تمام اہل وطن کو دو خوشخبریاں مبارک ہوں۔
پہلی خوشخبری یہ کہ آئین پاکستان کی اٹھارہویں ترمیم منظور کر لی گئی۔ یہ
مسئلہ پچھلے دو سالوں سے پاکستان کا اہم ترین مسئلہ بنا ہوا تھا۔ تمام
سیاسی جماعتوں کے زعما پر مشتمل ایک اعلیٰ کمیٹی اس کام میں لگی تھی اور
ساری قوم کی نظریں اور کان اس کے فیصلوں پر۔ بالآخر دو تین دن قبل بلی
تھیلے سے باہر آگئی اور آئینی اصلاحات کا بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا۔
اس بل کے اپنے بِل سے باہر آنے میں کئی باتیں ہوئیں جن کا ہم مختصراً تذکرہ
کرتے ہیں۔
﴿۱﴾ ہمارے ملک میں یہ بات ضرب المثل ہے کہ جس کام کیلئے کمیٹی بن جائے وہ
کبھی نہیں ہوتا بلکہ کمیٹی بنائی اس کام کے لئے جاتی ہے جسے نہ کرنا طے شدہ
امر ہوتا ہے۔ آئینی اصلاحات کمیٹی نے اس ضرب المثل کو غلط ثابت کر دکھایا
ہے اور پہلی بار کمیٹی کے ذمہ کام تکمیل کے مراحل کو پہنچا۔ اس لئے قوم
آئندہ سے کمیٹیوں کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر درست کر لے۔
﴿۲﴾ اگر آپ کی شادی ہو رہی ہو اس میں مبارکباد آپ کو نہیں آپ کے دوستوں کو
دی جارہی ہو تو آپ کیا محسوس کریں گے؟ اور اس شخص کے بارے میں آپ کے تاثرات
کیا ہوں گے جو یہ حرکت کر رہا ہو گا؟ آپ خود ہی سوچ لیں۔ اب آپ یہ سوچ رہے
ہوں گے کہ اس بات کی یہاں کیا تُک ہے تو جناب یہ بات بے تکی نہیں۔ صدر صاحب
نے پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اس بِل کا کریڈٹ جناب بابر
اعوان کو دیا اور انہیں مبارکباد دے ڈالی حالانکہ ان کا اس بل سے تعلق اتنا
ہی تھا جتنا شادی میں آئے دوست کا ہوتا ہے آپ تصور کریں کہ اس وقت ’’دولہا‘‘
یعنی رضا ربانی کا کیا حال ہوا ہوگا اور انہوں نے صدر صاحب کو دل ہی دل میں
وہ کہہ ڈالا ہوگا جو ظاہر کرنے پر قید ہو سکتی ہے۔ بہرحال آپ بھی سوچ کر
مزے لے لیجئے۔
﴿۳﴾ آئینی اصلاحات کے عمل کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا گویا کہ ملک کو
درپیش تمام مسائل کا حل اسی میں مضمر ہے۔ آئینی ترمیم آتے ہی چینی سستی ہو
جائے گی اور عوام کی زندگیوں میں مٹھاس لوٹ آئے گی، بجلی کا بحران ختم ہو
جائے گا اور کوئی شخص گرمی سے تنگ آکر پنکھے کا غصہ بیوی بچوں پر نہ اتارے
گا، خالی پڑولے گندم سے بھر جائیں گے، آٹا اتنا عام ہو جائے گا کہ پھر سے
فقیروں کو خیرات میں دیا جانے لگے گا۔ دریا پانی سے بھر جائیں گے اور نہریں
بہنے لگیں لگی۔ بیروزگاروں کی قطاریں ختم ہو جائیں گی اور انڈسٹری تیز چلنے
لگے لگی۔ سیاسی لیڈران کے دھواں دار بیانات اور تجزیہ نگاروں کے زور دار
تبصروں سے عوام واقعی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ آئینی ترمیم کچھ اسی نوع کی
چیز ہوگی کیونکہ کہا یہی جا رہا تھا کہ عوامی مسائل کا حل اس میں مضمر ہے۔
مگر ترمیم پیش ہوئے آج پانچواں دن ہے مگر حالات جوں کہ توں بلکہ مزید
دگرگوں ہیں۔ عوام حیران ہو کر ایک دوسرے کے منہ دیکھ رہے ہیں کہ مسائل تو
حل نہ ہوئے۔ اس لئے شاید کسی نے عوام پر’’کالانعام‘‘ ہونے کی مثال فٹ کی ہے
کہ انہیں کبھی کوئی بات سمجھ نہیں آتی۔ آخر ہمارے حکمران، وزرا، سیاستدان
اس ملک کے شہری نہیں؟ ان سے پوچھیں کہ ان کے کتنے مسائل حل ہو گئے ہیں آپ
کو تو بس اپنا رونا ہی آتا ہے۔ کیا دنیا میں آٹا، چینی، بجلی، گیس، امن،
