ٍٍ اردو مشاعروں کی دنیا میں چند
ایسے بھی حال دیکھے گئے جنہیں حادثے کہنا بھی درست ہوسکتا ہے۔
کچھ باذوق حضرات مشاعروں کا ا ہتمام بحسن خوبی کر دیے،
اس شعری محفل میں شریک شعراء حضرات میں کوئی شاعر شیروانی پہن رکھی تھی، تو
کوئی ویسٹ کوٹ تو کوئی سوٹ بوٹ۔
سر کے سفید بالوں کو ڈھانکنے کے لیے قضاب ہے ہی، بڑے ہی ذوق کے ساتھ بصورت
دولہا تیار ہوکر آئے
مگر دیکھتے کیا ہیں کہ سامعین کا نام و نشان نہیں!
خوشی کی بات یہ کہ پنڈال خالی نہیں ہے ،
اس میں دو لوگ موجود ہیں، افسوس یہ کہ ان دونوں میں سے ایک پنڈال والا
دوسرا مائک اور ساؤنڈ سسٹم والا۔
سب سے حسین بات یہ رہی کہ یہ دو احباب مشاعرے کے آخر تک رہے۔
ایسی صورت میں کسی شاعر کا شعر ضرور یاد آتا ہے
’’ شور و ماتم نہ جنازے پہ ہجومِ احباب: کتنا خاموش غریبوں کا سفر ہوتا ہے
‘‘۔
مایوس شعراء مشاعرہ کے انتظامیہ کو کوستے ہوئے ہجو کہہ گئے اور خود کی حالت
پہ نوحہ خوانی۔
منتظمین حضرات بھی مشاعرے سے توبہ کرلی، اور قسم بھی کھالی کہ وہ زندگی میں
کبھی بھی مشاعروں کانہ نام لیں گے نہ ان کا اہتمام۔
کچھ دانشور شعراء حالات کا جائزہ لے کر بڑے ہی اطمینان سے چھوٹی چھوٹی
نشستیں انعقاد کرنے لگ گئے ، جو ان کے دانا ہونے اور ادبی اشتیاق رکھنے کا
ثبوت دیتی ہیں۔
کچھ دلچسپ باتوں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا یعنی سماجی ابلاغ کے طور
پر لوگ وھاٹس ایپ ، فیس بُک اور یوٹیوب کو خوب استعمال کیے جارہے ہیں۔ روح
کی ادبی پیاس بجھانے کے لیے یہ ذرائع مفید ثابت ہورہے ہیں، یوٹیوب، وھاٹس
اپ اور فیس بُک بنانے والوں کا شکریہ ادا کرنا بھی ادبی اعتبار سے لازم
ہوگیا ہے۔
چند ہوشیار شعراء حضرات کی نگاہ فیس بُک پر پڑی۔
جیسے ہی اُس میں ایوینٹ کا آپشن دیکھا تو ان کی سمجھ میں ایک زبردست آئڈیا
آیا،
جس پر انہوں نے نہ ’’یوریکا‘‘ کہا نہ ’’یاہو‘‘۔ اگر کہا تو ’’فیس بُک‘‘۔
سوچا کہ بنا کسی خرچ کے آنلائن فی البدیہہ مشاعرے ہی درست ہیں۔ عام مشاعروں
کی محفل سجانے، شعراء کو مدعو کرنے، ان کے ناز و نخرے برداشت کرنے سے بچ
گئے۔ خرچ و اخراجات سے بھی نجات پالی۔ آم کے آم گٹلیوں کے دام،۔
دل ہی دل میں آواز لگائی وہ بھی زوروں سے ’’فیس بُک زندہ آباد‘‘۔
سوشیل میڈیا کیا ابھر کر آیا کہ دنیا بھر میں مشاعرے عام ہوگئے ہیں،
فیس بُک پر شعراء یوں نکل آئے ہیں جیسے بارش کے موسم میں شام کے وقت پتنگے۔
شمع اردو کے اطراف جذبۂ عشق لیے منڈلانے والے پروانے اپنے اردو عشق کا
