افغانستان، عراق، فلسطین اور
کشمیر وغیرہ علاقوں کے مسلمان تو ایک عرصے سے کفریہ سازشوں کی آزمائش اور
منافقین کی چیرہ دستیوں کا شکار تھے ہی، آج اہل پاکستان اور سوات ومالاکنڈ
کے عوام بھی ملکی تاریخ کی نازک ترین صورتحال اور آزمائش ومشکلات کا شکار
ہیں۔ اہل وطن کو یہ حالات کیوں درپیش آئے، ان کے پس پردہ کون سے عوامل
کارفرما ہیں اوران حالات کا ذمہ دار کون ہے....؟ یہ سوالات اپنی جگہ اہم
ہونے کے باوجود قابل افسوس بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا دشمن اپنی پالیسیوں
میں کامیاب نظرآرہا ہے۔ ایک طرف وہ خود ان اہل ایمان کو کچلنے اور ختم کرنے
کیلئے پوری قوت صرف کررہا ہے جو اُس کے کفریہ نظام کیلئے خطرات کا باعث ہیں۔
دوسری طرف ان کے حامیوں اور مددگاروں کو ختم کرنے اور بدنام کرنے کیلئے یہ
سازش رچا رہا ہے کہ یا تو خود اُن کیخلاف نام نہاد حکمرانوں سے کاروائی
کرواتا ہے تاکہ وہ ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق باہم دست وگریباں ہوجائیں
یا چند جرائم پیشہ اور کم علم وناسمجھ لوگوں کو اُنہی کے نام پر کھڑا کر کے
اُن سے ایسی حرکات کروائی جائیں جو غیرانسانی اور غیر شرعی ہوں کیونکہ اس
بنیاد پر اُن حقیقی محافظین اسلام کو بدنام کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے اور
ان کیخلاف کاروائی کا جواز بھی بآسانی پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ صورتحال یقیناً
ہر درد ِدل رکھنے والے صاحب ایمان کیلئے بے چینی اور بے اطمینانی کا باعث
ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے مگراس کارخانہ حیات کو چلانے والی حقیقی ذات
خداوند قدوس کے نظام کار کو سمجھا جائے تو ان ہزاروں بے چینیوں میں ایک
عجیب طرح کی سکون آویز لہر دل ودماغ کی ٹھنڈک کا باعث بنتی ہے۔ بالکل اسی
طرح جیسے ایک شخص کسی منزل کی طرف رواں دواں ہو اور جس راہ پر چل رہا ہو
اسکے بارے میں اسے ہر طرح سے اعتماد اور یقین ہو کہ یہی راستہ مجھے اس منزل
تک پہنچائے گا اب اگر اسے راستے میں خاردار جھاڑیاں عبور کرنا پڑیں یا سخت
پتھریلی چٹانیں روندنی پڑیں، اس کیلئے اسے جو مشقت برداشت کرنا پڑے وہ اپنی
جگہ مشکلات سے لبریز سہی مگر درست راستے اور صحیح سمت میں سفر جاری رکھنے
کی جو خوشی ہوگی اور اسی حوالے سے وہ جس درجہ مطمئن ہوگا اس کے مقابلے میں
اُن رکاوٹوں اور الجھنوں کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے....؟
ایک مسلمان اور کلمہ گو کو یہی چیز دیگر افراد انسانی کے مقابلے میں امتیاز
اور خصوصیت عطا کرتی ہے کہ اگر وہ صحیح راستے پر چل رہا ہے تب آزمائش، ہجرت
کی پرتکلیف مشقتوں کی صورت ہو، وہ آزمائش ملک وحکومت چھن جانے کی شکل میں
ہو، وہ آزمائش گھر اور وطن سے ہزاروں میل دور مالٹا وکیوبا کے جاں سوز قید
خانوں کی شکل میں ہویا وہ آزمائش اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں ٹارچر سیلوں،
نظر بندیوں اور کال کوٹھریوں کی اذیت ناکیوں سے وابستہ ہو اگر ان تمام
آزمائشوں میں نظر منزل مقصود اور آخرت کی کامیابی پر ہو تو یہی حوصلہ شکن
حالات حوصلہ بڑھانے کا باعث بن جاتے ہیں۔
