بہت دور رس نظر تھی اقبال کی۔
ابھی پاکستان نہیں بنا تھا لیکن اقبال کی یہ پیش گوئی یقینا صرف پاکستان کے
لیے ہی تھی۔وطن عزیز کی آزادی سے لے کرکسی نے بھی اسلام کے اصولوں کے سامنے
رکھتے ہوئے سیاست نہیں کی۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر کوئی سیاست دان بھی قرآن
و حدیث کی رو سے سیاست کو لے کر چلتا تو پھر اسکے لیے دو ہی آپشن تھے یا وہ
پاکستان چھوڑ دیتا یا پھر دنیا۔کیونکہ اسلام کی میں جھوٹ بولنے کی گنجائش
نہیں ما سوائے جہاد کے، وہ بھی جب جیت یقینی ہو اور اﷲ سے امید بھی
ہو۔اسلام میں ہر حال میں وعدہ پورا کرنے کا حکم ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
’’ اے ایمان والو! اپنے وعدوں کو پورا کرو۔ بے شک تم سے ہر وعدے کے بارے
میں پوچھا جائے گا۔‘ ‘ پھر ایک اور بات بھی ہے کہ دولت کے ارتکاز کو ہلاکت
سے تشبیہ دی گئی ہے۔یعنی جب دولت چند ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے تو
پھر ملک کی معاشی حالت اس قدر دگر گوں ہو جاتی ہے۔کیونکہ جیسے جیسے دولت
اکٹھی کرنے کی لالچ بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے اسے خرچ کرنے کی استطاعت بھی
کم ہوتی جاتی ہے۔ حتٰی کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اپنی ذات پر بھی مال خرچ
کرنے کے بارے میں سو بار سوچا جاتا ہے۔ تو پھر دوسرے لوگوں کے لیے جیب سے
مال کیسے نکلے گا۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ تھوڑے سے پیسوں کے لیے
قتل و غارت شروع ہو جاتی ہے۔
اقبال کے اس مصرعے میں کہ ’’ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ‘‘
بہت کچھ پنہاں ہے۔سیاست کو صرف ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ جس
نے جس طرف مفاد دیکھا اسی طرف پلٹ گیا۔موجودہ حکومت شاید پاکستان کے تریسٹھ
سال میں واحد حکومت ہے جو اس وقت ہر بڑی سیاسی جماعت کو ساتھ لے کر چلی
ہے۔چاہے یہ سنگت مہینوں کی ہو یا سالوں کی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا
ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا کوئی نہ کوئی مفاد ہو گا تو ہی حکومت کا ساتھ دیا
ہو گا۔
اس سیاست کے بے لگام گھوڑے کو جب مزید بے قابو کر دیا جاتا ہے تو حالات وہ
رخ اختیار کر جاتے ہیں جوکچھ عرصہ پہلے کراچی میں نظر آرہے تھے۔ ان دنوں
میں ایک ایس۔ایم۔ایس آیا تھا کہ کراچی کا وہ کونسا علاقہ ہے جس کا نام آج
کل زبان زد عام ہے؟ جواب تھا گولی مار۔ چھ ماہ میں پہلے تک شاید ہی کوئی
ایسا دن گزرا ہو جب کم از کم دو، تین اموات نہ ہوئی ہوں۔حکومت کے نمائندے
کہتے ہیں اور سرِعام کہتے ہیں کہ انھیں معلوم ہے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے
کس کا ہاتھ ہے؟ اور کراچی کی مقامی لیکن مشہور پارٹی کے لیڈران کا بھی یہی
کہنا ہوتا ہے۔ اور باقاعدہ میڈیا کے سامنے ، پریس کانفرنس میں کہا جاتا ہے۔
میڈیا والوں پر بھی تھوڑا سا افسوس ہوتا ہے کہ یوں تو وہ ہر بات اگلوانے کے
ماہر ہیں۔ لیکن یہاں کوئی بھی جرات کر کے یہ سوال نہیں پوچھتا کہ اسکا نام
