امسال حج بیت اﷲ کے موقع پر مسجدالحرام میں
کرین حادثے کے بعدمنیٰ کے حادثے نے ساری مسلم دنیامیں غم کی لہردوڑادی۔
مسلم اُمہ رنج والم کا شکارہوئی تواسلام دشمن قوتوں نے اس حادثہ کو
مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے ،انہیں باہم لڑانے اور فرقہ وارانہ دہشت
گردی کے نئے سلسلے کی داغ بیل ڈالنے کے لیے قوتیں صرف کرناشروع کیں۔
دونوں حادثات کے بعد برطانیہ سے تعلق رکھنے والے اور دنیاکے سب سے بڑے
نشریاتی ادارہ ہونے کے دعویدار بی بی سی نے توجیسے باقاعدہ منظم جنگ ہی
چھیڑدی۔بی بی سی کی ویب سائٹ پر کتنے دن سب سے بڑی خبریہی دیکھنے کوملتی
رہی کہ’’ سانحۂ منیٰ کے تناظر میں ایران کی حکومت سعودی عرب پرسخت نکتہ
چینی کر رہی ہے۔ صدر کے علاوہ روحانی لیڈر اور دیگراعلیٰ ایرانی حکام
دنیابھر میں سعودی عرب کو تنقیص کا نشانہ بنارہے ہیں۔ اقوام متحدہ اورعالمی
عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرنے کے اعلان کیے جارہے ہیں۔‘‘وغیرہ وغیرہ۔یہی
نہیں، باربارساتھ ہی لکھاجاتا رہاکہ سعودی عرب پر کئی مسلم ممالک کی جانب
سے سانحۂ منیٰ پر مذمت ہورہی ہے لیکن حیران کن معاملہ دیکھئے کہ ان ’’ممالک‘‘
میں سے نام، سوائے ایران کے کسی اور کا دیکھنے یا سننے کو نہ ملا۔
حادثے کے اگلے ہی روز ایران جتنی ہی آبادی لیکن اس سے کہیں زیادہ معاشی اور
عالمی طاقت رکھنے والے ملک ترکی کے صدررجب طیب اردوان کابیان آیا کہ’’ اس
حادثے میں سعودی عرب کاکوئی قصورنہیں‘حج انتظامات بالکل صحیح تھے‘لہذا اس
حوالے سے سعودی عرب کو کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ ‘‘کیسی کمال بات ہے کہ اتنے بڑے
ملک کے سربراہ حکومت کایہ بیان عالمی میڈیا میں کہیں کوئی اہمیت حاصل نہ
کرسکاکیونکہ اس کو جگہ دینے سے مسلمانوں کو باہم لڑانے اور حکومت سعودی عرب
کو نشانہ بنانے کی عالمی سازشی مہم کو نقصان پہنچنے کااندیشہ تھا۔
ساری مسلم دنیامیں سعودی عرب کومطعون کرنے کے لیے میڈیا سے تعلق رکھنے والے
کئی سازشی اداروں نے جھوٹ کی انتہا کردی۔پریس ٹی وی نامی ادارہ تو اس مہم
میں پیش پیش رہا۔حد تویہ ہوئی کہ سانحہ منیٰ کے حوالے سے فرضی‘ پرانی اور
جھوٹی ویڈیوز بھی چلاچلاکر سعودی عرب پررکیک حملے کیے جاتے رہے ۔ ان طبقات
کو اپنی مخصوص نفرت کو پھیلاتے ہوئے اتنا بھی خیال نہ آیاکہ ہم جوعمارت ریت
سے تعمیر کر رہے ہیں‘ اس کی تو بنیاد رکھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ایسے ہی
عناصرکی جانب سے ایک ویڈیو دکھاتے ہوئے کہاگیاکہ رمی جمرات کے موقع پر
سعودی وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان اپنے قافلے کے ہمراہ آئے تھے ۔ان کی
خاطر راستے بند کیے گئے تھے جس کے باعث بھگدڑمچ گئی اورایک ہزار کے لگ بھگ
حاجیوں کی اموات واقع ہوگئیں لیکن جب اس ویڈیو اور جھوٹ کا معمولی ساپردہ
