6 نومبر یومِ شہداﺀ کشمیر

تحریر: شمائلہ جاوید بھٹی

جہاں تک تحریک آزادی کشمیر کا تعلق ہے تو بھارت ساڑھے سات لاکھ کے بجائے پندرہ لاکھ فوج بھی کشمیر بھیج دے جدوجہد آزادی ختم نہیں ہوسکتی۔ 13جولائی 1931 کے شہدا کشمیر سے لیکر آج تک کشمیری قوم بھارتی فوج کے ظلم و جبر کیخلاف جدوجہد آزادی کررہی ہے حالانکہ ہم بھارت سے اس کا کوئی جائز حصہ الگ نہیں کرانا چاہتے بلکہ ہم آزادی جموں و کشمیر کیلئے اسی طرح جدوجہد کررہے ہیں جس طرح ہندوستان کی آزادی کیلئے بھارت نے انگریزوں کیخلاف تحریک چلائی تھی۔ دنیا اور پاک و ہند کے حالات یہ تقاضا کررہے ہیں کہ جہاں کہیں بھی تنازعہ ہے اور جہاں کہیں بھی کوئی قوم اپنے پیدائشی حق سے طاقت کی بنیاد پر محروم کی جارہی ہو وہ حق ان کا بحال کیا جائے۔ دنیا کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے امن و آتشی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے جموں و کشمیر کے ایک کروڑ 30 لاکھ عوام کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دیا جانا چاہئے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ ہماری تحریک جدوجہد آزادی جاری ہے اس میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ ہندوستان کا غیر حقیقت پسندانہ رویہ جموں و کشمیر کے بارے میں اور ہندوستان نے جو یہاں ساڑھے سات لاکھ سے زائد فوج بٹھا رکھی ہے۔ ہندوستان صرف طاقت کی بنیاد پر اس خطے پر قابض رہنا چاہتا ہے۔

مجھے پختہ یقین ہے کہ اﷲ تعالی حالات ہمارے حق میں بدلے گا اور ہم لازما بھارتی فوجی تسلط سے آزاد ہو جائیں گے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ آخر کار ہندوستان میں بھی باضمیر لوگ جاگیں گے اور ہماری حمایت کرینگے۔ عالمی سطح پر بھی لوگ مالی مفادات کے نیچے دبے نہیں رہیں گے۔ ہم اپنا حق استعمال کرکے بھارتی جبر و تسلط سے آزادی حاصل کرکے رہیں گے۔ اس کا مجھے پختہ اور ناقابل شکست یقین ہے۔
2010 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں جو قتل و غارت گری جاری ہے آخر اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے یہ دنیا کو دیکھنا ہوگا۔ بھارت نے جو بے تحاشا طاقت کا استعمال کرکے 118 کشمیری نوجوانوں کو اور ان میں خواتین بھی شامل ہیں جنہیں بے رحمی کے ساتھ شہید کیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن آخر کب تک؟ یقینا آزادی کشمیر تک جو کشمیریوں کا مقدر ہے اور میرا یقین کامل بھی۔

آزادی کشمیر 13جولائی کے شہدا کشمیر کے مقدس لہو کا پیغام بھی ہے اور قابض بھارت کیلئے نوشتہ دیوار بھی، بھارتی فوج سینکڑوں مساجد شہید کرچکی ہے۔ بھارتی سیکولر ازم کا اصل چہرہ کشمیر میں بے نقاب ہو چکا ہے۔ مغربی ممالک محض مسلمانوں سے دشمنی اور بغض کی وجہ سے خاموش ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں تو بے جانہ ہوگا جس طرح اسرائیل فلسطین کے مقدس قبلہ اول سمیت مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرتا ہے اسی طرح بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرتا ہے۔ دونوں نے ناجائز طور پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہا رہے ہیں مگر آزادی کی تحریک نئی نسل کو منتقل ہو چکی ہے۔ اس کو بھارت اپنے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے روک نہیں سکتا۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے حکمران اشرافیہ امریکہ اور مغرب نوازی کے خول سے نکلے اور اﷲ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا عزم کرے۔ ایسا ہو جائے تو پوری امت بھی اور عالم انسانیت بھی ہمارے برحق موقف کی تائید پر مجبور ہوگا اور بھارت تحریک کی داخلی مزاحمت اور خارجہ دباؤ کی تاب نہ لاکر کشمیر کو یقینا خیر باد کہنے پر مجبور ہو گا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ظالمانہ پالیسی نئی بات نہیں، خالی کئے جانے والے مختلف بھارتی فوجی کیمپوں سے اجتماعی قبروں کی دریافت بڑی ظالمانہ کارروائیوں کا معمولی حصہ ہے جو بے نقاب ہوا ہے۔ بدمعاش بھارتی فوج جو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے جس نے اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق تحریک آزادی جاری رکھنے والے بے گناہ کشمیری عوام کا منظم قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ ہزاروں کشمیریوں کے قتل عام کی مرتکب بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں مذہبی مقامات اور گھروں کو آگ لگانے کا بدترین ریکارڈ بھی رکھتی ہے۔ اجتماعی قبروں کی دریافت سے واضح ہو گیا ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور میڈیا کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت کیوں نہیں دیتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سینکڑوں کشمیریوں کے قتل عام میں ملوث بھارتی فوج کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ انٹرنیشنل کریمنل ٹربیونل میں چلایا جائے اور ایک بھرپور مہم کے ذریعے عالمی برادری کو اس مہم سے آگاہ کیا جائے تاکہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد انسانیت سوز مظالم اور قتل عام کے ذمہ داروں کو سزا ملے۔

حقیقت یہ ہے کہ پانی کا مسئلہ دراصل مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت سے نہ تجارت کا جواز ہے نہ ضرورت کیونکہ مسئلہ کشمیر جو کہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی فلش پوائنٹ ہے اس کے حل کے بغیر بات نہیں بن سکے گی۔ امن کی آشا تبھی کامیاب ہوگی جب مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوگا۔ پاک بھارت مذاکرات کو جامع مذاکرات کا نام دیا جائے یا صرف مذاکرات لیکن کشمیر کو بنیادی مسئلے کے طور پر ایجنڈے میں سرفہرست رکھے بغیر بات نہیں بنے گی۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 95124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.