وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی
طرف سے سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو اپنا مشیر مقرر کیے جانے کے
باوجود پیپلز پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے انہیں قومی اسمبلی کے حلقہ این
اے178 کے لیے دوبارہ ٹکٹ دے دیا جبکہ وزیر اعظم کے بھائی احمد مجتبیٰ
گیلانی کو ٹکٹ نہ مل سکا۔ جمشید دستی کو ایک ماہ قبل ہی مدرسہ کی جعلی سند
پر الیکشن لڑ کر کامیاب ہونے کے بعد ان کی بددیانتی اور جعلسازی ثابت ہو
جانے پر سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیتے وقت مستعفی ہونے کی مہلت دی تھی جس
پر انہوں نے اسمبلی رکنیت سے استعفی دے دیا تھا۔ اس واقعہ کو میڈیا میں
رپورٹ بھی کیا گیا جس پر پی پی رہنماﺅں نے مختلف مؤقف اپنا کر پی آڑ
اسریٹجی کے تحت اسے مبہم بنانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔
جمشید دستی کو دوبارہ سے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دینے اور پارٹی ٹکٹ
جاری کرنے کا فیصلہ ناصرف اس تناظر میں اہمیت رکھتا ہے کہ ایک ایسا فرد جو
خود اپنا جرم اور جعلسازی تسلیم کر چکا ہو اسے دوبارہ سے عوامی نمائندگی کے
قابل کیوں تسلیم کیا گیا بلکہ اس میں اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ جس اعلیٰ
سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا کیا وہاں بھی اخلاقی قدروں، آئین و قانون کی
بالادستی اور عوامی نمائندگی کے لئے کوئی معیار باقی نہیں بچا۔ جمشید دستی
اور نزیر جٹ کو پارٹی ٹکٹ دینے کا فیصلہ پیپلز پارٹی کی ضلعی یا مقامی
قیادت کی جانب سے نہیں کیا گیا جسے یہ علم نہ ہوتا کہ جمشید دستی کو سپریم
کورٹ نے ان کی اسناد جعلی ثابت ہونے پر نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد وہ
اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہوئے تھے۔ بلکہ ایوان صدر کے ترجمان کے مطابق جمعہ
کو رات گئے تک جاری رہنے والے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس کی
صدارت شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کی۔ جس میں وزیر اعظم یوسف رضا
گیلانی٬ پارلیمانی بورڈ کے اراکین راجا پرویز اشرف٬ رحمن ملک٬ عبدالقیوم
جتوئی٬ فریال تالپور٬ جہانگیر بدر٬ بابر اعوان٬ راجا ریاض احمد٬ تنویر اشرف
کائرہ٬ محمود خان٬ رانا آفتاب احمد٬ اقبال باجوہ٬ عاشق بلوچ٬ رخسانہ بنگش٬
فوزیہ وہاب اور فوزیہ حبیب نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ
نزیر جٹ اور جمشید دستی کو انتخابات میں حصہ لینے کے لئے پارٹی ٹکٹ دیا
جائے گا۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کی طرف سے جعلی ڈگری ثابت ہونے پر نا
اہل قرار دیے جانے کے باوجود پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے178
مظفر گڑھ سے ایک بار پھر جمشید دستی کو ہی ٹکٹ دے دیا ہے جبکہ ان کے بھائی
جاوید خان دستی ان کے کورنگ امیدوار ہوں گے۔
جمشید دستی کی دینی تعلیم کی سند کے خلاف دائر مقدمے کی سماعت چیف جسٹس
افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے کی تھی۔
پیپلزپارٹی مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے
کھیل کے سربراہ جمشید خان دستی اپنے اوپر جعلی ڈگری رکھنے کے مقدمہ میں
عدالتی سوالوں کے جوابات نہ دے سکے تھے۔ جمشید دستی مقدمے کی سماعت کے
دوران ججوں کے تندو تیز سوالوں کے جوابات نہ دے سکے۔ جسٹس خلیل الرحمان
رمدے ان سے قرآنی پاروں اور سورتوں اور ریاضی کا پہاڑہ پوچھتے رہے۔ ایک