شق ہوا تو پتہ چلاکہ شہزادہ محمد تو رمی جمرات کے لیے سرے سے ہی نہیں آئے
تھے اوریہ بھی سب لوگ جانتے ہیں کہ وی آئی پی مہمانوں کی رمی جمرات کے لیے
عمومی راستے استعمال ہی نہیں ہوتے۔اس کے لیے تو زیر زمین الگ سے مکمل اور
وسیع راستہ ہے ،جہاں تیز رفتار گاڑیاں چلتی ہیں ۔وہاں آنے والے عازمین کا
توکسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ آئے کس طرف سے تھے اور واپس کس طرف سے
گئے ہیں۔
ایک اور فراڈویڈیومیں ایک عرب شخصیت کو ایک گاڑی میں بیٹھ کرکنکریاں مارتے
تودکھایاگیالیکن یہ دکھانے والے جھوٹ کے بادشاہ چوروں کویہ خیال تک نہ
آیاکہ ہم یہ تودیکھ لیں کہ مذکورہ شخصیت نے توحج کالباس یعنی احرام پہن ہی
نہیں رکھا تووہ حج میں رمی کیسے کررہے ہیں؟ اورجہاں سے وہ رمی کر رہے ہیں
‘وہاں دور دور تک کسی انسان کانام ونشان بھی نہیں۔کیا حج کے لیے آئے 35
لاکھ لوگوں کویک لخت وہاں سے ہٹا دیا گیاتھا؟ پھر جب اس ویڈیوکی انٹرنیٹ
پرمزید لیکن معمولی سی تحقیق کی گئی تویہ بات فوری کھل کر سامنے آگئی کہ یہ
ویڈیو تو2012ء کی ہے جسے اب جھوٹے لوگ حج کی رمی بتاکر بھگدڑ مچنے کی وجہ
قرار دے رہے ہیں۔پھرایک اور جھوٹ میں بتایاگیا کہ جو لوگ بھگدڑ
کاشکارہوکرشہادت سے ہمکنارہوئے‘ ان کی لاشوں کو سعودی انتظامیہ کی جانب سے
بلڈوزروں سے ہٹایا اور اٹھایاگیا۔یہ جھوٹ بھی فوراً آشکار ہوگیا تو پتہ چلا
کہ یہ تصویریں 2006ء میں ہونے والے حادثے کی ہیں جن میں حجاج کرام کے سامان
کو جائے حادثہ سے ہٹانے کے لیے بلڈوزر لائے گئے اور فوری راستے صاف کیے گئے
تھے۔تاکہ کوئی اوربڑاحادثہ نہ ہو۔ساتھ ہی ایک تصویرمیں شہیدہونے والوں کے
اجسادخاکی کے اوپر نیچے لگے ڈھیردکھائے گئے کہ دیکھئے جناب !شہداء کی کیسے
توہین کی جارہی ہے۔حالانکہ یہ تصاویر بھی بہت پرانی تھیں۔حج پرجانے والے
سبھی لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دوران حج ایساحادثہ اس وقت ہوتا ہے
جب رمی کرنے والے حجاج کے چلتے ہوئے راستے میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ
آجائے۔اس رکاوٹ کے باعث اگلے حجاج رکتے‘پھر آگے پیچھے گرتے چلے جاتے ہیں ۔پیچھے
سے لاکھوں کی تعداد میں آنے والے لوگ اس بات سے تو واقف ہی نہیں ہوتے کہ
آگے صورتحال کیاہے؟سووہ اپنی رفتارسے آگے بڑھتے جاتے ہیں‘یوں ایک دوسرے پر
گرنے اوراوپرنیچے ڈھیرلگنے کاسلسلہ شرو ع ہوجاتاہے۔ ایسامنظر توہمارے ہاں
چھوٹے چھوٹے جلسوں اورہنگاموں میں بھی کئی دفعہ دیکھنے کومل جاتاہے۔اس طرح
کے دوتین حادثات کے بعد سعودی حکومت نے چند سال پہلے رمی جمرات کے لیے ایک
عظیم الشان اور منفرد منصوبہ شروع کروایا تھااور رمی کے لیے جمرات پرایک پل
کے بجائے 5پل بنائے گئے۔ اسی طرح جمرات کو 5پلوں کے برابرا ونچا کرنے کے
ساتھ ساتھ انہیں چند فٹ سے چوڑا کرکے 72 فٹ تک چوڑا بھی کیاگیا ۔ کنکریاں
