اگر یہ کہا جائے کہ ”پاکستان کی
غیر فوجی امداد، نظریہ نماز اور نمازی کلچر کے خاتمے سے مشروط ہے“ تو آپ
خود بتایئے کیا اس میں کامیابی ہوگی؟ اور اگر حکومت عاقبت نااندیشی کا ثبوت
دیتے ہوئے اس مہم کو سر کرنے کیلئے لنگوٹے کس لیتی ہے تو نتیجہ کیا ہوگا؟
پھر یہ صرف نماز ہی نہیں دین اسلام کے کسی بھی رکن اور حکم کے متعلق یہی
بات دھرائی جائے تو کیا مسلم عوام اسے برداشت کرے گی؟
ایمان ویقین کی دولت سے عاری مخلوق کی تو بات ہی نہیں لیکن جو شخص لذت
ایمانی سے سرشار ہو، دل کے کسی دور کے گوشے میں ہی سہی ایمان کی کوئی دبی
ہوئی چنگاری موجود ہو وہ یقیناً ایسی امداد پر بھی لعنت بھیجے گا اور ایسی
کسی بھی مہم کا حصہ بننا تو کجا، اس کا ڈٹ کا مقابلہ کرے گا۔ یقین نہ آئے
تو کسی نمازی نہیں بلکہ ایسا مسلمان جو سال میں عیدین کے علاوہ مسجد اور
نماز کا رخ ہی نہ کرتا ہو اس کے ایمان کو ٹٹولیے اور پوچھئے کہ جناب آپ سال
بھر نماز تو پڑھتے ہی نہیں صرف ایک کام اور کرو کہ نظریہ نماز سے انکار
کردو اور اس سے دستبردار ہو جاﺅ ہم تمہارے لئے مال ودولت کے ڈھیروں جمع
کردیں گے ،آپ کی ہر خواہش کو پورا کردیں گے اور دیکھو جب نماز پڑھتے نہیں
ہو صرف نظریہ نماز سے انکار نہ کرنے کی وجہ سے آرام و آسائش سے محروم ہونا
عقلمندی اور مصلحت نہیں ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ یہ چھوٹا سا کام کرو۔
نظریہ نماز سے دستبردار ہوجاﺅ اور ہر ملک سے امداد حاصل کرو ہر جگہ آﺅ بھگت
کے مزے اڑاﺅ اور ہاں اگر یہ کام نہ کیا تو پھر....؟
قارئین آپ خود بتائیں اس صورت حال میں ایک مسلمان کا ردعمل کیا ہوگا؟کیا
یہی نہیں ہوگا کہ وہ باوجود بے نمازی ہونے کے یکلخت غیرت ایمانی سے جوش میں
آکر گرج کر کہے گا ظالمو! اگر میں نماز نہیں پڑھتا تو زیادہ سے زیادہ
گنہگار ہی ہوں گا لیکن تم نظریہ نماز سے دستبردار کرا کے مجھے دولت ایمان
سے تہی دامن کرنا چاہتے ہو حالانکہ دنیا کی سب سے قیمتی متاع”ایمان “ ہے
اور ایک مسلمان اپنے”ایمان“ کے سامنے دنیا کی کسی بھی دولت کو ٹھکرا سکتا
ہے لیکن”ایمان“ سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ اس کیلئے بیوی بچے قربان کرنا
پڑیں بے دریغ قربان کردیئے جائیں گے۔ ہجرت کی تکلیف دہ گھاٹیاں عبور کرنا
پڑیں کوئی حرج نہیں، قید وبند کی صعوبتیں اس ایمانی لذت کے سامنے ہیچ ہیں
طاقت،بربریت اور ظلم وستم کا کوئی بھی حربہ ہو اس نظریہ سے دستبردار نہیں
کراسکتا۔
اب کتنے احمق ہیں وہ لوگ جو نظریہ جہاد اور جہادی کلچر کے خاتمے کی آس
لگائے بیٹھے ہیں اور یہ اعلان کررہے ہیں کہ پاکستان کی امداد جہادی کلچر کے
خاتمے سے مشروط ہے،حالانکہ ایک مسلمان جس طرح نظریہ نماز سے دستبردار نہیں
ہو سکتا اسی طرح نظریہ جہاد سے بھی دستبردار نہیں ہو سکتا جس طرح مسلم