بتائیں اور پھر جب معلوم ہے تو اسکے خلاف باقاعدہ طور پر ثبوت پیش کیے
جائیں۔ لیکن نہیں۔ کیونکہ ان میڈیاوالوں کو بھی اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔ یہ
سوال کر کے انھوں نے بھی ان گمشدہ افراد میں شامل ہو جانا ہے جنھوں نے کبھی
برآمد نہیں ہونا۔
بات نکلی تھی جھوٹ اور وعدوں سے۔ قائد اعظم کے علاوہ شاید ہی کوئی سیاستدان
ایسا گزرا ہو جس نے سچ کے اور اصولوں کے جھنڈے گاڑے ہوں۔ لیکن کیا کریں
مجبوری ہے۔ اگر جھوٹ نہیں بولیں گے تو اس سیاسی معاشرہ میں انکا زندہ رہنا
نا ممکن ہو جائے گا۔ کیونکہ ایسے ماحول میں سچ بولنے والے کا دل کالا ہو
جاتا ہے۔ سچ بولنے والے کا حال عمران خان جیسا ہو جاتا ہے۔یہ حضرت 1995 سے
الیکشن میں حصہ لیتا آیا ہے لیکن سوائے اپنی سیٹ کے کبھی کوئی اور سیٹ نہیں
جیت سکا۔ اگر چہ عمران خان کا جلسہ ہمیشہ سب سے بڑا ہوتا ہے لیکن لوگ صرف
اپنے کرکٹ کے ہیرو کے دیدار کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ یا ایک دوسری بات بھی
ہو سکتی ہے کہ الیکشن کے نتائج بہت پہلے سے ہی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت
رکھے ہوئے ہوتے ہیں، ورنہ اتنے لوگوں کے مجمع میں سے کیا چالیس فیصد بھی
عمران خا ن کے حق میں ووٹ نہ ڈالیں گے۔لیک پھر 2013 کے الیکشن میں عمران
خان کی پارٹی نے پاکستان کی تیسری بڑی پارٹی کا اعزاز حاصل کر لیا۔ اس کی
وجہ کیا تھی وہی، سیاست کو دین سے جدا کیا گیا۔پاکستان کے بڑے برے نام جو
ہر لحاظ سے بڑے تھے، عمران خان کے ساتھ شامل ہوا۔ جھوٹ کے وہ طومار باندے
کہ صرف اﷲ معاف کر سکتا ہے، بندے نہیں۔
پھر بات آتی ہے وعدوں وعید کی۔ تین حضرات ان حضرات کا تکیہ کلام ہیں۔ گا،
گے، گی۔ ان الفاظ کا تعلق آے والے کل سے ہوتا ہے اور کل کبھی نہیں آتا۔جب
کل کبھی نہیں آ تا تو وعدہ کیسے پورا ہو؟ وعدہ پورا کرنے والوں کا حال این
اے ۔55 کے مشہور امیدوار کی طرح ہوتا ہے۔انھوں نے کہا تھا کہ سکولوں کے جال
بچھائیں گے۔ انھوں نے سکولوں اور کالجوں کا جال بچھا دیا لیکن صنف نازک
کے۔راولپنڈی میں سینکڑوں سکولوں اور کالجوں کا افتتاح ہوا۔وعدہ پورا ہوا۔
لیکن کیسا وعدہ۔آج نہ سکول ہیں نہ ہی۔۔۔۔۔کے لیڈر۔ ریلوے کی وزارت ملی۔
وعدہ کیا کہ پاکستان ریلوے کو دنیا میں ایک نمونہ بنا دیں گے۔ انھوں نے
بنایا۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے کسی نہ کسی ایکسپریس کا افتتاح ہوتا۔ بہترین
خوبصورت انجن اور نئی بوگیوں سے مزین نئی ٹرین عازم سفر ہوتی۔ وہ تو بعد
میں پتہ چلا کہ پرانے انجنوں پر نیا رنگ کر کے انجن نیا کر دیتے اور بوگیوں
کو ویلڈ وغیرہ کرا کر، سیٹ کور نئے چڑھا کر بوگی نئی بنا دیتے۔آج وہ وعدہ
ایسا پورا ہوا کہ ورلڈ ریکارڈ قائم ہونے لگے۔ پشاور سے اگر بہت کم بھی ٹرین
چلتی تھی تو 24گھنٹوں میں 2 ٹرینیں تو لازمی نکلتی تھیں۔ لیکن وہ دن بھی اس
ملک کی عوام کو دیکھنا پڑا کہ پشاور سے 36گھنٹوں میں کوئی ٹرین بھی نہیں
چلی۔اس کے بعد الیاس بلور آئے تو ریلوے بیٹھ گئی۔ او ر اب جو صورت حال ہے
وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ کہنے کو تو کسی نے اگر تھوڑا لمبا سفر کرنا ہے جیسے
راولپنڈی سے کراچی یا لاہور سے حیدر آباد تو اس کو ٹکٹ کرانے کے لیے کم از
کم پندرہ دن پہلے جانا پڑتا ہے۔ ورنہ ٹکٹ نہیں ملتی۔ پھر بھی کہا جاتا ہے
کہ ریلوے خسارے میں ہے۔ ویسے سب پاکستانی ایک بات تو لازمی جانتے ہیں کہ جو
ریلوے لائن پاکستان بنتے وقت تھی، اس کی لمبائی میں شاید ہی ایک کلومیٹر کا
اضافہ آج تک ہوا ہو۔ بلکہ الٹا کچھ سٹیشن ختم بھی کر دیے گئے ہیں یا ان کو
وقتی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت اسلام کی تعلیمات سے اتنی ہی
دور ہے جتنا ایک کمرے میں عام بیٹھے ہوئے انسان کی پہنچ سیکچن میں رکھا ہوا
پانی کا گلاس۔جب تک وہ انسان اٹھ کر کچن تک نہیں جائے گا، پانی کا گلاس اس
کے ہاتھ میں نہیں آسکے گا۔اسلام کی تعلیمات کو صرف پڑھنا ہی کافی نہیں کہ
پھر نہ تو کوئی سورۃ اخلاص پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی آیت الکرسی۔ان تعلیمات پر
عمل بھی فرض ہے۔ اور پھر خاص طور پر سیاستدانوں کا تو فرض بنتا ہے کہ سیاست
کی الف بے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خلافت سے لے کر حضرت علی رضی اﷲ
عنہ کی خلافت تک کی حالات زندگی پڑھیں۔ انھوں نے کس نہج پر خلافت کی کرسی
کو سنبھالے رکھا۔کس کس طرح اپنی رعیت کو سکھ پہنچایا۔ کون کون سے عوامی
فلاح کے منصوبے شروع کیے اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔ حدیث پاک میں ہے
کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم سے تمہاری رعیت کے بارے میں پوچھا
جائے گا۔ تب ہی تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ فرماتے تھے کہ اگر فرات کے
کناے ایک کتا بھی مر گیا تو ان کو خوف ہے کہ اسکی پوچھ گچھ بھی ان سے ہو
گی۔ اور آج کے حکمران کہتے ہیں کہ کیا ہوا۔ حادثہ تو ہوتا رہتا ہے۔
اگر اسلام کے اصولوں کے مطابق سیاست کی جائے، انفرادی سوچ کی بجائے اجتماعی
مفادات میں کام کیا جائے پہلے رعایا اور اسکے بعد اپنی اولاد کی فکر کی
جائے، انصاف کو انصاف کے ترازو میں تولا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان
کا معاشرہ دنیا کا بہترین معاشرہ نہ ہو۔ لیکن اگر ایسا ہو جائے تو پھر
امریکہ ہمیں امداد کیسے دے گا؟ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف قرضہ کیسے دیں
گے؟ یہاں نام نہاد این جی اوز اور کیسے اپنا دھندہ چلائیں گی ، جن کی آڑ
میں مسلم دشمن قوتیں اپنا جاسوس بھیجتی رہتی ہیں۔امداد سے یاد آیا کہ ایک
رپورٹ سرسری نظر سے گزری ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جس رفتار سے
قرضے لے رہا ہے اگر یہ قائم رہی تو تین چار سال میں پاکستان کو شاید اپنے
اثاثے بیچنے پڑیں۔ اور دشمن نے جس اثاثے کو سب سے پہلے خریدنا ہے وہ
پاکستان کی ایٹمی طاقت ہے۔ خدارا ، اے حکمرانو، غور کرو۔ اﷲ کی رسی بہت
دراز ہے ، ڈھیلی ہے لیکن جس دن کھنچ گئی، اس دن صرف اﷲ ہو گا اور آپ ۔ کوئی
بتائے کہ ہم بتائیں کیا۔کیونکہ ہم گونگے ہیں۔ |