آج دشمن نے جس طرح ہمیں طرح طرح کی الجھنوں میں ڈال کر اپنی شاطرانہ چالوں
سے غافل کردیا ہے وہ ہمارے لئے اصل فکر کا باعث ہے۔ غربت، مہنگائی، کسمپرسی،
ناانصافی، ظلم وجور، چوری، ڈکیتی، ضروریات زندگی کی ناپیدگی، فضولیات
اورعیاشیات کی فراوانی ایسے پیچیدہ مسائل ہیں جنہوں نے ہر شخص کو اپنی
بیڑیوں میں جکڑ کر دوسری ہر فکر سے آزاد اور ہر غم سے دور کردیا ہے۔ جب ہر
شخص کھانے، پینے اور رہنے سہنے کی ضروریات ہی کے حصول کیلئے سرگرداں ہو تو
بھلا وہ عالمی شاطروں کی چالوں کو کیا سمجھے گا اور ان کا مقابلہ کرنے
کیلئے کیا تدابیر اختیار کرے گا....؟
ہم اپنی حالت پر غور کریں دشمن نے کس چالاکی سے ہمیں طالبان، القاعدہ، شدت
پسند اور دہشت گردی کے بہانے سوات، مالاکنڈ اوردیگر قبائلی علاقوں میں ایسا
الجھا دیا ہے کہ کوئی اس سے ہٹ کر اصلی دشمن کے بارے میں سوچنے، بولنے اور
اس پر توجہ دینے کیلئے تیار ہی نہیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ ہمارا کھلا
دشمن وہ ہے جس نے امارت اسلامیہ پر شب خون مارا، وہ تمام اتحادی ممالک
جنہوں نے مسلمانوں کا خون بہانے میں اپنے فوجی ومادی وسائل کو جھونک دیا۔
وہ تمام ادارے جنہوں نے ایسے اقدامات کی پرزور حمایت کی ہمارے دشمن ہیں۔
جنہوں نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کا خون چوسنے والے اسرائیلی درندے کی
پیٹھ تھپکی اور پشت پناہی کی وہ بھارت جو نصف صدی سے زائد ہونے کو ہے ہمارے
مسلمان کشمیری بھائیوں کے حق آزادی کو سلب کئے ہوئے ہے۔ یہ سب ہمارے دشمن
ہیں مگر ہم ابھی تک دشمن کو پہچاننے میں ناکام ہورہے ہیںاور ابھی تک دشمن
کی تعیین نہیں ہوپارہی اور اگر کبھی تسلیم کر بھی لیا کہ ہاں وہ لوگ ہمارے
دشمن ہیں تب بھی اس سے آگے قدم نہیں اٹھاسکتے حالانکہ جب وہ ہمارے دشمن
ہیں، ہمارے خلاف اپنی تدابیر اور منصوبے بروئے کار لارہے ہیں، اپنے وسائل
اور اسباب ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں تو ہم نے بھی ان کا مقابلہ کرنے
کیلئے میدان میں کیوں نہیں اترتے۔ اپنوں کی طرف سے آنے والے مصائب کو
صبروتحمل اور حکمت وبصیرت سے ٹالتے ہوئے حقیقی دشمن پر کیوں نہیں
جھپٹتے....؟ اگر ہم اسی طرح آپس میں الجھتے رہے ایک دوسرے کو کوستے رہے،
ایک دوسرے کو مٹانے، زیر کرنے کیلئے غیروں سے مدد لیتے رہے اور اُن کے
اشاروں پر ناچتے رہے تو اس میں ہماری ہی ناکامی ہے۔ ہماری ہی جگ ہنسائی ہے۔
چاہئے تو یہ کہ ہم عالمی کفریہ طاقتوں کیخلاف برسرپیکار مجاہدین کی اخلاقی
وسفارتی معاونت اور بھرپور حمایت کرتے ان کی پشت کو مضبوط کرتے، ان کیخلاف
ہونے والی سازشوں سے خود کو دور رکھتے مگر یہ کیا کہ ہم خود ان کی پیٹھ میں
چھرا گھونپنے کے درپے ہیں۔ اُن کیخلاف ہونے والی سازشوں کا دستہ اول کا
کردار ادا کرنے پر تلے ہیں۔ مانا کہ انہوں نے ہمیں مختلف جہتوں سے باہمی
دشمنیوں میں مشغول کردیا ہے مگر کیا ہم سب باہمی دشمنیوں اور رنجشوں کے
کانٹوں سے دامن چھڑاتے ہوئے اپنے اصلی دشمن کے وار کو روکنے اور پسپا کرنے
کیلئے خاصا صبروتحمل اور کامیاب حکمت عملی اپناتے ہوئے قدم سوئے دشمن
اٹھانے کی جرات و کوشش کریں گے....؟ |