معاشرے سے نمازی کلچر کا خاتمہ ناممکن ہے اس طرح جہادی کلچر کا خاتمہ بھی
ناممکن ہے خاص کر جبکہ قرآن کریم، نماز کے حوالے سے وہ کچھ قربان کرنے کا
حکم نہیں دیتا جو جہاد کے حوالے سے ہے، قرآن تو صاف کہتا ہے کہ ”ماں، باپ،
اولاد، بھائی، بیویاں، رشتہ دار، مال ودولت، کاروبار وتجارت اور پسندیدہ
مکانات ان میں سے کوئی چیز بھی جہاد سے رکاوٹ نہیں بننی چاہیے “اس سے ان
اعلان کرنے والی طاقتوں کو اندازہ لگانا چاہیے اور ان کے سامنے دست سوال
دراز کرنے والے بھی یہ بات اپنے دل ودماغ میں بٹھا لیں کہ جہادی کلچر کو
ختم کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ہاں جتنا اس کلچر کو ختم کرنے کی کوشش
کی جائے گی یہ اسی قدر طاقت سے ابھرے گا۔ پاکستان کے حکمرانوں کو بھی ہوش
کے ناخن لینے چاہیے شاید وہ سمجھیں کہ ہم امریکی امداد وتعاون سے واقعی
جہادی کلچر کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن....
ایں خیال است ومحال است وجنوں
اور اس اعلان سے ان لوگوں کی خوش فہمی بھی دور ہو جانی چاہیے جو یہ خیالی
جنت ذہن میں بسائے بیٹھے ہیں کہ نئے امریکی صدر اوباما جادو کی کوئی ایسی
چھڑی لیکر آئے ہیں جو دنیا کا رخ تبدیل کردے گی اور ہر جگہ قتل وتشدد ختم
ہو کر امن وامان قائم ہو جائیگا ایسا بالکل نہیں یہ بھی مسلم دشمنی اور
جہاد دشمنی میں بش سے کم نہیں ہے ہاں بش کی پالیسیوں کو تبدیل ضرور کرے گا
مگر مقصد ایک رہے گا بالفاظ دیگر
نئے شکاری پرانے جال
پاکستان کے حق میں یہی بہتر ہے کہ اس امداد کے جھانسے میں آکر انسانیت کے
دشمن، خون مسلم کے پیاسے امریکہ کی انگلیوں پر مت ناچے یہ ملک اسلام کے نام
پر بنا ہے یہاں مسلمان رہتے ہیں جہاد ان کے ایمان کا جز ہے جو خون کی طرح
جسم کے رویں رویں میں رواں دواں ہے۔ سات، آٹھ سال تک پوری دنیا کی کفریہ
طاقتیں سر توڑ کوشش کے باوجود اس میں ناکام ہو چکی ہیں اب وہ پاکستان جیسی
اسلامی ایٹمی طاقت کو اس آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں تاکہ اگر ہمیں فتح نہ
بھی ملے کم ازکم اسی سے دل کو بہلائیں کہ چلو ہم نے مسلمانوں کو آپس میں
ایک دوسرے سے لڑوا کر تو خوب نقصان پہنچایا ہے۔ اوباما اور عالمی طاقتیں
اگر واقعی امن چاہتی ہیں تو مسلم ممالک سے اپنی فوجیں واپس بلالیں اور
مسلمانوں کے ساتھ جانبدارانہ رویہ ترک کردیں اسی میں ان کی بھلائی ہے ورنہ
جس طرح ایک وقت میں برطانیہ، روس اور اب بش یہ اعتراف کرتے ہوئے اپنی شکست
کا داغ لیکر رخصت ہو چکے ہیں اوباما اور نئی امریکہ انتظامیہ بھی کل کلاں
اسی حالت سے دو چار ہوگی۔
کچھ اہل ستم،کچھ اہل حشم میخانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ گئے، دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے |