پی ٹی آئی قائدین کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا
(Saeed Ullah Saeed, Sawabi)
2013 کے عام انتخابات میں
پاکستان تحریک انصاف نے یقیناً اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انتخابات کے
بعد جہاں کئی جہان دیدہ قلم کاروں کے علاوہ اس ناچیز نے بھی ایک تحریر لکھی۔
جو کہ 22 مئی 2013ء کو کراچی کے ایک اخبار کے علاوہ آن لان بھی ’’ عا م
انتخابات اور پاکستان تحریک انصاف‘‘ کے عنوان کے سے شائع ہوئی۔ اس کالم کا
خلاصہ نذر قارئین ہے۔ اگر عمران خان اور اس کی پارٹی کا موازنہ دوسری سیاسی
جماعتوں سے کیا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے بڑی اور تجربہ کار
سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہوئے 2013ء کے عام انتخابات میں بہترین کارکردگی کا
مظاہرہ کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے پاس نہ صرف یہ
کہ وسیع تجربہ تھا، بلکہ ان میں بر سر اقتدار جماعتوں کے پاس کچھ ترقیاتی
کاموں کے کریڈٹ کے علاوہ کسی نہ کسی درجے کے اختیارات بھی تھے۔ ان کے
مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس نہ تو سیاسی تجربہ اتنا وسیع تھا
اور نہ ہی کسی قسم کے اختیارات۔ اس لیے موجودہ کارکردگی کو بڑی کامیابی
سمجھ کر مزید کامیابیاں سمیٹنے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلے میں بندہ ناچیز
نے چند تجاویز بھی اس کالم میں پی ٹی آئی کے ذمہ داران کی خدمت میں پیش کی
تھیں۔ وہ تجاویز کیا تھیں؟ آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔(1) عمران خان اوران کی
جماعت عوا م سے کیے گئے وعدوں کی لاج رکھتے ہوئے اسے وفا کرنے کرنے کی بھر
پور کوشش کریں۔ (2) مرکز میں میاں نواز شریف کے ساتھ غیر ضروری محاذ آرائی
سے گریز کریں، بلکہ اہم ملکی اور بین الاقوامی امور میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔
(3) ملک میں جاری دہشت گردی اور ڈرون حملوں کے خاتمے کے لیے بھرپور اور
توانا آواز اٹھائیں، نیز لاپتہ افراد کا مسئلہ میاں صاحب کے ساتھ مل کر حل
کریں۔ (4) خیبر پختون خوا میں ترقیاتی منصوبے شروع کرانے، لوڈشیڈنگ اور
مہنگائی جیسے اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں سے بھر پور رابطہ
رکھیں۔
اب ہم اس بات کا بغور جائزہ لیں گے کہ پی ٹی آئی کا الیکشن سے لے کر اب تک
ملکی سیاست میں کیا کرد ار رہاہے۔ دیکھا جائے تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے
اور ڈرون حملوں کے خلاف مزاحمت پاکستان تحریک انصاف کے ایسے اقدامات تھے
اور ہیں جو یقیناً لائق تحسین ہیں۔ خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف
کے صوبائی حکومت کی جانب سے اصلاحات کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ صوبائی
دارالحکومت کو ایک جدید شہر بنانے کی جو کو شش صوبائی حکومت کررہی ہے وہ
بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ اور ناقابل
تردید حقیقت ہے کہ اسی دارالحکومت کے باسی جو پانی پی رہے ہیں PCRWR کی
رپورٹ کے مطابق وہ اسی فیصد آلودہ ہے۔ پشاور سے ذرا آگے بڑھتے ہے سوات کی
جانب۔ سوات یوں تو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور ہر
بندے کی یہ خواہش ہے کہ وہ زندگی میں ایک دفعہ ہی سی سوات دیکھنے ضرور جائے۔
ان کی یہ خواہش بے جا اس لیے نہیں کہ سوات کو اﷲ نے جس خوبصورتی سے نوازا
ہے۔ یہ خوبصورتی ہر قطعہ زمین کو میسر نہیں۔ لیکن اسی سوات کے متوسط اور
غریب طبقات پر نظر ڈالیں تو دل بے اختیار رونے کو چاہتا ہے۔ کیونکہ پی سی
آر ڈبلیو آر نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات آشکار کردی ہے کہ سوات کے
مرکزی شہر مینگورہ کے باسیوں کو جو پانی دیا جارہا ہے وہ سو فیصد آلودہ اور
مضر صحت ہے۔ ستم بالا ستم یہ کہ شہر سے متصل کئی علاقوں میں پانی وہ نایاب
شے بن چکا ہے جو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ یونین کونسل ملوک آباد ایسے ہی
علاقہ ہے جہاں پانی کی عدم دستیابی کے شکایات عام ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ
گرمیوں میں جس کے گھر دس، بیس لیٹر پانی آجائے تو وہ خود کو غنی سمجھتا ہے۔
ایک اور قابل توجہ امر یہ ہے کہ خیبر پختون خوا حکومت نے امریکی ادارے
USAID کے تعاون سے بعض مقامات پر جو ہینڈز پمپ نصب کر رکھے ہیں۔ وہ چلانے
میں اتنے سخت ہیں کہ اسے چلانے کے لیے عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ بلکہ
اسے چلانے کے لیے آدمی کا مکمل طور پر فٹ اور صحت مندہونا لازمی ہے۔ پانی
کے علاوہ اہل سوات کو روزگار کے حوالے سے وہ سہولیات میسر نہیں جو پنجاب
اور اہل سندھ کو حاصل ہے اور اس سلسلے میں صوبائی ترجیحات کیا ہیں کسی کو
کچھ معلوم نہیں۔ صحت کے حوالے سے صورتحال اور بھی مایوس کن ہے۔ سیدو ٹیچنگ
ہسپتال جائیں تو مریض کرائے پر چارپائیاں لے کر، اس پر برآمدوں میں بے
یاروں مددگار پڑے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹرز حضرات خود کہتے ہیں کہ ہسپتال آنے
والے مریضوں کو جو سہولیات میسر ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اس سلسلے
کو بہتر بنانے کے لیے ذمہ دار شخصیات کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے
ہوں گے۔ دوسری تجویز جو میاں نواز شریف کے ساتھ غیر ضروری محاذ آرائی سے
گریز کرنے کی دی تھی۔ وہ گریز آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد محدود
سے وقت کے سوا کہیں نظر نہیں آئی۔ بلکہ خان صاحب نے نواز شریف کو ہر وقت
اور ہر لمحے للکارتے نظر آئے۔ انتخابی دھاندلی پر جس یقین و وثوق کے ساتھ
پی ٹی آئی ذمہ داران باالخصوص خان صاحب بات کرتے نظر آئے۔ اس سے ہر کسی کو
یہ یقین ہوچلاتھاکہ دھاندلی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ اسی لیے
قوم نے پی ٹی آئی کا بھر پور ساتھ دیا لیکن جب وقت آیا ثبوت اس عدالتی
کمیشن کے سامنے پیش کرنے کا جس کے قیام کی پی ٹی آئی کو خود تمنا تھی تو اس
میں پی ٹی آئی کے وکلاء اور رہنماء ناکام نظر آئے۔ حالانکہ یہ بات وطن عزیز
کے ہر باشعور شہری کے علم میں ہے کہ اسی 2013ء کے انتخابات میں زبردست
دھاندلی ہوئی تھی اور دیگر علاقوں کے علاوہ کراچی بھی اس کی ایک مثال ہے۔
سپریم جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ تحریک انصاف کے لیے ایک ایسا کاری وار ثابت
ہوا، کہ اس سے ابھی تک وہ سنبھلے نہیں جارہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف یہ کہ
تحریکی ورکرز اپنے رہنماؤں سے مایوس ہوئے۔ بلکہ نوازلیگ کو بھی بیٹھے
بٹھائے وہ اعتماد ملا کہ وہ دس سال کی محنت سے بھی نہیں مل سکتا تھا۔ بقول
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے
وزیر اعظم کو ISO Certified وزیراعظم بنادیا۔
یہ شاید بنا تحقیق اور شواہد کے الزامات لگانے کا نتیجہ ہے کہ سندھ اور
پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کارگردگی
مایوس کن رہی۔ اسی وجہ سے پارٹی کے ایک رہنماء اور لاہور کے آرگنائزر شفقت
محمود نے اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا۔ ایسے حالات میں جب پارٹی ورکرز
بالخصوص وہ طبقہ جو صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف کے منشور اور خان صاحب
کے مخلصانہ رویے کی وجہ سے سیاست میں حصہ لینے لگے تھے۔ وہ مایوسی کے شکار
ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں پارٹی کے مخلص رہنماؤں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا
اور ان عوامل کا جائزہ لے کر جس کی وجہ سے پارٹی آج گومگو کی کیفیت میں ہے،
ان کا تدارک کرنا ہوگا۔ ایک اور بات یہ کہ جن لوگوں کو آپ شعور دینے چلے
تھے، ان کو آپ نے اتنا بے شعور کیسے سمجھ لیاکہ وہ آپ کی ہر بات پر آنکھیں
بند کر کے یقین کرلیتے۔ لہٰذ ا آئندہ کے لیے پارٹی چئیرمین کو یہ عہد کرنا
ہوگاکہ وہ جو بھی بات کریں گے وہ ٹھوس شواہد اور مکمل دلائل سے کریں گے۔
مجھے امید ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان ضرور ان باتوں پر توجہ دیں گے کیونکہ
اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
|
|