موقع پر جمشید دستی نے قرآن کی پہلی دو سورتوں کے نام غلط بتائے جبکہ وہ
اپنی دینی مدرسے کی سند کے تعلیمی دورانیے کا بھی جواب نہ دے سکے۔ اس پر
جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ آپ قومی اسمبلی کے پورے ایوان کی بے عزتی کا باعث
بنے۔ جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ ہم نے فیصلہ دے دیا تو آپ ضمنی الیکشن بھی
نہیں لڑ سکیں گے۔ عدالت نے فیصلہ سنانے سے قبل انہیں مستعفی ہونے کی مہلت
دی تو جمشید دستی نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دینے پر آمادگی ظاہر
کردی۔ وہ ضلع مظفر گڑھ کے حلقہ این ا ے 178 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے
تھے۔
ان کے مستعفی ہونے کے بعد پہلے اس نشست پر وزیر اعظم کے بھائی احمد مجتبیٰ
گیلانی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اسی وجہ سے وزیر اعظم نے
جمشید دستی کو اپنا مشیر بھی مقرر کر دیا تھا تاکہ ان کے بھائی کو ٹکٹ دینے
میں مشکل پیش نہ آئے تاہم پیپلز پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے وزیر اعظم کے
بھائی کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ مسترد کر دیا اور دوبارہ جمشید دستی کو ہی
میدان میں لانے کا فیصلہ کیا۔ پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں ہی مسلم لیگ (ق)
کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے نذیر جٹ کو قومی اسمبلی کے حلقہ
این اے 167 وہاڑی سے پارٹی ٹکٹ دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ جن کے کورنگ
امیدوار کے طور پر ارشاد آرائیں کو نامزد کیا گیا ہے۔ اسی اجلاس کے دوران
پیپلز پارٹی کے رانا آفتاب کو پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی 63 سے پارٹی ٹکٹ دیا
گیا۔
پنجاب اسمبلی کے حلقہ259 سے اللہ وسایا چنوں خان لغاری کو پارٹی ٹکٹ دیا
گیا۔ سمیع اللہ ان کے کورنگ امیدوار ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل
جہانگیر بدر نے بورڈ کے امیدواروں کے پروفائل پیش کیے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا
گیا کہ وزیر اعظم کے بھائی احمد مجتبیٰ گیلانی اور جمشید دستی کاغذات
نامزدگی جمع کرانے ساتھ جائیں گے جبکہ صدر آصف علی زرداری نے جہانگیر بدر
اور دیگر رہنماﺅں کو ہدایت کی ہے کہ احمد مجتبیٰ گیلانی کی خدمات کو دوسرے
اہم شعبوں میں استعمال کیا جائے جس کے بعد انہیں نئی ذمہ داریاں دیے جانے
کا امکان ہے۔ علاوہ ازیں سرکٹ ہاﺅس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق رکن
قومی اسمبلی و سابق چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے اسپورٹس جمشید احمد خان دستی
نے کہا ہے کہ مجھے خوشی ہے کہ پارٹی نے مجھے ٹکٹ دیا٬ ضمنی الیکشن میں میرا
مقابلہ فرعونوں کے ساتھ ہوگا اور میں اپنے مخالفین کو سابق الیکشن کی نسبت
دگنے ووٹوں سے شکست دوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی نے وزیر اعظم کے بھائی
سید مجتبیٰ گیلانی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہی نہیں کیا تھا۔
جمشید دستی کی جانب سے سامنے آنے والے مؤقف، صدارتی ترجمان کی تصدیق اور
پیپلز پارٹی ذرائع کی جانب سے اس فیصلے کی اعلانیہ حمایت نے ایک بار پھر
جمہوریت پر یہ سوالیہ نشان لگایا ہے کہ کیا یہ نظام ملک چلانے کے لئے ہے یا
چند افراد اور گروہوں کی خواہشات پورا کرنے کا ذریعہ؟ یقیناً اس کا جواب سب
جانتے ہیں لیکن پھر بھی ارباب اختیار کے منہ سے سننا چاہتے ہیں۔