مار کرالٹے قدموں واپسی کے سوا چودہ سوسال سے زائد عرصہ سے جاری طریقے
کوختم کرکے رمی کے بعد واپسی کی بجائے آگے چلے جانے کاطریقہ اختیار کیاگیا۔
اربوں ڈالر خرچ کرکے جمرات پرجو5پل بنائے گئے‘ اس سے راستہ اگرچہ کافی طویل
ہوا لیکن ٹکراؤ اور رکاوٹیں سرے سے ختم ہوگئیں۔ یوں بیک وقت 50 لاکھ افراد
کی بآسانی رمی کاانتظام کیاگیا۔گرمی‘حبس اورتھکن کا شکار ہونے والے عازمین
حج کے لیے ٹھنڈی ہوا والے پنکھوں ‘پانی اور چھتریوں تک کاانتظام کیاگیا۔
صرف یہی نہیں سعودی حکومت نے کنکریاں مارنے کاعمل محفوظ ترین بنانے کے لیے
منیٰ کے خیموں سے جمرات کی طرف آنے کے لیے 12 داخلی اور خارجی پوائنٹ بنائے
۔ یہاں جو پل بنائے گئے ہیں ‘وہ 950 میٹر طویل ، 80 میٹر چوڑے
اور12میٹربلند ہیں۔اگران داخلی و خارجی راستوں کاصحیح استعمال کیا جائے تو
رمی کے دوران حادثے کا امکان سرے سے ختم ہوجاتاہے۔اس سب کے باوجود جب سانحۂ
منیٰ پیش آگیا تو اس کے بعد بغیر تحقیقات اور سچا ئی جانے بغیر حاسدین کی
جانب سے جو طوفان کھڑا ہوا‘اس نے ساری سازش کوخود ہی کھول دیا۔
سعودی حکومت عازمین حج و عمرہ کی خدمات کے لئے کس قدر مستعد و متفکر ہے اس
کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سال سعودی عرب نے حج
کے موقع پر صفائی ستھرائی کا جو ٹھیکہ دیا ‘صرف وہ ایک ٹھیکہ اڑھائی ارب
ریال یعنی کوئی 75 ارب روپے کاتھا۔ اس سب کا مقصد حجاج کرام کو ہرطرح کی
ہرممکن سہولت و آرام مہیا کرنا تھا۔
حرمین شریفین میں ہرسال ہرملک سے لاکھوں لوگ جاتے ہیں اور ہرکوئی واپسی پر
سعودی حکومت کے اعلیٰ ترین انتظامات ‘مہمان نوازی‘ اکرام‘تیزرفتاری اور
مساوات کی تعریفیں ہی کرتانظرآتاہے۔عازمین حج وعمرہ کے لیے خاص طورپرٹریفک
کے حوالے سے جتنابڑاسڑکوں کا نیٹ ورک سعودی عرب میں تعمیرکیاگیاہے‘وہ آج تک
کسی جدید ترین ملک میں بھی نہیں دیکھاجاسکتا۔ ان سڑکوں‘ پلوں‘ فلائی اوورز‘
سرنگوں پراربوں ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں۔اسی طرح صحت عامہ کے حوالے سے مثالی
سہولیات موجودہیں۔امسال بھی صرف3دن کے لیے مکہ‘ عرفات‘ منیٰ میں بڑے جدید
ہسپتال کے علاوہ درجنوں چھوٹے کلینک قائم کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ 937
نمبر پر ہیلپ لائن بھی شروع کی گئی‘جہاں پانچ بڑی زبانوں میں حجاج کو
معلومات اور سہولیات 24 گھنٹے مسلسل فراہم کی جا رہی ہیں۔ مناسک حج کے
دوران ایک لاکھ کے قریب سکیورٹی اہلکار‘سول ڈیفنس کے اہلکار‘ درجنوں ہیلی
کاپٹر اورسینکڑوں ایمبولینسیں تعینات تھیں۔ کئی ہزار سی سی ٹی وی کیمرے بھی
نصب تھے۔اس سے قبل عام طورپر ماضی میں ایسے حادثے منیٰ میں خیموں میں
آتشزدگی کے باعث پیش آیا کرتے تھے جس کے بعد فائرپروف ائیرکنڈیشنڈ خیموں کے
انتظام سے یہ حادثات ختم ہوکر رہ گئے تھے لیکن شومئی قسمت کہ تقدیر کا لکھا
ٹل نہ سکا اور یہ حادثہ پیش آگیا۔ |