پرویز مشرف کی حب الوطنی ملک میں
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اضافے کا سبب ہے .....؟
ملک کی تباہی کے ذمہ دار ضیا الحق کا پہلے اسلام ...... اور پرویز مشرف کی
پہلے پاکستان کا نعرہ ہے
اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ لولی لنگڑی جمہوریت کسی بھی تندرست اور توانا
آمریت سے لاکھ لاکھ درجے ضرور بہتر ہوتی ہے مگر اُس جمہوریت کا ہی بھلا کیا
کیا....جائے؟ جو ایک تو پہلے ہی لولی لنگڑی ہو اور پھر اُس پر آمریت کی
آمیزش کا مرچیوں والا تڑکا لگا ہو بلکل ایسے ہی جیسے کہنے کو تو اِن دنوں
ہمارے ملک میں بھی ایک لولی لنگڑی ہی جمہوریت صحیح مگر افسوس کی بات تو یہ
ہے کہ اِس کے باوجود بھی ہمارے ملک کی اِس جمہوری حکومت کے جمہوری صدر کی
سوچوں پر کسی آمر کی سوچوں اور قول و فعل والا آمرانہ پن کا تڑکا لگا ہوا
ہے۔
جس سے صاف طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے ہمارے موجودہ صدر اب بھی آمر مشرف کی روح
کے آسیب میں جکڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے کبھی کبھی صدر کی جانب سے یکذمبیشِ
قلم ایسے ایسے احکامات بھی جاری ہوجاتے ہیں کہ جس سے جمہوریت پسندوں اور
ملک کی ساڑھے سولہ کروڑ عوام کو بھی ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے ملک
کی اِس کمزور اور ناتواں جمہوریت کے قدم اَب اکھڑنے کو ہیں اور یوں ہی
جمہوریت کا یہ قدم ذرا سا بھی لڑکھڑایا یا ڈگمگایا تو کہیں ایسا نہ ہوجائے
کہ ملک میں اِس رہی سہی جمہوریت کا شیرازہ ہی بکھر کر رہ جائے۔
بہرکیف! صدر کی جانب سے گاہے بگاہے آنے والے بعض احکامات کے ساتھ ہی یہ شک
تو ضرور ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک کے موجودہ صدر جناب عزت مآب آصف علی
زرداری اِن دنوں جمہوریت کے سائے میں صدر بننے کے باوجود بھی سابقہ آمر صدر
پرویز مشرف کے آمرانہ طور طریقوں اور احکامات سمیت اُن کے قول و فعل کے
پوری طرح سے جھپیٹے میں ہیں۔
مگر یہاں میرا خیال یہ ہے کہ ملک میں مکمل طور پر ایک اچھی اور پائیدار اور
مستحکم جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ پہلے تو صدر
مملکت کو پرویز مشرف کے آمرانہ اقدامات، احکامات سمیت اُن کے دورِ حکومت
میں کئے گئے معاہدوں کے جادوئی اثر اور جھپیٹوں سے نجات دلوائی جائے تو پھر
یہ اُمید رکھی جائے کہ صدر آصف علی زرداری بھی ملک کے کسی سول اور جمہوری
صدر کی طرح جمہوری سوچ کے حامل صدر ثابت ہوں گے اور یہ ایسے اقدامات کریں
گے اور احکامات بھی جاری کریں گے جو کسی بھی ملک کا کوئی بھی جمہوری صدر
اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی اور اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیا کرتا
ہے۔
اِس کے بغیر یہ آس رکھنا کہ صدر مملکت مندرجہ بالا باتوں کے باوجود ملک میں
جمہوریت کے لئے اپنا کردار ادا کر پائیں گے یہ آس اِن سے وابستہ کرنا فضول
ہوگی جس سے کچھ بھی حاصل نہ ہوسکے گا کیونکہ جب تک صدر مملکت آمر صدر پرویز
مشرف کے جھپٹے اور اِن کے جادوئی اثر میں رہیں گے تو یہ کسی سول اور جمہوری