اظہار کرنے فیس بُک پر جمع ہورہے ہیں،
گویا کہ ان پروانوں کے لیے فیس بک ایک شمع بن گئی ہے۔
عالمی سطح پر آنلائن طرحی مشاعرے، بہت ہی خوب فعل اور عمدہ مشغلہ ہے۔
کم از کم وہ حضرات جن کو اکثر و بیشتر مشاعرے پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، یا
کسی ادبی محافل میں شریک ہونے کے مواقع نہیں ملتے، ان کی پیاس بجھانے کا
بہترین پلیٹ فارم فیس بُک۔ شعراء کا اشتیاق بڑھے گا، شعر کہنے کا موقع ملے
گا، ایک دوسرے کا تعارف، ادبی گوشوں کا اشتراک، تبادلۂ خیالات ، یہ سب کے
لیے بہترین جگہ ہے فیس بُک۔ سب سے عمدہ اور خوبصورت بات ہے ’ مشقِ سخن ‘ ۔
فیس بُک پلاٹفارم مشقِ سخن کے لیے ایک حسین عطیہ ثابت ہورہا ہے۔
وھاٹس ایپ پر بھی عالمی مشاعرے ہورہے ہیں!
ایک مشاعرہ کا انعقاد کیے، دنیا بھر کے اخبار میں اس مشاعرے کی دھوم مچائی،
وھاٹس ایپ کے ساتھ ساتھ اخباروں میں بھی اپنے اپنے کلام دیکھ کر شعراء
حضرات خوشی سے پھولے نہیں سمائے۔ منتظمین کی بڑھ چڑھ کر تعریف کی۔ پھر
وھاٹس ایپ مشاعرہ غائب۔ لیکن فیس بُک پر یہ سلسلے جاری ہیں۔
شعراء کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اردو زبان و ادب سے خود کو جوڑنے کی ان
تھک کوشش میں لگا ہوا ہے، ان کی یہ کاوش قابلِ داد تحسین ہے۔ چلئے ایک ایسا
مکتب بھی فیس بُک کی شکل میں کھلا ہے جہاں اردو شعراء سیکھتے بھی ہیں اور
سکھاتے بھی۔
اگر اس زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو کافی اچھے شعراءِ کرام منظرِ عام پر آئے
ہیں، اور ان کا اچھاکلام بھی متعارف ہوا ہے، جو یقینا ستائش کے قابل
ہے۔ایسے اچھے شعراء جو غیر معروف رہ گئے تھے، ان کی پہچان بھی ہوئی اور ان
کا کلام بھی سامنے آیا۔ کچھ ایسے بھی مبتدی شعراء ہیں جو شاعری سیکھنے میں
لگے ہیں انہیں بھی خوش آمدید۔ کچھ احباب شاعری سکھانے میں بھی لگے ہیں
انہیں مبارکباد۔ عروض کی کتابوں کو پی ڈی یف فارمیٹ کی شکل میں آنلائن پر
بھی رکھا جارہا ہے، جو نہایت عمدہ بات ہے۔
حق بات یہ ہے کہ کچھ فیس بُک گروپ اتنے عمدہ طریقے سے مشاعروں کا اہتمام
کررہے ہیں، جن کی ستائش الفاظ میں ممکن نہیں۔ یقینا یہ اردو ادب کی سچی
خدمت ہے۔
لیکن ان کے ہاں بھی کچھ ایسے شعراء کا غلبہ ہے ایسا لگتا ہے کہ ان کو یہ
گروپ برداشت کررہے ہیں۔
انہیں روکنے سے قاصر اور کچھ کہنے سے بھی۔
کچھ کہہ دیں تو شرافت آڑھے آجاتی ہے۔
نہ کہیں تو مشاعرے برباد ہوجاتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں ایسی کونسی کمیٹی بنائی جائے جو یہ طئے کرے کہ فلاں شخص
