پیغام اقبال

بہ افرنگی بتاں خودرا سپردی
چہ نامردانہ دربتخانہ مردی
خردبیگانہ دل، سینہ بے سوز
کہ ازتاک نیاگاں مے نخوردی

” اے دورِ حاضر کے مسلمان! تو نے خود کو فرنگی (انگریزوں)بتوں کے حوالے کردیا اور بزدلی سے اُن کے بتخانہ میں یوں سہما پڑا ہے گویا بے جان لاشہ ہے۔ اے مسلمان! تیرا دل عقل وخرد سے بیگانہ اور سینہ سوز سے خالی ہے کیونکہ تو نے اپنے اسلاف کی شراب نہیں پی اور ان کے نقوش راہ کو نہیں اپنایا“۔
ایک دن قبل ملک بھر میں یوم اقبال منایا گیا۔ مختلف تقریبات وسیمینارز منعقد ہوئے، اخبارات ورسائل نے خصوصی اشاعتیں پیش کیں، ہرکسی نے اقبال کو مختلف زاویوں سے دیکھا، پرکھا اور اپنے نتائج قوم کے سامنے رکھے۔ پاکستان نے اقبال کی شخصیت اور افکار کو عام کرنے اور ان کے پیغام کونسل نو تک منتقل کرنے میں کافی بہتر کارکردگی دکھائی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اعلیٰ سطح پر اور داخلی وخارجی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے افکاراقبال سے نہ کوئی رہنمائی لی گئی اور نہ ہی ان کی روشنی میں اپنے عمل وکردار کاجائزہ لیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج اقبال کی شخصیت محض تحریروں میں زندہ ہے۔ کوئی ان کے پیغام پر عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں۔

اقبال کے افکار کی تازگی وافروزگی سے لطف اندوز ہونے کیلئے ہم نے بھی اپنے سامنے رکھی ”ارمغان حجاز“ اٹھائی تو خود سے اور پوری ملت سے اقبال کو خطاب کرتے ہوئے پایا۔ قدم قدم پر یہی محسوس ہوا کہ اقبال اِس بے حس ملت کو جھنجھوڑ رہے ہیں، زوال پذیر امت مسلمہ کو عروج ونشاة کی راہیں بتلا رہے ہیں۔ درد وسوز اور حقائق سے لبریز ایسا دلکش پیغام دے رہے ہیں کہ انسان پڑھتا جائے اور عش عش کرتا جائے۔ آج کی محفل میں کلام اقبال سے کچھ انتخاب پیش کیا جاتا ہے اس امید سے کہ شاید ہمارے لئے مینارئہ نور کا کام دے سکے۔

ایک مومن کی کیا شان ہوتی ہے اور جو مومن رموز دیں سے باخبر وآگاہ ہو اس کا طرز عمل کیا ہوتا ہے:
مسلمانے کہ داندرمزدیں را
نساید پیش غیراللہ جبیں را
اگر گردوں بہ کام او نہ گردد
بکام خود بگرداند زمیں را

”وہ مسلمان مرد مومن جو دین کے حقائق ورموز سے آشنا ہے، وہ کسی باطل قوت کے آگے پیشانی خم نہیں کرتا۔ اگر آسمان اس کی خواہش کے مطابق نہ گھومے تو وہ زمین کو اپنی خواہش کے مطابق گھمانے لگتا ہے“۔

یہ ہے ایک کامل مومن کی نشانی جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے باطل قوتوں کی سجدہ ریزیاں نہیں کرتا نہ ہی اپنی قسمت دوسروں کے ہاتھوں گروی رکھ کر بیکار بیٹھنا گوارا کرتا ہے وہ تو اپنی جدوجہد اور سعی وعمل سے مقاصد کی راہیں صاف کرتا اور مشکلات پر قابو پاتا ہے۔ اگر یہ سوال ابھرے کہ مسلمان کیسے اپنے عمل سے نقوش حیات مرتب کرے آخر اسے کوئی نمونہ اور آئیڈیل بھی تو چاہئے۔ آج افرنگ (انگریز) سیاست پر چھائے ہوئے ہیں، معاشیات ودنیاوی تگ ودو میں دھی آگے ہیں تو بھلا ان کی خوشہ چینی میں کیا حرج ہے؟ یہ سن کر اقبال پھر تڑپ اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں اس دھوکہ میں نہ پڑنا سنو اگر سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہو!
زافرنگی صنم بیگانہ شو
کہ پیمانش نمے ارزد بیک جو
نگا ہے وام کن ازچشم فاروق
قدم بیباک نہ درعالم نو