صدر کی طرح ملک اور قوم کے لئے کچھ بھی نہیں کر پائیں گے اور اِن سے اچھی
کی امید رکھنا فضول ہوگا۔
ہاں البتہ! جب تک کہ یہ خود جمہوریت کا منتر پڑھتے پڑھتے اپنے اندر سے آمر
پرویز مشرف کی روح کو نہیں نکال پھینکتے تو اُس وقت تک یہ ملک اور قوم کے
لئے کچھ اچھا نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ اِن کی حکومت کا گزشتہ سوا دو سال کا
عرصہ تو یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اِنہوں نے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا اور شائد
اگر یہی حال رہا جو ابھی ہے تو اِن کی یہ حکومت آئندہ بھی عوام کے لئے کچھ
بھی نہ کرسکے اور اپنی پانچ سالہ مدت یہ کہتے ہوئے کہ اگر عوام نے ایک بار
پھر ہمیں حکومت کا موقع دیا تو ہم عوام کے لئے اِس بار تو ضرور اپنے روٹی،
کپڑا اور مکان والے منشور نما نعرے پر پوری طرح سے عمل کر دکھائیں گے
خاموشی سے رخصت ہوجائے گی۔ اور پھر عوام بھی سوچیں گے اور میں یہ سمجھتا
ہوں کہ عوام کو سوچنا بھی چاہئے کہ یہ پھر اِس حکومت کو اقتدار میں آنے کا
موقعہ فراہم کریں یا نہ کریں.......؟جو صرف اپنے عمل سے زیادہ عوام کو
جھوٹی تسلیوں اور وعدوں کے گول گھمایوں میں ہی اپنی مدت پوری کرجاتی ہے۔
اگرچہ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے آگے پیچھے..... اور پیچھے
آگے دو ایسے سابق آمر حکمران گزرے ہیں جن کے نام ضیا الحق اور پرویز مشرف
ہیں اِن دونوں میں صرف یہ ہی فرق تھا کہ ضیا الحق نے امریکا کے کہنے پر
پہلے اسلام کا نعرہ بلند کر کے افغان روس کی جنگ میں جہادیوں کی مدد کر کے
ملک کا ستیاناس کیا تو اِن کے بعد آنے والے ملک کے دوسرے بڑے فاسق و فاجر
آمر صدر پرویز مشرف نے امریکا کے ہی کہنے پر اپنے پیش رو ضیاالحق کے
پیداکردہ جہادیوں کو ٹھکانے لگانے (مارنے اور مروانے ) کے لئے پہلے پاکستان
کا نعرہ لگا کر ملک کا بیڑا غرق کیا اور آج اِن ہی دونوں آمروں ضیا الحق
اور پرویز مشرف کی ہی اپنی لگائی ہوئی یہ آگ ہے کہ جس میں جل کر ملک بھسم
ہو رہا ہے۔
اِس پر ستم ظریفی یہ کہ آج بھی ملک کے سابق آمر صدر جنرل (ر)پرویز مشرف یہ
کہہ رہے ہیں کہ پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے (اِسے یہاں تک پہنچانے
میں اِن ہی کا تو ہاتھ ہے یہ اَب کس منہ سے ملک کی تباہی پر افسوس اور
مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں) اِن کا کہنا ہے کہ میرے دور ِحکومت میں ایک
امریکی ڈرون حملہ ہوتا تھا اور اِب اِس جمہوری حکومت کے جمہوری صدر کے دور
میں روزانہ درجنوں ڈرون حملے ہورہے ہیں اور نہ صرف اُنہوں نے حکومت پر یہ
کہتے ہوئے سخت ترین تنقید ہی کی ہے بلکہ اُنہوں نے یہ تک بھی کہہ دیا ہے کہ
ملک کے موجودہ حکمران بھی نااہل ہیں جو ڈرون حملے بھی نہیں رکوا پا رہے ہیں
مجھے عوامی تکالیف کا پورا پورا احساس ہے اور میں آنے والے الیکشن میں
بھرپور طریقے سے حصہ لوں گا اور دو ماہ بعد ہی میں اپنے اِس ارادے کو عملی
جامہ پہنانے کے لئے اسلام آباد اور لندن سے اپنی سیاسی جماعت کا اعلان کرنے
