ہم بھی وہاں موجود تھے

جب سے ہماری ویب پر لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس وقت سے ہماری ویب کی ٹیم کے ساتھ بھی وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ کبھی ہم خود ان کے در پر پہنچ جاتے ہیں ، کبھی ہمیں بلاوہ دے کر طلب کرلیتے ہیں۔ کبھی کبھی تبدیلی آب و ہوا کے لیے آرٹس کونسل یا کسی معروف ریسٹورینٹ میں بلا لیتے ہیں۔ ہمیں ہماری ویب کے در پر حاضری دینے میں کوئی تکلف نہیں ہے بس ڈر اس بات کا ہے کہ ایسا نہ ہو ہم کسی دن ان کے دفترپہنچیں اور ان کی عمارت کی لفٹ کسی بھی وجہ سے بند ہوجائے۔ تو دس منزلیں سیڑھیوں کے ذریعے طے کرنے کا تصور ہی ہمیں لرزا دیتا ہے۔ لیکن بہر حال آج تک ایسا ہوا تو نہیں ہے کہ ہمیں لفٹ بند یا خراب ملی ہو۔
 

image


بہر حال ہماری ویب نے اپنے لکھاریوں کے لیے ایک رائٹرز کلب قائم کیاہے۔ کلب کی خاص بات یہ ہے کہ پروفیسر رئیس صمدانی، جناب منیز بن بشیر ، عطا محمد تبسم، محمد اعظم عظیم اعظم ،جناب ابراہیم خان ، شیخ خالد زاہد اور دیگر کئی علمی و ادبی شخصیات جن کی زندگی درس و تدریس، لکھنے لکھانے یا صحافت میں گزری ہے ،ان کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے کم علم و بے مایہ لوگ بھی اس کلب کے ممبر ہیں۔ہماری ویب نے لکھاریوں کا جو گلدستہ سجایا ہے، اس میں ہر قسم کے پھول اپنی اپنی بہار اور خوشبو پھیلا رہے ہیں۔لکھاریوں کی اس کہکشاں میں کئی ستارے اپنی اپنی جگہ جھلملا کر دنیا کو اپنی موجودگی کا احساس دلارہے ہیں۔

ہماری ویب کے بانی ابرار احمد ’’ تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے ‘‘کے تحت موقع ڈھونڈ رہے تھے کہ حکومت نے پروفیسر سحر ؔ انصاری صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ستارہ امتیاز سے نواز۔ابرار صاحب، ہماری ویب کی ٹیم ،رائٹرز کلب کے صدرپروفیسر رئیس صمدانی اور عطا محمد تبسم صاحب نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پروفیسر سحر انصاری صاحب کو ایک توصیفی شیلڈ پیش کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ یہ تقریب مقامی ہوٹل میں منعقد کی گئی۔

ہمیں بھی برقی خط کے ذریعے اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ جو کہ ہم نے بخوشی قبول کرلی۔ کیوں کہ اس وقت تک ہمارے معمولات بالکل ٹھیک ٹھاک جارہے تھے۔لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ دو نوکریاں کرنا دراصل ایسا ہی ہے جیسے کہ کسی فرد کی دو بیویاں ہوں اور وہ دونوں کے درمیان ایک سینڈوچ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہی معاملہ ہمارے ساتھ ہوا کہ ادھر ہم نے تقریب میں جانے کا مصمم اراد کیا ، اگلے ہی دن ہمیں اسکول کی انتطامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ نارتھ کراچی کے کیمپس میں ایک تربیتی نشست کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں لازماً شرکت کرنی ہے ۔ اب بڑی مشکل آن پڑی کہ اس تربیتی ورکشاپ کا اختتام ٹھیک اسی وقت ہونا تھا جس وقت یہ تقریب شروع ہونی تھی۔مجھ جیسے پیدل ( عقل سے نہیں سواری کے لحاظ سے ) شخص کے لیے نارتھ کراچی پاور ہاؤس چورنگی سے بغیر وقت ضائع کیے گلشن اقبال پہنچنا انتہائی مشکل کام تھا لیکن اﷲ بھلا کرے ہمارے ایک ساتھی کا کہ جب ہم نے ان سے اپنی مشکل کا ذکر کیا تو انہوں نے ہمیں اپنی پھٹپھٹی ( موٹر سائیکل ) کی پچھلی نشست پر بٹھا کر مقررہ جگہ پہنچانے کی حامی بھر لی، اس طرح ہم بھاگتے دوڑتے، ہانپتے کانپتے ریسٹورینٹ تک پہنچ ہی گئے۔ ہال میں داخل ہونے سے پہلے ہی مصدق صاحب پر نظر پڑی جو کہ کاغذ قلم سنبھالے، آنے والے مہمانوں استقبال کرنے کے لیے ہال کے مرکزی دروازے کے ساتھ ہی مورچہ سنبھالے بیٹھے تھے۔صد شکر کہ ابھی تقریب شروع نہیں ہوئی تھی۔