عدالت عالیہ کی جانب سے نااہل قرار دئے گئے فرد کو ایک بار پھر ٹکٹ دے دینا
ایسا ”کار خیر“ہے جس میں پیپلز پارٹی اکیلی شامل نہیں بلکہ اس حمام میں ن
لیگ بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو کر یہ ثابت کر رہی ہے کہ عدلیہ
بحالی کے لئے کی جانے والی کوششیں بہر قیمت تیسری بار وزیر اعظم بننے کا
جواز پیدا کرنے کو تھیں وگرنہ جھنگ کی صوبائی نشست سے عدالتی حکم پر
جعلسازی ثابت ہو جانے کے بعد محروم کئے جانےو الے اعظم چیلہ کو الیکشن لڑا
کر کامیاب نہ کروایا جاتا۔ واضح رہے کہ ن لیگ کی جانب سے جھنگ سے الیکشن لڑ
کر کامیاب ہونے والے اعظم چیلہ پہلے بھی اسی نشست سے کامیاب ہو کر رکن
پنجاب اسمبلی بنے تھے، تاہم ان کے خلاف درج کئے گئے کیس میں ان کی وہ سند
جعلی ثابت ہو گئی تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے اپنے آپ کو بی اے قرار دے کر
الیکشن لڑنے کا اہل بنایا تھا۔ اس جعلسازی کی تصدیق ہونے کے بعد لاہور ہائی
کورٹ نے انہیں نا اہل قرار دیا تھا مگر ن لیگ کی قیادت نے عدالتی فیصلے کا
کھلے عام مذاق اڑاتے ہوئے اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود انہی کو ناصرف
دوبارہ پارٹی ٹکٹ دیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر صوبائی وزیر قانون پنجاب کی
سطح کے حکومتی منصب پر فائز پارٹی رہنما رانا ثناء اللہ کو ان کی انتخابی
مہم کا نگران مقرر کیا۔ جنہوں نے انتہائی متنازعہ بن جانے والا الیکشن مہم
کے بعد بالآخر اعظم چیلہ کو کامیاب تو قرار دلوا دیا۔ لیکن وہ یہ ثابت کر
گئے کہ جمہوریت کے استحکام، عدلیہ کی آزادی، آئین کی بالادستی اور قانون کی
حکمرانی کے خوشکن اعلانات کا مقصد عوام کو بے وقوف بنانے اور اپنے گروہی
مفادات حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
قارئین کو بخوبی یاد ہوگا کہ جب ن لیگ کی جانب سے یہ فیصلہ سامنے آیا تو
پیپلز پارٹی کی فوزیہ وہاب سمیت متعدد دیگر ارکان اسمبلی اور رہنماﺅں نے اس
پر ن لیگ کی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ن لیگ محض
صوبائی اسمبلی کی ایک نشست جیتنے کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کر
رہی ہے۔ اس دوران ٹی وی ٹاک شوز میں پی پی رہنماﺅں کی جانب سے ن لیگ اور
اسکی قیادت پر تابڑ توڑ حملے بھی کئے گئے، جن کا لب لباب یہی تھا کہ عدالت
کی جانب سے نااہل قرار دئے گئے فرد کو دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی
جائے۔
تاہم اب جب کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے خود ایسا فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے
کرنے والوں میں کوئی ایک فرد نہیں بلکہ صدر مملکت سمیت تمام پارٹی رہنما
شامل ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس کے جواز میں کیا منطق تراشتے ہیں۔
تراشنے کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ غیر منطقی اور لایعنی کاموں کو سند
جواز بخشنے کے لئے تاویلیں گھڑنا پڑتی ہیں اصول اور قانون ان کو سند توثیق
نہیں بخشتے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی عوام کے سامنے اس بات کی کیا توجیع کریں
گی کہ عدالتی فیصلہ کے باوجود انہی لوگوں کو الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ دے کر
انہوں نے ملک کی کون سی خدمت کی ہے۔ اسی پر اکتفا کیا جائے گا یا آنے والے
وقت میں قوم کو جمہوریت کی آڑ میں مزید کیا کیا تماشے دیکھنا پڑتے ہیں، ہم
بھی دیکھتے ہیں، آپ بھی دیکھیں مگر تبدیلی حالات کے لئے کوشش شرط ہے۔ |