قابل شاعر ہیں صرف ان کا نام ہی اس گروپ میں رکھیں،
اور یہ شعراء قابل نہیں ہیں انہیں گروپ سے الگ رکھیں
اور یہ کہیں کہ مشاہدہ کرو، سیکھو اور پھر حصہ لو۔
یہ بات ممکن نہ ہونے کی وجہ سے مشاعرے کھچڑی بھڑتا ہوگئے ہیں۔
خوبی یہ ہے کہ یہ مشاعرے پھر بھی کامیاب ہیں۔
ساتھ ساتھ فیس بُک سوشل میڈیا کی حیثیت سے پہلا نمبر حاصل کرچکا ہے۔ شعراء
حضرات اور شعر و سخن سے دلچسپی اور اشتیاق رکھنے والے حضرات فیس بک کو کہیں
تعارف گاہ تو کہیں تشہیر گاہ تو کہیں اشتہار گاہ کی مانند استعمال کر رہے
ہیں۔ یوں سمجھئے کہ فیس بُک ہر ایک کی پیاس بجھانے والا آبِ ادب اور ہر مرض
کی دوا ثابت ہورہاہے۔
کچھ احباب ایسے بھی ہیں جوشاعری کے میدان میں مبتدی ہیں،
مگر اُن کا دل انہیں مبتدی نہیں مانتا،
ایسے حضرات کی تخالیق کافی دلچسپ ہوتی ہیں۔
مزید ایسا حلقہ بھی ہے جو اُن کی بھرپور تعریف کر تا ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ تعریف ہے کہ تنقید۔ ایسے احباب جو شاعری جانتے ہیں
اور تنقیدی نظریہ سے واہ واہ کرلیتے ہیں۔
لیکن چند ایسے احباب ہیں جنہیں معصوم اردو شعراء یا شائقینِ ادب کہنا درست
ہوگا، تعریفوں کے پُل باندھ دیتے ہیں
ایسے اشعار پر جن کو بے تکی شاعری نہیں کہا جاسکتا مگر ـ ’تک بندی ‘ کہنا
بھی دشوار ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی دیکھا گیا کہ اپنی بے پناہ ادبی صلاحیتیوں کے مظاہرے
میں اپنا قیمتی وقت لگا رہے ہیں۔
اگر انہیں دیکھنے پڑھنے والانابھی ہو تو کچھ پرواہ نہیں، خود جو ہیں!
کچھ شعراء کا ایسا بھی گروہ ہے جو شاعری کے میدان میں خود کو شاعر اعلان
کرکے مشاعرے پڑھ لیتا ہے، کچھ اور ایسے بھی حضرات ہیں جن کے ادبی میعار کی
قید نہیں، شاعری کی نہ کوئی بین ہے نہ دھُن۔
اب فیس بُک کا میدان ان کے لیے کھلا ہے۔
لوگ شاعری لکھتے ہیں اور فیس بُک پہ پوسٹ کرتے ہیں، پوسٹ کیا کرتے ہیں گویا
کہ پھینک دیتے ہیں۔
ہم نے اپنے ادبی ہار کے منکے پھینک دئے ہیں
اوراب آپ کی باری ہے کہ انہیں پروکر ہار بنالو۔
ان کی شاعری میں زمین کی جگہ آسمان ہوتا ہے،
بحر کی جگہ سمندر ندی نالے ،
افاعیل کی جگہ اسرافیل میکائیل شرجائیل۔
ماشاء اﷲ وزن ایسا کہ ہائڈروجن کا جوہر بھی اپنے وزن پہ شرمائے۔
قافیہ ہجا بدل لیا اور خفیہ ہوگیا۔
ردیف ردی کی خیف ہوگئی اور خود پر خوش ہورہی ہے کہ دیکھو مجھے کوئی نہیں
بدل سکتا۔