پانی، جیسی فانی چیزوں کی اہمیت ہے پارلیمنٹ کی بالادستی، اختیارات کی
منتقلی، آئین کی بحالی، ججوں کی تقرری کے غلط طریق کار کا خاتمہ یہ معمولی
چیزیں ہیں۔
سادہ عوام! قومیں آٹا، چینی، پانی سے نہیں آئین سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس لئے
روئیے مت بلکہ حکمرانوں کے شانہ بشانہ اس خوشی میں شریک ہوئیے۔
﴿۴﴾ پاکستان کے سب سے مختصر اور آسان نام والے صوبے کو سب سے بڑا اور سب سے
مشکل نام دے دیا گیا ہے ، صوبہ سرحد آئندہ سے’’خیبر پختونخواہ‘‘ جیسے ثقیل
نام سے پکارا جائے گا۔ صوبہ سرحد کے عوام اپنی’’شناخت‘‘ ملنے کی خوشی میں
سارے غم بھول کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور صوبے بھر میں ’’جشن‘‘ جاری ہیں
جو اب باقاعدہ خونی بن چکے ہیں اور 60لاشوں کا تحفہ وصول کر چکے ہیں۔
﴿۵﴾ موجودہ حکومت پر سے یہ الزام اور داغ اچھی طرح دھل گیا ہے کہ اس نے
اپنے پورے دور حکومت میں غریبوں کی بھلائی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ آئندہ کوئی
بھی بدخواہ مخالف حکومت پر اس حوالے سے انگشت نمائی کے قابل نہیں رہا
کیونکہ حالیہ ترمیم سے حکومت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ غریبوں کے لئے بہت
کچھ کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس ترمیم کے بعد اب پاکستان کے غریب ترین
لوگوں میں سے ایک جناب میاں نواز شریف صاحب تیسری بار ملک کے وزیراعظم بن
سکتے ہیں۔ اب بھی کوئی اگر حکومت کو اس حوالے سے طعنے دے تو یہ اس کی اپنی
مرضی ہے۔
دوسری خوشخبری یہ ہے کہ صدر صاحب نے حکومت کرنا سیکھ لیا ہے، اب امید ہے کہ
پاکستان کے معاملات میں کچھ نظم و ضبط آجائے گا اور یہ بات کوئی نہیں کہہ
سکے گا کہ پاکستان میں کوئی حکومت نہیں ہے۔ ویسے تو دنیا بھر میں یہ ہوتا
ہے کہ زمامِ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں دی جاتی ہے جو حکومت کرنے کا ڈھنگ
جانتے ہوں مگر پاکستان کے معاملات چونکہ دنیا بھر سے نرالے ہیں اس لئے یہاں
وہ لوگ جنہیں حکومت کرنے کا شوق ہو محض شوق پورا کرنے اور تربیت کرنے کے
لئے حکمران بن جاتے ہیں اور جب تک وہ حکومت کرنا سیکھتے ہیں ملک کا کباڑا
اور اداروں کا دھڑن تختہ ہو جاتا ہے۔ زرداری صاحب نے دو سال یہی کارہائے
نمایاں سرانجام دیئے اور اب اعلان کر دیا کہ ان کی تربیت مکمل ہو گئی ہے،
ان کا یہ کہنا اس لئے ضروری تھا کہ چونکہ آج کل احتساب کی بات چل رہی ہے تو
کوئی اس حوالے سے ان سے ان دو سالوں کا حساب نہ مانگے کیونکہ ٹریننگ میں جو
کچھ ضائع یا خراب ہو جائے وہ معاف ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائیں
اور ہمیں ان ظالموں کے تختۂ مشق بنے رہنے سے نجات عطائ فرمائیں، ادھر
نوازشریف صاحب منہ پھاڑے کھڑے ہیں کہ گزشتہ دو ادوار کی تربیت سے اب حکومت
کرنا سیکھ چکا ہوں اس لئے مجھے موقع دیا جائے اب ٹھیک حکومت کروں گا دوسری
طرف کئی’’کھلاڑی‘‘ تجربہ حاصل کرنے کے لئے میدان میں وردی، پیڈکس کر کھڑے
ہیں کہ انہیں آنے دیا جائے ادھر عوام بے چارے ٹریننگ کرا کرا کے اس حال کو
پہنچ چکے ہیں کہ اب مزید کچھ سکھانے کے قابل نہیں رہے، بس اب انہیں چاہئے
کہ ایک بار ہمت کر کے ان سیاستدانوں کو حکومت کی بجائے سبق ہی سکھا دیں تو
ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے گی۔ |