ایک ایسی حیران کن خبر جو عجیب
بھی ہے، دلچسپ بھی اور دل سوز بھی۔ جی ہاں قارئین کرام ! اس واقعہ کی خبر
جو وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے دورہ لودھراں سے واپسی کے
موقع پر پیش آیا۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف جب لودھراں سے واپس ہونے لگے تو ائیر پورٹ
کے رن وے پر ان کے ہیلی کاپٹر کے سامنے ایک کتا آگیا جس کی وجہ سے پائلٹ کو
ہیلی کاپٹر روکھنا پڑا۔ وزیر اعظم صاحب کو یہ انتظار انتہائی گراں گزرا اور
بڑے مشکل سے اسے برداشت کیا۔ فورا اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل
دی گئی ۔ کمیٹی کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ کتا کب، کیوں، کیسے اور کس کے
اجازت سے ائیر پورٹ میں داخل ہوا اور اس کے کیا مقاصد تھے۔
کتے کو نہ تو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی
کی گئی۔ ظاہرہے ایک جانور کے خلاف کیونکر اتنی تحقیقات ہوسکتی ہے؟ اس کا
گرفتار کرنا بھی سود مند نہیں تھا۔ پاکستانی پولیس ، جو کسی بھی ملزم کو
مجرم ثابت کرنے بھی ثانی نہیں رکھتی، وہ بھی اس معاملے میں بے بس ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتا آخر رن وے پر آیا کیوں؟
قائین کرام! اس سوال کا جواب کوئی بھی معرکہ آراء مسئلہ نہیں۔ ظاہری بات ہے
کتا رن وے پر اس لیے آیا کہ وہ کتا تھا۔ کتے سے ہی اس کمینے پن کی توقع کی
جاسکتی ہے۔ اگر وزیر اعظم کے پورے دورے پر نظر دوڑایا جائے تو کسی نے بھی
ان کے سامنے آنے اور ان کا راستہ روکھنے کی کوشش نہیں کی ہوگی۔ بس اسی ایک
عجیب اتفاق سمجھیے یا پھر کتے کی بہادری۔ آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر پر بسنے
والے بیس کروڑ عوام پر حکومت کرنے والے کا راستہ کون روک سکتا ہے۔ یقینا
وطن عزیز کے پورے قوم کو معلوم ہے کہ اگر کسی نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی
تو اس کے خلاف تحقیقات کرکے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
قارئین کرام وطن عزیز کے موجودہ صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو یقینا
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وزیر اعظم یا کسے بڑے افسر کا راستہ روکھنے والا
اگر انسانوں میں سے کوئی ہوتا تو ضرور اس کے ارادے نیک نہ ہوتے۔ ایسے شخص
کو سخت سزا دینے پر کوئی بھی احتجاج نہ کرتا۔ لازمی طور پر اپنے بڑوں کی
حفاظت ہم پر فرض ہیں۔ اس سے پہلے کہ اگر کوئی ان پر بری نظر رکھے، ہم اسے
حرکت کرنے کا موقع نہیں دیں گے۔
کتے تو کسی کا بھی راستہ روک لیتے ہیں۔ اس میں بہادری کی کونسی بات؟ مگر
خبر واقعی حیراکن بھی تھی، دلچسپ بھی اور دل سوز بھی۔
حیران کن اس لیے کہ ائیر پورٹ پر اتنی سیکیورٹی کے باوجود کتا کیسے آگیا؟
دلچسپ اس لیے کہ وزیر اعظم کا سامنا کسی عام شہری کے بس کی بات نہیں لیکن
یہاں ایک کتے نے ان کا راستہ روک کر انہیں انتظار کے اذیت میں مبتلا کر دیا۔
دل سوز بات یہ کہ ایک کتے کے گھٹیا حرکت کا ذمہ دار ایک ملازم کو ٹھہرایا
گیا اور اس واقعے کے نتیجے میں ائیر پورٹ منیجر کو بر طرف کردیا گیا۔
قارئین کرام! یقینا اس واقعے کے بارے میں کسی بھی تبصرے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
بس ایک سوال ہے۔ آپ سے بھی، حکومتی مشینری سے بھی، قانون کے رکھوالوں سے
بھی، وزیر اعظم پاکستان سے بھی اور صدر مملکت سے بھی، ’’کیا ایک کتے کے
وزیر اعظم کا راستہ روکھنے پر کسی ملازم کو مورد الزام ٹھہرانا اور اس کے
خلاف کارروائی کرکے اسے نوکری سے ہٹاناانصاف کا تقاضا ہے یا اسے ظلم کہا جا
سکتا ہے؟‘‘ |