والا ہوں اور اُنہوں نے ایک بار پھر یہ کہا کہ ملک میں مہنگائی اور
لوڈشیڈنگ نے موجودہ حکمرانوں کی نااہلی ثابت کردی ہے اور اِس وقت پاکستان
ساری دنیا میں اکیلا رہ گیا ہے۔
اگرچہ اِس سے انکار نہیں کہ ہر دور آمریت میں ہمارے ملکی مسائل ہر گزرتے دن
اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی گئے ہیں مگر کسی بھی آمر حکمران نے اپنے دور
اقتدار میں اِن مسائل کی گتھی کو بجائے سلجھانے کے الٹا اِن کو الجھاتا ہی
رہا ہے اور پھر اِسی حال میں اپنا اقتدار چھوڑ گیا ہے یا مار دیا گیا ہے۔
اور آج ملکی کی معیشت کا جو حشر ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ
ملکی معیشت کا کیا برا حال ہے اِس کا اندازہ اِس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ
ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ حکمرانوں کو
کشکول ہاتھ میں اٹھائے بھیک مانگنے کے لئے بیرونی ممالک اپنے آقا امریکا،
برطانیہ اور فرانسیسی سمیت اپنے مسلم ممالک کے دوروں پر نہ نکلنا پڑا ہو۔
اور اِس پر ستم ظریفی یہ کہ ہمارے حکمران بھی اپنی اتنی بے خبر اور لاتعلقی
کا بھی بعض مرتبہ مظاہر کر جاتے ہیں کہ عوام کو اِن کی حب الوطنی اور عوام
دوستی پر شک ہونے لگتا ہے کہ یہ کیسے .....؟ حکمران اور حاکم ہیں کہ اِنہیں
یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ اِن کے ملک کے عوام کس حال میں ہیں اور یہ کس حال
میں اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں ......؟اور اِن کے ملک کے عوام پر
اِن کی ناقص منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کی وجہ سے یہ منہ زورآور بے لگام
مہنگائی کیا..... کیا....؟قیامت ڈھا رہی ہے۔
بہرحال اَب میرے قارئین! آپ اِس ہی کو لے لیجئے! کہ آج ہمارے ملک میں
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسان سے جو باتیں کررہی ہیں اس کے پیچھے بھی ملک
کے اُن آخری فاسق و فاجر آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کی امریکیوں اور نیٹو
افواج پر کی جانے والی مہربانیاں ہی کار فرما ہیں کہ اِس کے زہریلے ثمر نے
قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے کہ جو اُنہوں نے اپنے اقتدار کو طول
دینے اور امریکیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایک معاہدے کی تحت کی تھی۔
جس کا احوال ڈائریکٹر جنرل آئل کے بیان کی شکل میں گزشتہ دنوں ملکی اخبارات
میں چھپنے والی اُس خبر میں کھولا کہ ”پرویز مشرف کے دور میں افغانستان میں
کئی ملکوں کی اتحادی نیٹو کی افواج کے ساتھ اِنہیں پاکستان سے سستے تیل کی
فراہمی کا ایک انتہائی حیرت انگیز معاہدہ کیا گیا تھا جس پر اِن سطور کے
رقم کرنے تک جوں کا توں عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اِس معاہدے میں یہ تہہ پایا
تھا کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں مگر افغانستان میں جب تک بھی اتحادی نیٹو
افواج رہیں گیں۔ پاکستان ہر حالت میں اِنہیں 24روپے اڑتیس پیسے فی لیٹر کے
