وہ جسے ہم نے نظر انداز کردیا
(Saeed Ullah Saeed, Sawabi)
سچی بات یہ ہے کہ مجھے قوم پرستی
سے لگاؤ ہے نہ قوم پرست سیاسی جماعتوں سے محبت۔ اسی لیے ان کے لیڈران سے
ملنے کی خواہش نے کبھی دل میں انگڑائی لی ہے اور نہ میں نے کبھی ایسی کوئی
جستجو کی ہے۔ کیونکہ میں قوم پرستی پر یقین رکھتا ہوں، نہ ایسی جماعتوں کے
منشور سے اتفاق۔ لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ :ایسی پارٹیوں میں ایسے ایسے
انمول ہیرے موجود ہوتے ہیں۔ کہ نظریاتی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی دل چاہتا
ہے کہ ایسے ہیروں کی عزت کی جائے۔ افضل خان لالا (مرحوم) المعروف خان لالا
بھی ایک ایسے ہی شخصیت تھے کہ: جو عزت کے قابل تھے، ہے اور رہیں گے۔ میرے
سامنے اس وقت 2نومبر کے کئی اخبارات پڑے ہیں ۔ جن میں موصوف کی خدمات ،پیدائش
سے لے کر وفات کے دن تک تحریر ہے۔ میں چاہوں تو ان اخبارات کے حوالے دے کر
یا خان لالا کو خوب سٹڈی کرکے ان پر ایک اچھا کالم لکھ سکتا ہوں۔ لیکن میں
ایسا کچھ بھی نہیں لکھ رہا۔ میرے آج کی تحریر میں آپ کو ایسا کچھ پڑھنے کو
نہیں ملے گا: کہ خان لالا کب پیدا ہوئے، ان کی بچپن کیسی گزری،انہیں سکول
میں کب داخل کرایا گیا، وہ پڑھائی میں کیسے تھے، ان کی جوانی کیسی گزری، وہ
کتنی بار صوبائی اسمبلی کے رکن رہے، قومی اسمبلی کے ممبر کب بنے، وہ کون سی
وزارت پر فائز رہے،پارلیمان میں ان کو کیا منصب ملا،والی سوات کے دور میں
ان کے دائرہ خدمت کیا تھا، وہ بارہا سوات بار کے بلامقابلہ صدر کیسے منتخب
ہوئے،وغیرہ وغیرہ ۔ کیونکہ میں یہ سب کچھ اپنے سواتی قلم کار بھائیوں کے
لیے چھوڑتا ہوں۔ کہ وہ اس پر بہتر انداز میں روشنی ڈال سکتے ہیں۔ اور وہ اس
پر روشنی ڈالیں ضرور۔ جبکہ مجھے سوات آئے ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے
اور اس عرصے میں میری اس سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ البتہ میں اپنی دل کے
آواز پر لبیک کہتے ہوئے کچھ باتیں ایسی ضرور تحریر کرونگا۔ جسے میں اپنے پر
قرض سمجھتا ہوں ۔ ایک اور بات یہ کہ کسی بھی شخصیت کے اچھے اور برے پہلو
ہوتے ہیں۔ میرا ارادہ نہ تو مرحوم کے گن گانے کا ہے اور نا ہی اس پر طنز کے
تیر برسانے کا ۔ بلکہ میں ذکر کروں گا اس زیادتی کا جو ان کے ساتھ ہوئی ہے۔
میں لکھوں گا اس مقام اور حق کے لیے جو افضل خان لالا کو ملنا چاہیے تھا۔
لیکن حکومتیں اس سلسلے میں غفلت کی شکار رہی۔
جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہے کہ :اصل آرٹیکل اور فیچرز تو میرے سواتی بھائی لکھیں
گے ۔لیکن میں اتنا ضرور لکھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ : اس شخص کو بحیثیت
پاکستانی قوم ہم اور ہماری حکومت نے وہ مقام نہیں دیا جو کہ اس کا حق تھا۔
مجھے یاد ہے ۔ کہ جب ملالہ یوسفزئی پر حملہ ہوا تو پاکستان سمیت پوری دنیا
میں ایک ہل چل مچ سی گئی تھی۔ کیا علاقائی، کیا قومی اور کیا عالمی رہنماء
سب کے سب حالت اضطراب میں تھے۔ پوری دنیا میں ملالہ کی صحت یابی کے لیے
دعائیہ تقریبات منعقد ہوئی۔ کسی نے شمعیں جلائی تو کسی نے پھولوں کے ذریعے
ان سے اظہار یکجہتی کیا۔پھر جب وہ بفضلہ تعالیٰ صحت یاب ہوئی تو ان پر
انعامات اور ایوارڈز کی بارش کردی گئی۔ یہاں تک کہ مس ملالہ اور ایک
ہندوستانی شخصیت، کہ جس نے بچوں کی فلاح و بہبود کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ دونوں
کو مشترکہ طور پر نوبل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے
10نومبر کا دن ملالہ کے نام سے منصوب کردیا ہے۔ اب آتے ہیں ملالہ کی خدمات
کی جانب۔ ملالہ کی جو خدمات ہمارے سامنے آئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ انہوں نے وادی
سوات میں شورش کے دوران طالبان کے مظالم کے خلاف گل مکئی کے فرضی نام سے
ڈائری لکھی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بارے میں کہاں جارہا ہے کہ وہ لڑکیوں کی
تعلیم کے بارے میں فکر مند ہے۔ جہاں تک لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ملالہ
کی سوچ ہے ۔ وہ سوچ ہم سب کی سوچ ہے اور اس کام میں یقیناً ہر کوئی ملالہ
کے قدم سے قدم ملاکر چلنا پسند کرے گا۔ البتہ ان ڈائریوں کے صحت پراس وقت
کئی سنجیدہ حلقوں نے کئی سوالات اٹھائے تھے ۔جو آج بھی جواب طلب ہے۔
ملالہ یوسفزئی کے بعداب آتے ہیں افضل لالا کی جانب۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق
کشیدہ حالات کے دوران ان پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے، متعدد رشتہ دار ان
کے قتل ،جبکہ املاک تباہ ہوئے۔ لیکن افضل خان کوہ استقامت بن کر حالات کے
سامنے کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ جب سوات خالی ہورہاتھا۔ افضل خان اس وقت بھی
ڈٹا رہا۔ اور انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک غیور قوم کا غیور سپوت ہے۔
بعض لوگوں نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ: چونکہ لالا کا بیٹا پاک فوج میں
اعلیٰ عہدے پر فائزتھا اور سیکیورٹی کے معقول انتظامات کیئے گئے تھے۔ اس
لیے وہ سوات میں موجود رہے۔ ایسے لوگ یہ بھول جا تے ہیں کہ جب خوف کسی کے
دل میں بیٹھ جائے سیکیورٹی ان کے لیے بے معنی ہوجاتی ہے۔ بلکہ ایسے لوگ
شورش والی جگہوں سے نکلنے میں ہی عافیت سجھتے ہیں۔لیکن خان لالا ایسے بے
خوف آدمی تھے کہ :اگر وہ تنہا بھی ہوتے تب بھی حالات کا مقابلہ کرتے۔افضل
خان لالا نے جو کردار ادا کیا ۔ وہ بلا شبہ قابل فخر ہے۔ لیکن جو باعث شرم
ہے ۔وہ ہے اس حوالے سے حکومتی رویہ۔ کیا افضل خان لالا اس قابل تھے کہ
انہیں ایک ایوارڈ اور بابائے امن کا لقب دے کر جان چھڑا لیاجاتا؟یقیناً
تمغہ شجاعت بہت بڑا ایوارڈ ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص مرنا بھی اپنے
ملک میں پسند کرتا ہواور ملالہ کے مقابلے میں جن کی خدمات وسیع ہو۔ا ن کو
یقیناً اس سے زیادہ عزت ملنا چاہیے تھی۔ جو کہ نہیں مل سکی۔ اب چونکہ افضل
خان لالا ہم میں نہیں رہے۔لیکن ہماری حکومت اتنا تو کرسکتی ہے کہ کوئی سڑک
یا تعلیمی ادارہ ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ یونیورسٹی آف
سوات کو ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔ اگر حکومت نے ایسا کیا تو یقیناًاس
کوتاہی کی کچھ تلافی ہوجائے گی جو افضل خان کے حوالے سے حکومت سے ہوئی ہے۔ |
|