بنیادی جمہوریت ترقی و کامرانی
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
ہمارے ہاں ہر نئی آنے والی حکومت
جمہوری روایات اور جمہوری استحکام کے دعوے تو کرتی ہے لیکن اس حقیقت کو نظر
انداز کر دیاجاتاہے کہ محض قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتیجے میں
مرکز اور صوبوں میں منتخب ہونے والی حکومتوں کے قیام سے جمہوریت مستحکم
نہیں کی جا سکتی قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو جمہوری استحکام کی
جانب سفر کا آغاز تو قرار دیا جاسکتاہے منزل نہیں کہا جاسکتا جمہوری
استحکام نہ صرف بلدیاتی انتخابات بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور آئین
وقانون کی بالادستی سے عبارت ہے اگر کوئی حکومت آئین وقانون کی بالادستی کو
یقینی نہیں بناتی شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دیتی اور ایک منصفانہ
معاشرہ قائم نہیں کرتی تو اسے کسی صورت جمہوری حکومت نہیں قرار دیاجاسکتا
جمہوری استحکام کے لئے بلدیاتی انتخابات بنیادی جزو ہیں۔ بلدیاتی انتخابات
کی افادیت اور اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جب سے مسلم لیگ ن کی حکومت
آئی تھی بہت سے مبصرین کو یہ خدشات تھے شاید حکومت بلدیاتی انتخابات منعقد
کروانے کی کوشش ہی نہ کرئے بعدا زاں ان کے یہ خدشات سچ نظر آنے لگے جب
حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے علاوہ دیگر کئی آپشن جن میں کمشنری نظام ،نمبرداری
نظام پر غور شروع کیا لیکن صورت حال حکومت کے لئے اس وقت مشکل ہو گئی جب
سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے ان انتخابات کو منعقد کروانے کے لئے شیڈول
مانگا سپریم کورٹ نے پورے ملک میں ستمبر تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا
حکم دیاسپریم کورٹ نے ستمبر تک پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا حکم دے کر
جمہوریت اور قوم کی بڑی خدمت کی ہے مقامی سطح پر شہریوں کے بیشتر مسائل کی
وجہ محض مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی ہے اگر تسلسل کے ساتھ بلدیاتی
انتخابات منعقد ہوتے تو معاشرے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوسکتی تھیں
اور عوام کے ساتھ ہونے والی بہت سی ناانصافیوں کا تدارک کیاجاسکتااب جبکہ
پنجاب کے چند اضلاع میں کامیابی سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جا چکا
ہے اور اس پہلے خیبر پختون خواہ میں بھی کامیابی سے انعقاد کیا جا چکا ہے
یہ بات خوش آئیند ہے کہ حکومت نے اس معاملے کو بہتر طریقے سے حل کیا ہے اس
طرح سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں گے اور گراس روٹ لیول سے انشاء اﷲ
ایسی قیادت ابھر کر آئے گی جو ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر
سکے گی اس طرح سے ملکی قیادت میں نیاخون شامل ہو گا اور نئے لوگ آنے سے
یقینا ایک ایسا سسٹم تشکیل پائے گا جس میں ترقی و کامرانی ہو گی ان
انتخابات کے انعقاد میں عوام کا جوش خروش دیدنی ہے عوام کی اکثریت ان میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے ہاں البتہ ایم این ایز اور ایم پی ایز ان
انتخابات کو اپنے اختیارات کو محدود کرنے سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ اگر یہ
نظام کامیابی سے امپلیمنٹ ہو گیا تو پھر ترقیاتی پروجیکٹس میں ان ایم این
ایز اور ایم پی ایز کا کردار محدود ہو جائے گا اور علاقائی سطح پر یو سی
چئیر مین اور یو سی کی سطح پر بننے والے امیدوار زیادہ طاقت ور ہو جائیں گے
اور ایک ایم این ایز کو اپنے قومی الیکشن کے لئے اس مقامی قیادت کے مرہون
منت ہو نا پڑے گا اس کا ایک فائدہ یہ ضرور ہو گا کہ جو ایم این ایز یا ایم
پی اے الیکشن جیت کر صرف اپنے حلقے کو نو گو ایریا سمجھ لیتے ہیں وہ حلقے
میں ضرور نظر آیا کریں گے اور اگر وہ حلقے میں نظر نہیں آئیں گے تو پھر اس
کا انجام ان کی ہار پر ختم ہو گااب جبکہ یہ مرحلہ انتہائی خوش سلوبی سے چل
رہا ہے اور حکومت کو چاہیے کہ آگے کی پلاننگ کرتے ہوئے وہ تمام امور سر
انجام دے لے جو اس کے بعد مئیر اور ڈپٹی مئیر کے الیکشن کے دور ان اختیارات
کے بارے میں اہم ہیں کیونکہ کہ ایک مئیر کی پاور کے بارے میں ابھی سے باتیں
ہونا شروع ہو چکی ہیں اس بارے میں ایم این ایز کی تحفظات کو دور کرنے کے
ساتھ ساتھ مناسب قانون سازی بھی ہونی چاہیے کیونکہ ماضی میں بھی اگرچہ
حکومتوں نے ان انتخابات کا انعقاد تو کروا لیا بعد ازاں اختیارات پر ایک
ایسی لامتناہی جنگ شروع ہو گئی جس میں بہت سا وقت ضائع ہو گیا اور اس طرح
عوام کوبلدیاتی انتخابات سے بد دل کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہ بات بھی روز
روشن کی طرح عیاں ہے کہ گراس روٹ لیول پر اختیارات کی منتقلی سے ہی عوام
مسائل کا ناصرف حل نکالا جا سکتا ہے بلکہ ملکی ترقی اور علاقائی ترقی اور
جمہوریت کے فروغ کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے حکومت کو ایسے اقدامات بھی
کرنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات کے فوری بعد مقامی نمائندوں کو وہ تمام
اختیارات تفویض ہو جائیں جن کا تقاضا بلدیاتی انتخابات کرتے ہیں۔ |
|