نرخ پر تیل دیتا رہے گا اور اِس پر نہ صرف یہ بلکہ اِس معاہدے میں فاسق و
فاجر اور آمر پرویز مشرف کی جانب سے یہ بھی ایک خصوصی پیشکش کی گئی تھی کہ
اِس قیمت پر کبھی بھی اور کسی بھی قسم کا کوئی ٹیکس، سرچارجز سمیت ڈیلروں
کا کمیشن یا اِسے پہچانے کے لئے کرایہ بھی وصول نہیں کیا جائے گا۔
جبکہ دوسری طرف مشرف سمیت موجودہ حکمرانوں نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں
میں کمی ہونے کے باوجود بھی پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
کبھی بھی تُرنت اُس طرح سے کمی نہیں کی گئی جس طرح اِس کی قیمتوں میں اضافے
کا اطلاق فوری طور پر کر دیا جاتا ہے اور آج یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں
نیٹو افواج کو 24روپے اڑتیس پیسے فی لیٹر کے نرخ اور بغیر ٹیکس کے سپلائی
ہونے والے تیل کا سارا بوجھ بھی پاکستانی قوم پر ڈال دیا گیا ہے اور
پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے صارفین سے28سے 30 روپے تک اضافی ٹیکس وصول
کرکے اِس کی قیمت 73 روپے تک پہنچا دی گئی ہے۔
اِس ساری صُورتِ حال کے بعد بھی اگر موجودہ جمہوریت پسند حکمران اگر اَب
بھی اِس جانب توجہ نہ دیں اور ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم نہ کریں
تو پاکستانی عوام کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا اور اِس کے ساتھ یہ کہ اگر ہمارے
صدر مملکت جناب آصف علی زرداری اَب بھی امریکا سے دورِ مشرف کا یہ معاہدہ
منسوخ کردیں کہ ہماری یہ حکومت کسی بھی حوالے سے اِس معاہدے پر اُس طرح عمل
نہیں کرے گی جو دورِ مشرف میں کیا گیا تھا اور اِس کے ساتھ یہ بھی کہ اگر
امریکا کو اَب واقعی پاکستان کے راستے اتحادی نیٹو افواج کو تیل کی سپلائی
جاری رکھنی ہے تو پاکستان اِنہیں تیل اُسی قیمت اور تمام ٹیکسز بشمول کرائے
کے ساتھ دے گا جو قیمت ہمارے ملک پاکستان میں تیل کی ہوگی بصورتِ دیگر
ہماری حکومت مشرف دور کا یہ معاہدہ منسوخ کرتی ہے۔
تو یقین کیجئے قارئین حضرات! یہ سُنتے ہی امریکا کی مائی مر جائے گی اور وہ
اِس پر بھی راضی ہوجائے گا جو حکمران ِ پاکستان امریکا سے کہیں گے اور
امریکا اپنا سر خم کرتے ہوئے پاکستان کے وہ تمام کے تمام مطالبات مان بھی
جائے گا اِس بابت پاکستان جو امریکا سے کرے گا کیونکہ اَب امریکا افغانستان
میں بُری طرح سے پھنس چکا ہے اور وہ اپنی فتح کے لئے وہ سب کچھ کر گزرنے کو
بھی تیار ہے جس سے اِس کی فتح یقینی ہو۔
مگر شرط تو صرف یہی ہے کہ ہمارے حکمران اپنے اندر ہمت پیدا کریں اور امریکا
سے وہ سب کچھ کہہ ڈالیں جو اِنہیں کہنا ہے مگر افسوس کہ یہ امریکا سے کہہ
تو نہیں سکتے کیونکہ یہ امریکا سے اپنی حکمرانی کے لئے بھیک جو مانگ کر آئے
ہیں اور ویسے بھی ہمارے موجودہ صدرِ مملکت میں سابق صدر آمر جنرل (ر) پرویز
مشرف کے جادوئی اثر میں ہیں اور مشرف کی آمرانہ روح اِن کے اندر گھسی بیٹھی
ہے اور اِس لحاظ سے جب کوئی آمر اپنے آخری وقت تک امریکا کے سامنے اپنا منہ
نہیں کھول سکتا تو بیچارے زرداری صاحب امریکا کے آگے اپنی زبان بھلا کیسے
کھول سکتے ہیں۔ |