بیٹا شدید زخمی حالت میں ہے۔ اسی انتہا پسندی کے تسلسل کے طور پر ایک واقعہ اسی ماہ ( یعنی اکتوبر) میں پیش آیا۔ نعمان نامی ایک بیس سالہ نوجوان اپنا سامان تجارت کی غرض سے لیجا رہا تھا۔ انتہا پسند تنظیم ’’ بجرنگ دل‘‘ کے نوجوانوں نے اس لئے حملہ کردیا کہ اس کے ٹرک میں ایک گائے بھی ہے جو ان کی ماتا یعنی ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی بنا پر اس نوجوان پر اس قدر تشدد کیا گیاکہ وہ جان کی بازی ہار گیا اور اس کے کاروباری ساتھی شدید زخمی ہو گئے۔ اسی ماہ اکتوبر کی بارہ تاریخ کو ’’شیو سینا‘‘ کے غنڈوں نے انتہا ہی کردی۔ ہوا یوں کہ بھارت کی ایک معروف اور سنجیدہ فکر شخصیت ’’سدھیندر کلکرنی‘‘ نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کو کتاب کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں بھارت مدعو کیا۔ اس تقریب میں ’’سدھیندر کلکرنی‘‘ کامنہ کالا کردیا گیا۔ حقیقت میں انہوں نے یہ کالک محترم ’’سدھیندر کلکرنی‘‘ کے چہرے پر نہیں بلکہ مودی سرکار کے مکروہ چہرے پر ملی ہے جو سیکولر بھارت کے راگ الاپتے نہیں تھکتے لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہے کہ انڈیا کا میڈیا بھی اپنی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ مودی حکومت کی ان ستم ظریفانہ پالیسیوں اور تنگ نظری پر مبنی اقدامات کے نتیجے میں بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آشکارہ ہو چکا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مودی کے’’ لندن یاترا‘‘ کے موقع پر جملہ پاکستانی و کشمیری تنظیمات نے اجتماعی طور پر 13 نومبر کو شام چھ بجے سے نو بجے تک’’ ویمبلے ارینا ‘‘ جہاں مودی کا پروگرام ہو گا اس کے سامنے بھرپور احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ احتجاج کسی ایک جماعت یا تنظیم کے جھنڈے تلے نہیں بلکہ سب کی مساوی شراکت کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے۔ کسی جماعت کا نہیں بلکہ جھنڈا صرف کشمیر کا ہو گا۔ مودی کو دعوت برطانیہ میں مقیم بھارتی کاروباری برادری نے دی ہے۔ اس وقت پاکستانی و کشمیری پس منظر سے تعلق رکھنے والی ہزاروں کی تعداد میں کاروباری شخصیات برطانیہ و یورپ میں موجود ہیں۔ غیرت ملی ، حب الوطنی اوراخوت و بھائی چارے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھی اس احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اپنے اپنے علاقوں سے بسیں اور کوچز بک کروا کے احتجاج کو کامیاب کرائیں۔ خدا نا خواستہ ناکامی بیک فائر اور بدنامی کا سبب بھی بن سکتی ہے جو کہ ہم سب کیلئے باعث شرمندگی ہوگا۔ لوگوں کو بھی زیادہ سے زیادہ گھروں سے نکل کر جس طرح بھی ممکن ہو اس احتجاج میں شرکت کریں۔ بقول احمد فراز
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219611 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More