ہال میں مختلف ساتھی مختلف نشستوں پر بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے، کچھ ہال میں ٹہل رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ پروفیسر صاحب ابھی تشریف نہیں لائے ، لیکن جب تقریب کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ تو بروقت تقریب میں موجود تھے البتہ شرکا ہی تاخیر سے آئے جس کے باعث تقریب کا آغاز مقررہ وقت سے قدرے تاخیرسے ہوا۔رائٹرز کلب کے جنرل سیکرٹری جناب عطا محمد تبسم صاحب نے منتظمین کی اجازت سے تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا اور اس کی سعادت ہماری ویب کے لکھاری جناب ڈاکٹر شیخ ولی المظفر کے حصے میں آئی۔چونکہ کہ تقریب کا آغاز تاخیر سے ہوا اور پھر وقت بھی دوپہر کے کھانے کا تھا اس لیے عطا محمد تبسم صاحب نے وقت کی نزاکت اور شرکا کی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے وقت ضائع کیے بغیر پروگرام کو آگے بڑھانا شروع کیا۔ہماری ویب کے بانی اور رائٹرز کلب کے چئیر مین ابرار احمد صاحب نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے مہمان خصوصی پروفیسر سحرؔ انصاری صاحب، ہماری ویب کے لکھاریوں اور تقریب کے شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر دیگر باتوں کے علاوہ انہوں نے بجا طور پر ہماری ویب کی ٹیم کی کوششوں کو بھی سراہا جن کی انتھک محنت اور لگن کے باعث ہماری ویب اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہے اور اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
 

image


رائٹرز کلب کے صدر جناب رئیس صمدانی صاحب نے اپنے خطاب میں پرفیسر سحر انصاری صاحب کی شخصیت کا مختصرا ً تعارف رکھا اور ان کی علمی و ادبی کاوشوں اور ان کو ملنے والے اعزازت کے بارے میں مختصراً آگاہ کیا۔ پروفیسر سحرؔ انصاری صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ علمی و ادبی حلقوں میں ان کا مقام ہے۔ پروفیسر صاحب کو اس سے قبل2005میں حکومت کی جانب سے جانب سے تمغۂ امتیاز سے نوازا جاچکا ہے۔البتہ انسانی نفسیات سے آگاہی رکھنے والے پروفیسر رئیس صاحب نے حاضرین کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ کہ کھانے کا وقت قریب ہے ، بھوک چمک اٹھی ہے اس لیے میں آپ کے اور کھانے کے درمیان زیادہ دیر حائل نہیں رہوں گا۔ ان کی یہ بات صد فیصد درست بھی تھی کیوں کہ بھوک تو واقعی چمک اٹھی تھی اور شرکا میں سے اکثر کی نظریں بار بار کھانے کی جانب اٹھ رہی تھیں۔( ویسے سب کی آڑ میں ہم نے اپنی ہی بات کی ہے کیوں کہ سب سے زیادہ ہماری ہی نظریں کھانے کی ٹیبل کی جانب اٹھ رہی تھیں، اور بیروں کی چلت پھرت ہماری ڈھارس بندھا رہی تھی) ۔ رئیس صمدانی صاحب نے اس موقع پر پروفیسرسحرؔ انصاری صاحب سے درخواست کی کہ وہ ہماری ویب رائٹرز کلب کے نگرانِ اعلیٰ کی ذمہ داری قبول کریں تاکہ ہماری ویب کے لکھاری ان کی سرپرستی میں ، ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔

پروفیسر سحر ؔ انصاری صاحب نے اپنے خطاب میں ہماری ویب کاوشوں کو سراہا، بالخصوص انہوں نے ہماری ویب کے بانی اوررائٹرز کلب کے چئیر مین ابرار احمد صاحب کو خراج تحسین پیش کیااور کہا کہ ہماری ویب اور ابرار احمد صاحب صحیح معنوں میں اردو کی خدمت کررہے ہیں۔ستارہ ٔ امتیاز سے نوازنے کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ جب مجھے بتایا گیا کہ مجے ستارہ امتیاز دیا جارہا ہے تو مجھے معلوم ہوا کہ ابھی بیوروکریسی میں شریف لوگ اور شرافت باقی ہے کیوں کہ میں کبھی کسی کے آگے پیچھے نہیں گھوما، کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا، کسی سے اپنے بچوں کی سفارش تک نہیں کرائی۔کہا جاتاہے کہ انسان کی سچائی اس کے الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے لہجے سے ظاہر ہوتی ہے اور پروفیسر صاحب جب یہ بات کررہے تھے تو ان کی بھرّائی ہوئی آواز اور آنکھوں میں اتر آنے والی ہلکی سی نمی ان کی سچائی کی گواہی پیش کررہی تھی۔

پروفیسر صاحب کے خطاب کے بعد ہماری ویب کے 15لکھاریوں کی برقی کتب E books کی رونمائی کی گئی اور ان کو یادگاری شیلڈز پیش کی گئیں۔ اس کے بعد ہماری ویب رائٹرز کلب کے ذمہ داران کو رائٹرز کلب کا ممبر شپ کارڈ بھی دیا گیا اور پروفیسر سحرؔانصاری صاحب نے انتہائی صبر و سکون سے ممبران کو اپنے ہاتھوں سے کارڈ پہنائے۔اس کے بعد ہماری ویب کی ٹیم کے اہم رکن اور ہالی ووڈ کے ہیرو نظر آنے والے جناب رضوان شیخ صاحب نے شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

اس کے بعد وہ لمحہ آبھی آہی گیا جو کہ ہر تقریب کا سب سے اہم اور شرکا کا سب سے پسندیدہ ہوتا ہے ، جی ہاں اس کے بعدپر تکلف کھانوں سے شرکا کی تواضع کی گئی۔ کھانے کے دوران شرکا ایک دوسرے سے گھل مل گئے، ایک دوسرے کے فون نمبر اور ای میل ایڈریسز کا تبادلہ کیا گیا۔ کھانے کے دوران ہم تو پروفیسر اعظم عظیم اعظم صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے اور ان کے دلچسپ فقروں سے لطف اندو ز ہوتے رہے۔ عمران راجپوت صاحب حیدر آباد سے تشریف لائے تھے، ان سے بھی اچھی نشست رہی۔ شیخ خالد صاحب سے اس بار زیادہ بات نہ ہوسکی، دل تو چاہتا تھا کہ تمام لوگوں سے تفصیلی ملاقات کی جائے لیکن دوسری بیوی کا بلاوہ آرہا تھا یعنی دوسری نوکری پر بھی جانا تھا اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی کھانے کے فوراً بعد ابرار احمد صاحب اور مصدق صاحب سے مل کر رخصت کی اجازت چاہی اور ہم وہاں سے روانہ ہوگئے۔

ہماری ویب رائٹرز کلب ایک ایسا اچھوتا اور منفرد پلیٹ فارم جہاں ہر مزاج، ہر مکتبہ فکر کے افراد موجود ہیں۔ اس فورم پر کسی کی چھاپ نہیں ہے اور یہی اس کی سب سے اچھی بات ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس گلدستے کا ہر پھول صدا مہکتا رہے ، اس کہکشہاں کے تارے یونہی جگمگاتے رہیں ۔ آمین

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1519803 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More