کچھ شعراء حضرات کا یہ عالم کہ اپنی خوش رنگ شاعری کے لیے خوش نما ڈیزائن
بنا لیتے ہیں۔
ان ڈیزائنوں میں کہیں لڑکیاں تو کہیں لڑکے، کہیں پھول بیل تو کہیں باغیچوں
کے خوشنما منظر۔
اور ان ڈیزائنوں میں اپنی شاعری پیوستہ کردیتے ہیں۔
ایک اور اچھی بات یہ کہ خود کی تصویر چسپاں کردیتے ہیں۔
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے اپنا موبائل نمبر بھی ٹانگ دیتے ہیں۔ شاید اس امید
کے ساتھ کہ قارئین میں سے کوئی مشاعروں کا منتظم بھی ہو، اس کو ان کی شاعری
پسند آجائے، اور اپنے ہاں منعقد ہونے والے مشاعروں میں انہیں مدعو کرلے۔ ان
کی اس پُر اُمید شاعری کو شاعری کا (سرخ) لال سلام۔
آج کل اردو اپنے دن کے ۲۴ گھنٹوں میں ایک گھنٹہ ہنستی ہے تو ۲۳ گھنٹے روتی
ہے۔
آج کل کے ادبی اشتیاق کو دیکھ کر کبھی خوش ہوکر ہنستی ہے تو کبھی ادبی
محافل کو دیکھ کر ہنستی ہے۔
مگر اس کا رونا سنجیدہ ہے۔
اردو کی بقا کے نام پر اس کو دفن کیا جارہا ہے۔
وہ بھی رفتہ رفتہ جہالت کی زمین میں اس کا پورا جسم دفن کرچکے ہیں،
اور زمین کے اوپری حصہ میں اس کا سر رہ گیا ہے،
جس پر شاعری کا تاج پہنا کر اردو والے خوش ہورہے ہیں۔
اُس کا رونایہ بھی ہے کہ بڑے بڑے ادارے صرف مشاعرے کرنے میں مگن ہیں،
اور یہی کم یاب مشاعرے کامیاب ہورہے ہیں۔
اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ انہیں یاتو کوئی سیاسی جماعت اہتمام کرتی ہے یا پھر
کوئی اکیڈمی یا پھر کوئی یونیورسٹی۔خدا خوش رکھے ان تنظیموں کو۔
وہ احباب جنہیں اردو زبان کی بقا کا خیال رہتا ہے، اورجن کا یہ ماننا رہتا
ہے کہ صرف مشاعرے ہی اردو کی بقا کے لیے کافی نہیں ہیں۔
ان کی سوچ اکثر یہی رہتی ہے، آیا کہ یہ تنظیمیں مشاعروں سے باہر نکل کر کچھ
اور سنجیدہ پروگرام کریں گی بھی کہ نہیں؟
جیسے کہ سائنس سیمینار، ریاضی سیمینار،
اردو دائرۃالمعارف کو گھر گھر پہنچانے کے پروگرام ،
ان سب کے انتظامات کب ہوں گے ؟
کیا اردو والے ایسے پروگرام دیکھ پائیں گے بھی کہ نہیں؟
فلاں شاعر میوزیم،
فلاں ادیب میوزیم،
فلاں نقاد میوزیم سے ہٹ کر
اردو سائنس میوزیم،
اردو ریاضی میوزیم،
اردو سائنس کلب،
اردو عصری علوم میوزیم کب قائم ہوں گے؟
کیا اردو زبان شاعری، اردو ادبی محور اور نقاد کے حصار سے آزادی پاکر کچھ
اور وسعت پاسکے گی؟
اردو اُس وقت کا انتظار کررہی ہے، اور امید کررہی ہے کہ بھارت کی بڑی
تنظیمیں کچھ اس طرف بھی اپنا دھیان دیں گی،
تبرکاً ہی صحیح۔
فیس بُک پر اردو حضرات سے بھی یہی امید کررہی ہے ۔ |