”اے مسلم حکمران! تو فرنگی (انگریز) بت سے بیگانہ ہو جا، یورپی سیاست، معاشرت، طرز معیشت اور طرز تہذیب وثقافت کی نقالی وکاسہ لیسی چھوڑ دے کیونکہ اِن کی یہ جامِ شراب یعنی ان کی طرز حیات خالقِ ارض وسما کے نزدیک ایک جَو کی قیمت بھی نہیں رکھتی بلکہ اگر تو کامیابی اور اپنے وجود کو قیمتی بنانا چاہتا ہے تو فاروق اعظم (رض) کی آنکھوں سے ایک نگاہ قرض لے اور پھربے خوف ہوکر دنیا میں قدم رکھ، تمہارے رہبر واسوہ برطانیہ وامریکہ اور جاپان وفرانس یا روس وغیرہ نہیں بلکہ فاروق اعظم (رض) جیسے اسلام کے عظیم سپاہی کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھو، ان کی غیرت وحمیت، دینی اقدار کی نگہداشت وحفاظت اور خودی وخودداری کے فلسفے کو سامنے رکھ کر راہ زندگی میں قدم رکھو اور پھر حوادت زمانہ سے بے خوف ہو جاﺅ، زمانہ آج تک ان کے نقوش کو نہیں دھندلاسکا، وہ کامیاب زندگی گزار کر چلے گئے اب تم میں سے جوان کے نقوش حیات سے روشنی لے گا وہی عالم میں اپنا لوہا منوائے گا اور بے خوف زندگی گزارے گا ورنہ سب کچھ ہونے کے باوجود خوف وذلت سائے کی مانند جڑے رہیں گے۔یہ مت سمجھنا کہ یورپی تہذیب وسیاست سے ناطہ توڑ کر، گویا ساری دنیا سے الگ تھلک ہو کر ہم جیئیں گے کس طرح کیونکہ:
خنک مرداں کہ سحر او شکستند
بہ پیمان فرنگی دل نہ بستند
مشونو میدوباخودآشناباشی
کہ مرداں پیش ازیں بودوہستند

”وہی قومیں خوش بخت اور مبارک ہیں جنہوں نے فرنگی تہذیب کا جادو توڑا اور انگریزوں کے عہدوپیمان سے دل لگایا، نہ اس پر بھروسہ کیا، اس لئے اے ملت اسلامیہ! تم بھی یورپ سے ناطہ توڑ کر ناامید مت ہونا بلکہ اپنے مقام کو پہچانو اور آگے بڑھو کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسے دلیر مرد کامل گزرے ہیں اور آج بھی ہیں جنہوں نے باطل قوتوں سے ٹکرا کر اُن کا خاتمہ کیا اور حق کا بول بالا کیا“۔

آج کلام اقبال کی روشنی میں دیگر مسلم حکمرانوں کو تو چھوڑئیے مصور پاکستان کے پاکستانی حکمرانوں کے کرداروعمل ہی کا جائزہ لیا جائے۔ پاکستانی عوام کے جذبات واحساسات کو جانچا جائے تو سوائے سخت مایوسی کے کیا ہاتھ آتا ہے....؟ کہاں اقبال کا بار بار یہ رونا کہ مسلمانو! فرنگی شاطروں سے دور رہو، ان کی سجدہ ریزیوں سے گریز کرو، ان کے عہدوپیمان پر بھروسہ نہ کرو، اپنے اندر ایمانی صفات پیدا کرو، فاروق اعظم (رض) جیسا عدل وانصاف اورطریقِ حکومت و طرز خلافت کے احیاء کی کوشش کرو، یورپی تہذیب وثقافت سے دل بستگی نہ کرو، ان کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب نہ ہو، ان کا طرز حیات کسی قیمت کا نہیں، اپنے اسلاف سے رشتہ جوڑو، ان کے علوم ومعارف اور ان کے سوزوساز سے تب وتاب حاصل کرو، نا امیدی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دو، دوسری قوموں کے عہدوپیمان اور ان کی امداد و قرضوں سے اپنی قسمت وابستہ نہ کرو، اپنا جہان اپنے جہدوعمل سے پیدا کرو اوریہ راز سمجھو:
قلند میل تقریرے نداد
بجز ایں نکتہ اکسیرے ندارد
ازاں کشت خرابے حاصلے نیست
کہ آب ازخون شبیرے ندارد

”یہ قلندر تقریر کے چکر میں نہیں پڑتا، اِس کے پاس ایک ہی نکتہ اور اکسیر کی بات ہے جو اصل بنیاد ہے اور وہ یہ کہ اُس کھیتی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جس میں خون شبیر (رض) کا پانی نہ ہو، یعنی جب تک مسلماں حضرت حسین (رض) کی طرح حق کی سربلندی کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش نہ کرے اور جہاد فی سبیل اللہ میں عملی طور پر حصہ نہ لے، اس وقت تک محض زبانی کلامی باتوں سے کوئی نفع حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی عزت وبلند مرتبہ نصیب ہوتا ہے۔ وفاداری محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے چاہئے، ان کے دین کی نصرت وآبیاری مطلوب ہے، قرآن وسنت کی پیروی درکار ہے، ملت اسلامیہ کا تحفظ اور ان سے وابستگی ضروری ہے، یہودونصاریٰ اور مشرکین سے قطع تعلقی اور ان کی تہذیب وثقافت کا بائیکاٹ مطلوب ہے۔
کی محمد (ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

ورنہ یہ پیغام بھی سامنے رکھیے:

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے ”تارکِ قرآں“ ہوکر
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 344362 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.