ہندوستان اور تعصبانہ نظریات
(Sajid Hussain Nadvi, India)
استاذ جامعہ قاسمیہ عربی کالج
(مدراس)
گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار، جنت نشان ،مختلف المذاہب کا مسکن ہمارا
ہندوستان جس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہاتھا ’’سارے جہاں سے
اچھا ہندوستان ہمارا‘‘جہاں ہمیشہ ’’ہندومسلم سکھ عیسائی آپس میں ہیں سب
بھائی‘‘جیسے نعرہ بلندہ کئے گئے ۔
لیکن ادھر چند سالوں سے فرقہ پرست عناصر اور ملک کی شیرازہ بندی کو تار تار
کرنے والے سیاست کی کرسی پر براجمان سیاسی لیڈران کو آپسی بھائی چارگی اور
باہم میل ملاپ ایک آنکھ نہ بھائی اور اس ملک کو ایک ہندو راشٹریہ بنانے کا
خواب دیکھنے لگے اور اس کوشرمندہ تعبیر کرنے کے لئے بھڑکاؤ بیان بازیوں سے
ملک کی خوشگوارفضا کو مسموم اور آلودہ کرنا شروع کردیا۔یہ فرقہ پرست عناصر
کوئی آج کی پیداوار نہیں ہے بلکہ ان کا وجود اسی وقت سے جب سے ملک انگریزوں
کے چنگل سے آزاد ہوااور مذہبی تصادم کے پیش نظر ملک کا دستور جمہوری بنایا
گیا تاکہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کو یکساں شہری ، سماجی ، قانونی ،معاشی
اور مذہبی حقوق فراہم کئے جائیں۔ کاش ملک کی سلامتی کے لئے ناسور اس طرح کے
فرقہ پرست عناصر کو بروقت کچل دیا جاتا تو آج وہ دن دیکھنے نہ پڑتے جو فی
الوقت ملک میں نظر آرہے ہیں اورجو جمہوریت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ بن
گیاہے۔
موجودہ حکومت کے دور میں ملک کے جو حالات ابھر کرسامنے آرہے ہیں اس سے صاف
واضح ہوتاہے بہت جلد ملک کی جمہوریت کی بنیادیں کھوکھلی کردی جائیں گی
اوران کی جگہ فرقہ پرست عناصرکی تعصبانہ نظریات کارفرماہوگی۔جبکہ اس وقت
عالمی پیمانہ پریہ کوشش کی جاری ہے کہ جمہوری اقدار وروایات اور سیاست
کوفرو غ دیاجائے، اور اس پر عمل پیرا ہوکرملکوں میں سا لمیت وبقا اور امن
وامان کو بحال کرکے عالمی طور ترقی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔کیونکہ تاریخ
اس بات پر گواہ ہیکہ آج عالمی منظرنامہ پر جتنے بھی ممالک ترقی یافتہ نظر
آرہے ہیں ان کی ترقی کا راز یہ ہیکہ وہاں مذہبی رواداری اور جمہوریت کا بول
بالاہے جس کی وجہ سے ہرطبقہ سے تعلق رکھنے والا انسان انفرادی طور پر بہت
ہی مامون ، ہرطرح کے خطرات اور اندیشوں سے بے نیاز اپنی اور اپنے ملک کی
ترقی وفلاح وبہبود کے لئے کوشاں ہیں، جن کے نتیجہ میں اچھے ثمرات مرتب
ہورہے ہیں اور فرد کی سطح پرایسے ملکوں کے لوگ بڑی اچھی حالات میں زندگی
گزار رہے ہیں اور مجموعی طور بھی ان کا ملک خوش حال اور ترقی کی نئی نئی
راہوں کی طرف رواں دواں ہے ۔
لیکن افسوس ان باتوں کو کون سمجھے ؟ جو لوگ سیاست کی کرسی پر براجمان ہیں
ان کو بیان بازیوں سے فرصت نہیں اور ہمیشہ ماحول کو پراگندہ کرنے پر تلے
ہوئے ہیں ، ان کی زبانیں اتنی گندی ہوگئی ہیں کہ جب بھی منھ کھولتے ہیں تو
ماحول کو مسموم اور زہر آلود کردیتے ہیں ۔ اور ہمارے وزیر اعظم صاحب کو
ملکی دوروں سے فرصت نہیں شاید انہوں نے کرسی سنبھالنے کا مقصد کاصرف سیر
وسیاحت سمجھ لیا ہے۔وہ ملک کی حالات سے بالکل بے خبر ہیں ۔جبکہ ملک واقعہ
یہ ہیکہ ملک کے حالات دن بدن بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں جمہوری اقدار
وروایات کو ملیا میٹ کیا جارہاہے، اقلیتی طبقات کے ساتھ ناروا سلوک کئے
جارہے ہیں اور حکومتِ وقت خاموش تماشا بنی بیٹھی ہے۔
وزیر اعظم کو چاہیے کہ ملک کی حالات کا جائزہ لیں، جمہوری روایات کو قائم
رکھنے اور ملک میں خوشگوار فضا قائم کرنے کی کوشش کریں ورنہ یا د رکھیے
عالمی پیمانہ پر ملک کی جو بدنامی ہوگی اس کے ذمہ دار آپ ہونگے اور ملک کی
عوام آپ کو کبھی معاف نہ کرے گی۔
اخیر میں مسلمانوں سے کرنا چاہتاہوں کہ یہ ملک ہمارا ہیں ، ہمارے اسلاف نے
اپنے خون سے اس وطن کو سینچا اور پروان چڑھایا ہے ، ملک کی حفاظت کرنا
ہماری ذمہ داری ہے ، ہم ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں جس میں آپسی بھائی
چارگی اور محبت کی تعلیم کی دی جاتی ہے، باہم ملکر اور برادران وطن سے
خوشگوار تعلقات کے ذریعہ ملک کی فضااور ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کریں،
جذبات کی رو میں آکر ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ہمارااسلام اور ہمارے
ملک کی بدنامی ہو ۔ جو لوگ ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش میں لگے ہیں
بہت جلد ان کو ان کے اپنے ہی سبق سکھالیں گے اور ایسی عبرت ناک انجام سے ان
کو دوچار ہونا پڑے گاکہ کئی نسلیں اسے یاد رکھیں گیں۔
سردست ملک کا سب سے بڑا صوبہ بہار جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور
ہر پارٹیاں اپنے اپنے طور جیت حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں، کچھ پارٹیوں
کا مقصد مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے فرقہ پرست عناصر کے راستہ ہموار کرنا ہے،
مسلمان ایسی پارٹیوں سے بچکر رہیں، ان کے جھانسے میں نہ آئیں،بلکہ متحد
ہوکر ایسی پارٹی کو ووٹ دیں جن کانصب العین ملک کی تعمیر وترقی اورآپسی
شیرازہ بندی ہو۔ ساتھ ہی جمہوری دستور پر عمل پیر ہوکر ملک کو آگے بڑھانے
کا جذبہ ہو۔ |
|